کتاب کا عنوان لہو کو گرمانے اور روح کو تڑپانے والا ہے۔ کتاب دو ایسے بزرگوں کی باہم خط کتابت پر مشتمل ہے جو اب ’عالمِ ارواح‘ میں ہیں۔ اس کتاب کا نام ”خطوطِ بزرگاں“ بھی ہو سکتا تھا۔ ”مردہ بدست زندہ“ بھی ایک حسب حال عنوان ہے۔ ”رزمِ حق و باطل“ اس اعتبار سے ایک بامعنی نام ہو سکتا تھا کہ منشائے مرتب کے عین مطابق ہے۔ خیر، نام میں کیا رکھا ہے لیکن ایک بات طے ہے کہ نام کتاب کا ہو یا صاحبِ کتاب کا، اس کا املا درست ہونا چاہیے۔ کسی کے نام میں جب الف بڑھتا ہے تو میرے کلیجے میں ایک تیر سا لگتا ہے۔ مرتب، ’معرکہ خیروشر‘میں ایسے محو ہوئے کہ مطلع میں کاتب سے ان کا نام سخن گسترانہ ہو گیا اور ان کو خبر تک نہ ہوئی۔ کاتب نے یہ سلوک صرف کتاب کے مرتب خواجہ عبدالرحمن طارق کے ساتھ نہیں کیا بل کہ سرورق پر جہاں بھی لفظ ”رحمن“ تحریر کیا، وہاں الف بڑھا دیا۔ معین الرحمن صاحب کے نام میں بھی الف زائد ہے۔ خامہ خراب کے نام کا لاحقہ بھی ”رحمن“ ہے، اس لیے میں اپنے کاتب سے پیشگی رحم کا طالب ہوں۔
”معرکہ خیروشر“ اردو کے دو اہم ادیبوں مشفق خواجہ اور معین الرحمن کی خط کتابت پر مشتمل تصنیف ہے جسے خواجہ عبدالرحمن طارق نے ترتیب دیا ہے۔ خواجہ صاحب نے یہ کام محض جوش و خروش سے نہیں کیا، اس میں ہوش مندی بھی ہے جس کا اندازہ ’حواشی‘ سے کیا جا سکتا ہے۔ حواشی، مرتب کی کاوش پیہم اور وسعتِ علمی کو ظاہر کرتے ہیں۔ اس تصنیف کی ایک اہم خوبی یہ ہے کہ اس میں صرف مشفق خواجہ صاحب کے خطوط شامل نہیں بل کہ ان کے مکتوب الیہ کے مکاتیب بھی پہلو بہ پہلو موجود ہیں۔ یوں ایک مکالمے کی فضا ترتیب پاتی ہے اور مکتوب الیہ کے شخصی و علمی قدوقامت کا بھی اندازہ ہوتا ہے۔ مشفق خواجہ کے کسی اور مجموعہ مکاتیب میں یہ اہتمام نظر نہیں آتا۔ اور اب آخر میں اس کتاب کی سب سے اہم خوبی_اور وہ یہ ہے کہ اس مجموعے کی وساطت سے مشفق خواجہ صاحب کے چند اور خطوط منظرعام پر آ گئے ہیں اور اس بات سے کون انکار کر سکتا ہے کہ غالب کے علاوہ اگر کسی ادیب کے خطوط میں زندہ تخلیقی عناصر ہیں تو وہ صرف مشفق خواجہ ہی ہیں۔
”معرکہ خیروشر“ پر ایک نظر
یہ تحریر 2463 مرتبہ دیکھی گئی
