کہانی در کہانی

یہ تحریر 360 مرتبہ دیکھی گئی

اڑتیسویں کہانی:

ہک ہا بادشاہ-لیہ کےفقیرمحمدکی کہانی:
چاندنی رات،لق و دق صحرا کی سنسناتی خاموشی، چاندی کی سی لشکیں مارتی ہوئی ریت کی چادر اور اُس چادر پر میرا عریض و بسیط نواڑ کا پلنگ اوراُس پلنگ پر براق سفید بستر کی چادر، پلنگ کے چاروں اور پانی کا چھڑکاؤ،سائیڈ ٹیبل پرپانی کا بھرا جگ اور منقش بلوریں گلاس- یہ کوئی تخیلی منظرنامہ نہیں ہے،یہ ذکرسن تہتر چوہترکے گورنمنٹ کالج لیہ کے ہاسٹل گیٹ کے باہر ریت کےٹیلوں میں گھرےوسیع میدان کاہے جہاں دور درختوں کی اوٹ سےکالج عمارت کی جھلک بھی نظر آ رہی ہے-دراصل میری ملازمت کےشروع کےسال نگرنگرپھرامسافر کے مصداق رہے ہیں،۱۹۷۱میں مظفر گڑھ کالج میں تقرر ہوا،ابھی یہاں ڈیڑھ دوسال ہی خوش و خرم گزارےتھے کہ ایک بااثرسیاسی بندہ کےکسی بھتیجے بھانجے کو یہاں لانے کے لئے مجھے لیہ کی طرف لڑھکا دیا گیامگرمیرےلئے یہ تبادلہ نعمت غیر مترقبہ ثابت ہواکہ یہاں نہ آتاتو زندگی کے کئی ایک نت نئے تجربات سے نا آشنا رہتااورمیرے جنوبی پنجاب کے مشاہدات مظفرگڑھ کی حد تک ہی محدود رہتے،لیہ میں مظفر گڑھ کی شور شرابے والی زندگی کی بجائے پرسکون، خاموش ماحول نے ذہن پر بہت ہی عمدہ اثرات مرتب کئے خصوصا” لیہ کے لق و دق صحرامیں چمکتی ریت کی فینٹسی کو میں آج تک بھلا نہیں سکا ہوں-خیر بات کو پھروہیں سےشروع کرتے ہیں جہاں چھوڑا تھا،ہوسٹل کاچوکیدارفقیر محمد انتہائی محنتی، جفا کش اور فرمانبردار انسان تھا،ہر وقت جی سئیں جی سئیں کی رٹ لگائےرکھتا تھا،کیسا ہی مشکل کام کہہ دوکبھی منع نہیں کرتا تھا،کہا کرتا تھاکہ بڑی مشکل سے تو استاد یہاں ہمارےدور دراز علاقے میں آتے ہیں ان کی خدمت ہمارا فرض بنتا ہے-فقیر محمد کا معمول تھا کہ پہلے تو میرا بستر تیار کرتا پھر جب میں سونے کے لئے بستر پر جاتا وہ پلنگ کے ساتھ ریت پر بیٹھ جاتا،میں لاکھ کہتا اوپر پلنگ پر بیٹھ جاؤ مگر نہ مانتا کہا کرتا تھاسئیں ریت ہماری زندگی ہے اور پھر وہ کوئی نہ کوئی کہانی سنانا شروع کر دیتا—ہک ہا بادشاہ،اساں دا تُہاڈا خدا بادشاہ۰۰پھر جو کہانی شروع کرتا تو مجھے بھی معلوم نہیں کن کن دنیاؤں میں اپنے ساتھ لے جاتاکہ ہوسٹل کی مسجد میں حافظ عبدالغنی کی اذان فجر کی آواز سے آنکھ کھلتی تو یادبھی نہ ہوتا میں کب سویاتھا؟معلوم نہیں کہاں کہاں سے کہانیاں لاتا کہ اُس کا یہ ذخیرہ کبھی ختم نہ ہوتاتھا،کبھی کبھی اپنی زندگی کے سچے قصے بھی سناتا جو کہانیوں سےزیادہ دلچسپ ہوتے تھے-فقیر محمد اسم با مسمی تھا،تمام فقیری صفات کا حامل، کبھی ترنگ میں ہوتا تو خواجہ غلام فرید رح کی یہ کافی لہک لہک کر لگاتااور رنگ باندھ دیتا؀
موساگ ملیندی دا گجر گیا ڈینہ سارا
شنگار کریندی دا گجر گیا ڈینہ سارا
کجلا پایم سرخی لایم کیتم یار وسارا
کاگ اڈینڈی عمر ویہانی آیا نہ یار پیارا
روہ ڈونگر تے جنگل بیلا رولیم شوق آوارہ حک دم عیش دی سیج نہ مانڑیم بخت نہ ڈتڑم وارا
پڑھ بسم اللہ گھولی ام سرکوں چاتم عشق اجارا
رانجھن مینڈا میں رانجھن دی روز ازل دا کارہ
ہجر فریداؔ لمبی لائی جل گیوم مفت وچارا رات کے سناٹے میں جب اُس کی رسیلی آوازگونجتی تو سماں بندھ جاتا ہوسٹل کے لڑکے بھی کمروں سے
نکل آتےاور سب داد وتحسین کے ڈونگرے برساتےاب ایک نظر فقیر محمدکے حلیے پر بھی ڈالتے چلیں ، اُس وقت تک موبائل تو آئے نہیں تھے لہذا تصویرممکن نہیں بس اس تصویری خاکے پرہی اکتفا کیجئے، صوفیوں والے لمبےپٹے،چہرے پر ہلکی سی داڑھی،سفیدلمبے کُرتے کے نیچےسفیدتہبنداوراوپرسفیدپھتوئی البتہ کبھی کوئی تقریب ہوتی توسر پرململ کاصافہ بھی سفید-فقیرمحمد کی کہانی مکمل نہیں ہوسکتی جب تک میں چمکتی ریت کی لہروں پر تیرتی لیہ کالج کی تاریخ کےاُس گوشے کا ذکر نہ کروں جہاں ہم اساتذہ بیٹھ کرخوش گپیںاں کیا کرتے تھے، کیا کمال کے لوگ تھے،فقیرمحمدسرگانی،عبدالمجید، ریاض شیخ،ملک الللہ بخش، علامہ عبدالعزیزصاحبان،پرنسپل سید محمد باقررضوی بہت نستعلیق،بُردبا،بظاہر سنجیدہ مگرخوش باش اورلطیفہ سنج انسان تھے،ہمیشہ اچکن پہنتےہاتھ میں چھڑی ہوتی صبح وہ جب کالج آتے تو اُن کا چپڑاسی آگے آگے سر پر کانفیڈنشل بوکس اُٹھائے ہوئے چلتا،خودوہ اُس سے چند قدم پیچھے پیچھے رہتے،گویا یہ اُن کی آمد کا اعلان ہوتا پھراسی انداز سے واپسی ہوتی-سادہ اتنےکہ کئی لطیفےسرزدہو جاتے جن دنوں یہ شکر گڑھ کالج میں تھے توچاند رات میں کالج اساتذہ کےجلو میں واک کررہےتھےحسب معمول چھڑی اور ٹارچ ہاتھ میں تھیں کہ ایک ساتھی نےکہاشاہ جی دیکھیں چاند کتنا خوبصورت لگ رہا ہے، شاہ صاحب نےفورا” ٹارچ چاند پر ڈالی اور کہا جی ہاں واقعی! مجھےلیہ کی نیو خان کی بس بھی ابھی تک نہیں بھولی کہ رات دس بجے لیہ سے چلتی تھی اور فجر کی اذان کے ساتھ اڈہ بادامی باغ لاہور میں داخل ہوجاتی،مجال ہےکبھی لیٹ ہوئی ہو-مجھےلیہ کے بس اڈے تک پہنچانے کی ذمہ داری بھی فقیر محمد نےاپنےسر لی ہوئی تھی کیا زمانے تھے،ایک اوربات یاد آئی کہ اُنہی دنوں لاہور میں اسلامی سمٹ ہو رہا،تمام اسلامی ممالک کے سربراہ شرکت کے لئےآئےہوئےتھے جن میں کرنل معمرالقذافی بہت نمایاں تھے، شاید اتوار کا دن تھااور ہم کچھ اساتذہ شیخ ریاض صاحب کے گھرٹیلی ویژن پر اس کی کاروائی دیکھ رہےتھے کہ معلوم نہیں پروفیسر الللہ بخش کو جو عربی کے استاد تھے کیا سوجھی،بولے کرنل قذافی کا نام اگر سرائیکی میں ہوتا تو کیا ہوتا، سب نےاپنااپنا ترجمہ پیش کیامیری باری آئی تو نہ جانے کیسے ذہن میں یہ سرائیکی نام آگیا”جند وڈاقذافی”بس پھر کیاتھاسب اُچھل پڑے،ملک صاحب نے تو بہت داد دی-
لیہ کی اتنی یادیں,اتنی باتیں اوراتنی کہانیاں ہیں لیکن؀ یاد اس کی اتنی خوب نہیں میرؔ باز آ
نادان پھروہ جی سے بھلایانہ جائےگا
———————