چوالیسویں کہانی:
میرابھائی،میراسلمان:
فیض صاحب کی نظم نوحہ مجھے اپنے دل کی آوازمعلوم ہوتی ہےخصوصا” یہ اشعار تو میرے دل کو کھینچ لیتےہیں کہ مجھے اپنی ہی کہانی معلوم ہوتے ہیں-یہ دکھ وہی محسوس کر سکتا ہے جس کا کڑیل جوان لائق خوبصورت بھائی دیکھتے دیکھتے اپنے ہاتھوں سے نکل جائے-
مجھ کو شکوہ ہے مرے بھائی کہ تم جاتے ہوئے
لےگئےساتھ مری عمرگزشتہ کی کتاب
اس میں تومیری بہت قیمتی تصوریریں تھیں
اس میں بچپن تھا مرا اور مرا عہد شباب
اس کے بدلے مجھے تم دے گئے جاتے جاتے
اپنے غم کا یہ دمکتا ہوا خوں رنگ گلاب
بریگیڈئیر ڈاکٹر غضنفر عباس جسے گھر میں سب سلمان کہتے تھے ہم تینوں بھائیوں میں سب سے چھوٹا اور سب بہن بھائیوں کی آنکھ کا تارا اورپیارا تھا-بچپن ہی سے ہر ایک پر جان چھڑکتا تھا،جب ذرا بڑا ہوا تو گھر کی ساری ذمہ داریاں اپنے سر لے لیں،پڑھائی لکھائی میں سنجیدہ اور بہت محنتی،انجینئیرنگ یونیورسٹی لاہورمیں پڑھائی کے دوران ہی میں پاکستان آرمی کی ای ایم ای میں کیپٹن منتخب ہوگیا،پھر ترقی کرتے کرتے بریگیڈئیر کےمنصب تک پہنچا اس دوران بھی پڑھائی جاری رکھی اورامپیریل کالج لندن سے انجینئرنگ میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی اور پھر پوسٹ ڈاکٹریٹ بھی کی،ای ایم ای کالج میں پڑھایا،واہ آرڈیننس فیکٹری میں ڈائرکٹر ریسرچ کے طور پر فرائض انجام دئے اور پھر واہ میں ہی یونیورسٹی قائم کی اوراس کا بانی وائس چانسلرمقرر ہوا-شادی نہیں کی کہ پہلے چھوٹی بہن کی ہو گی تب کروں گااور یہی ہوا-بہرحال شادی ہوئی،انتہائی وفا شعار اور خدمت گزار بیوی نصیب ہوئی جو اعلئ تعلیم یافتہ یعنی پی ایچ ڈی پروفیسر ہے ،ماشاالللہ دو بیٹے ہوئے مستحسن عباس،زین عباس دونوں فوج میں کمیشنڈ آفیسر ہیں مگریہ جواں مرگ ہم سب کو روتا۔ چھوڑ کر۲۰۰۹ء میں الللہ کو پیارا ہوگیا
رہنے کو سدا دہر میں آتا نہیں کوئی
تم جیسے گئے ایسے تو جاتا نہیں کوئی