دوسری کہانی:
سیمرغ کی کہانی،اماں اور ابا:
شیخ فریدالدین عطار(ر) کی فارسی مثنوی “منطق الطیر” چار ہزار چھ سو اشعار پر مشتمل ہے-یہ مثنوی اپنے آسمانی سفرناموں کی وجہ سے معروف ہےاس میں ایک مشکل سفر کا بیان ہے جو سات وادیوں سے گزرنےکی بہت ہی کٹھن منزل ہے-جستجو،توحید،عشق، معرفت، استغنا،تحیراور فنا،یہ سات وادیاں ہیں-ہُدہُدکی رہنمائی میں تیس پرندے ساتوں وادیاں عبور کر تے ہیں تووہ وادئ فنامیں پہنچ جاتےہیں جہاں اُن کوسیمرغ دکھائی دیتاہے جب وہ سیمرغ کو بغور دیکھتے ہیں تو اس میں اور اپنے آپ میں انہیں کوئی فرق نظرنہیں آتا-نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ وہ تیس پرندےعلامتی طور پر اپنی ہی تلاش میں نکلے تھےاوراپنی یافت پر ہی ان کا سفر ختم ہوا۔عطار نے اپنی مثنوی میں سیمرغ کوزندگی کی سختیوں اورکٹھنائیوں کےسفر کے انجام کی علامت کےطورپر اپنی داستان میں پیش کیاہےاس علامتی پرندےسیمرغ کا سر پرندے کا اور دھڑشیر کا ہوتا ہے اس خوش رنگ خوش آواز پرندے كی چونچ میں تین سو ساٹھ سوراخ بتائے جاتےہیں اور کہا جاتا ہے کہ ہر سوراخ سے ایک راگ نكلتا ہے- سیمرغ كی عمر ایک ہزار سال بتائی گئی ہے، جب یہ مدت پوری ہوجاتی ہے تو یہ پرندہ لكڑیاں جمع كرتا ہےاوران پر بیٹھ کرمستی كے عالم میں گاتا اور پروں كو پھڑپھڑاتا ہے،پھراپناوجود نیاجنم لینےکے لئے ختم کر لیتا ہے- چند جُزوی اختلافات کے باوجود کہانی کا مرکزی خیال کم و بیش ایک ہی ہے قدیم داستانوں میں عمومی طور پرسیمرغ کوحیات نو،شفا،حکمت اور الوہیت کاسرچشمہ قراردیا گیاہے- آج کی اس کہانی میں ،میں نےنسل انسانی کی تخلیق اورارتقاءکےسفر کو سیمرغ کی علامتی کہانی کے پس منظر میں دیکھنےکی کوشش کی ہے سیمرغ کی کرامات کواگرنسل انسانی کی تخلیق وارتقاء کی منازل کے محرک اوروسیلے یعنی والدین کے حوالے سے دیکھا جائےتو آپ کو والدین کا کردار سیمرغ کے کردار کا پرتو نظر آئے گااورسیمرغ کی تمام تر صفات والدین کے ہر ہر عمل میں آپ کو نظر آئیں گی،وہ حیات نوہو، شفاہو,حکمت ہویاالوہیت کافیضان تمام کی تمام صفات والدین کے وجود کاحصہ ہوتی ہیں اوراُن کی یہی صفات اورکرداراولادکےذریعےنسل انسانی میں منتقل ہوکراس کےارتقا اورتسلسل کا باعث بنتی ہیں- اسی لئے قرآن حکیم میں والدین کوادب واحترام کامرکز قراردےکراُن کے لئے یہ دعا تعلیم کی گئی ہے:
﴿رَّبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّيَانِي صَغِيرًا﴾
چنانچہ میری کہانی آج سیمرغ اور اپنےاماں،ابا کی تکون کے اندرسفر کرے گی-تو چلئے کہانی کاآغاز کرتے ہیں- یہ۱۹۴۸ع کےآخری مہینے کی کہانی ہےساندہ روڈ کی ایک نوتعمیرسیمنٹ والی کوٹھی میں ایک بھرے پُرے متمول خاندان میں ایک ذی روح وجود میں آتا ہے-خوشیاں چاروں اور پھیل جاتی ہیں گویا چمن میں بہار آجاتی ہے-دو لوگ یعنی ماں باپ سب سے زیادہ مسرور ہیں کہ نومولودلڑکا ہےاوربرصغیر میں لڑکوں کو معلوم نہیں کیوں ترجیح دی جاتی ہے-یہ قصہ میرا اپنا ہے اور منطق الطیر کے فلسفہ کے مطابق لوٹ پھر کر میرے اب و جدتک پہنچ جاتا ہے اس کہانی میں، میں اپنے ابااماں کو یاد کرتے ہوئے اپنی اور اوراُن کی کہانی سناؤں گااس کہانی میں شاید آپ کو مزا نہ آئے مجھے تو بہت آئے گا-
میری اماں:

مائیں سب کو پیاری ہوتی ہیں- یہ وہ پہلی منزل ہوتی ہے کہ جس سے ہر انسان جنم لینےسےپہلےہی متعارف ہو جاتا ہےاورولادت کے بعد اُسے پہلا لمس بھی ماں ہی کا ملتاہے اور آگےچل کراُس کی پہلی ممتا ماں ہی بنتی ہےاور پہلی زبان جو وہ سیکھتا ہے ماں بولی کہلاتی ہے-مجھے آج بھی اماں کالمس اورمجھےسلانےکے لئےاُن کی لوری کے یہ بول یاد ہیں: ہیں-
حسبی ربی جل الللہ
مافی قلبی غیر الللہ
نور محمد صلی الللہ
لا الہ الا الللہ۔
محمدالرسول الللہ
اماں نےلوری کی گھٹی ایسی پلائی تھی کہ آج تک یہ میرےلئےایمان کی پختگی کاباعث بنی ہوئی ہے-مجھے یاد ہے کہ ہم بہن بھائی صبح جب سو کر اُٹھتے تھے تو سب سے پہلے اماں ہم سے کلمہ طیبہ سنتی تھیں اورکہتی تھیں کہ اُٹھ کر شکر کیا کرو کہ تم کو الللہ نےنئی زندگی دی،آج تک میری یہ عادت ہے کہ صبح اُٹھ کر سب سے پہلے سجدۂ شکر ادا کرتا کرتاہوں ،اچھی مائیں ایسے ہی اولاد کی تربیت کرتی ہیں-بڑے ہو کرمیں نےقرآن حکیم کامطالعہ کیااور یہاں یہ آیت دیکھی توصبح اُٹھ کرالللہ کا شکر ادا کرنے کی اماں کی نصیحت کی رمز میری سمجھ میں آئی-
(اور وہی تو ہے جو رات کو سونے کی حالت میں تمہاری روح قبض کر لیتا ہے اور جو کچھ تم دن میں کرتے ہو اس سے خبر رکھتا ہے پھر تمہیں دن کو اٹھا دیتا ہے تاکہ یہی سلسلہ جاری رکھ کر زندگی کی مدت معین پوری کر دی جائے پھر تم سب کو اسی کی طرف لوٹ کر جانا ہے پھر وہ تم کو تمہارے عمل جو تم کرتے رہتے ہو ایک ایک کر کے بتائے گا۔)
سورہ الانعام
اماں اپنے زمانے کے اعتبار سے بہت پڑھی لکھی تھیں ، ذہن بھی زرخیز تھا-اُنہوں نےگورنمنٹ مڈل نارمل سکول سے مڈل کا سرکاری امتحان فرسٹ ڈویژن میں پاس کیا تھا کہ شادی ہوگئی اور وہ پھر تعلیم جاری نہ رکھ سکیں ہمیں بڑے فخر سے اپنی مڈل کی سندد دکھایاکرتیں- اُنہیں تعلیم حاصل کرنے کا بہت شوق تھا، یہ شوق اُنہوں نے اپنی اولادکواعلیٰ تعلیم دلوا کرپورا کیاتھا- اماں کا حافظہ بلا کاتھااوراُن کواپنے خاندان کےتمام پرانے قصے یاد تھے جو وہ ہمیں مزے لے لےکر سنایا کرتی تھیں-اُنہیں انیس و دبیر کے طویل مرثیے ازبر تھے جووہ مرثیے کے مخصوص انداز میں لہک لہک کر پڑھا کرتیں اورامام مظلوم ع کی مظلومیت پرزاروقطار آنسو بہایاکرتی تھیں اماں ہمیشہ صبح سویرے اُٹھ جایا کرتی تھیں، چوں کہ ہمارامشترکہ خاندانی نظام ابھی اُس وقت تک ٹوٹا نہیں تھا تو وہ اپنےحصے کا کام منٹوں سیکنڈوں میں نبٹالیا کرتیں کہ اُن کےہاتھ میں بہت پُھرتی تھی- وہ ہنس مکھ اور بذلہ سنج تھیں ،حس مزاح اماں میں کوٹ کوٹ کربھری ہوئی تھی-ہم بچوں سے بھی اکثر چھیڑ چھاڑ کرتی رہتی تھیں مگر جب غصے میں ہوتیں تو ہم اُن سےچھپتے پھرتےتھےکبھی کبھی ایک آدھ ہاتھ بھی جڑ دیتی تھیں مگر اُن کا یہ غصہ بھی چند لمحوں کا ہوتا تھااوربعض اوقات ہماری پٹائی کرنے کے بعد خودبھی رونے لگتی تھیں اور بار با اُس کو پیارکرتی تھیں جسے پیٹا ہوتا تھا-میں نےاماں سے بہت ہی کم مار کھائی ہے شایداس لئے کہ میں اولاداکبر تھا یا شرارتی نہیں تھا-
اماں صبح سویرے اُٹھ کر تمام دن اسماعیل میرٹھی کی چکی کی طرح ہر وقت کام میں جتی رہتیں :
نہر پر چل رہی ہے پن چکی
دھن کی پوری ہے کام کی پکی
بیٹھتی تو نہیں کبھی تھک کر
تیرے پہیے کو ہے سدا چکر
اپنےبچپن میں میں نے اُنہیں کبھی بھی نکما بیٹھے نہیں دیکھا-مطالعہ کی بہت شوقین تھیں اوراخبار پڑھنا اُن کا روزانہ کامعمول تھا-سیر و تفریح کابھی بہت شوق تھا-اکثر و بیشتر تفریح کے بہانےڈھونڈتی رہتی تھیں،ہم بچوں کوہمیشہ ساتھ رکھتیں رکھتیں، اُن کامعمول تھا کہ ہرچھٹی کے دن ہمیں کسی رشتہ دار کے گھر لے کر جاتیں یا کسی نہ کسی کی گھر پر دعوت کرتی تھیں اور گھر پر خوب رونق رہتی تھی-اماں کی اتنی باتیں ہیں کہ دفتر کے دفتر بھر جائیں مگر دامن وقت میں گنجائش نہیں،بس آخری چند باتیں-اماں کو سردیوں میں گھر کی چھت پر دھوپ میں بیٹھ کر کنو کھانا بہت اچھالگتاتھا، روزانہ درجنوں کنو کھاسکتی تھیں اماں نیک روح تھیں،اسی لئےمنٹوں سیکنڈوں میں اپنے خالق سے جا ملیں- عصر کی نماز سےفارغ ہوئی ہی تھیں کہ دروازے پر دستک ہوئی- دیکھنے کو اُٹھیں کہ گریں اوراُسی لمحے خالق حقیقی سےجاملیں-ڈاکٹروں نے بتایا یہ ہارٹ ارسٹ تھا-نہ کوئی بیماری، نہ تیمارداری-ہمیشہ ایسی ہی موت کی آرزو اور دعا کیا کرتی تھیں، اُٹھتے بیٹھتے کہتی تھیں الللہ مجھے چلتے ہاتھ پیر بلا لےکسی کا محتاج نہ کرےیہی ہوا اورکسی کو خدمت کاموقع نہ دیا-
ایک ہی جملے میں اس کہانی کاخلاصہ کیا جا سکتا ہے: ماواں ٹھنڈیاں چھانواں-
میرے ابا:

مجھ سےاگرکوئی “فرشتہ صفت “ کا مطلب پوچھےتومیراجواب ہوگا۔۔۔ میرےابا-وہ واقعی درویش صفت، سادھومنش شخص تھے-اندر باہر سے ایک، نہ لینےمیں نہ دینے میں بس کام سے کام رکھتے تھے- ابا کی کہانی جہاں سےبھی شروع کروں ایک ایسے شخص نظر آتے ہیں جن کی زندگی ایثار وقربانی سے عبارت ہے-بچپن میں ماں باپ کا سایہ سرسے اُٹھ گیا،بڑے بھائی نے حسب استطاعت سر پر ہاتھ رکھا مگر اُن کی حمیت نے گوارا نہ کیا، پھر میٹرک کے بعدتعلیم ادھوری چھوڑ کر فوج میں بھرتی ہوگئےاور زندگی کی آخری سانسوں تک کام ہی میں جُتے رہےساری زندگی بہن بھائیوں بھانجوں بھتیجوں کی خدمت کرتے رہے، اپنا کم ہی سوچاوہ توپھرقریبی عزیزتھے ابا تو سڑک چلتے ضرورت مند کی مدد کے لئے ہمیشہ تیار رہتے تھے- مجھے یاد ہے بچپن میں ابا کے ساتھ کرشن نگر کے آخری سٹاپ سے ایک نمبر بس میں بیٹھ کر جب میں سکول جاتا تھا تو ابااُن سب کا ٹکٹ بھی لےلیتے تھے جودور پرے کے اُن کے واقف ہوتے تھے اور ہمارےساتھ بس میں سفر کر رہے ہوتے-ہاتھ کے بہت کھلے تھے، کہا کرتے کہ جب جیب خالی ہو تو مجھے زیادہ سکون ہوتاہے ابانے مجھے اُنگلی پکڑ کر چلایااورزندگی کی اونچ نیچ سے آگاہ کیاوہ ہمیشہ کہا کرتےتھے کہ کسی کو اپنے سے حقیر نہ سمجھواور نہ ہی کسی کی دولت ، شہرت سے متاثر ہوا کرو کہ یہ دھن دولت اور شہرت سب عارضی ہیں اور کہ سدا رہےنام الللہ کا- بچپن میں وہ ہمیں بہت گھماتے پھراتےاورمیلےٹھیلے دکھاتے تھےلاہورمیں اُن دنوں میلے بھی بہت ہوتےتھے،داتاگنج بخش، میاں میر،شاہ عبدالمعالی کےعرس کےعلاوہ میلہ چراغاں،بسنت کا میلہ، قدموں کا میلہ، پار کا میلہ،جوڑ کا میلہ پھرہمارےاپنے ہی محلےمیں بودی شاہ کامیلہ لگتا تھاابا کومیلے کا قتلمہ بہت پسند تھاجوایک سوغات ہوتی ہے، ہمیں پیٹ بھر کر کھلاتے اور گھر کےلئے بھی خریدتے تھے-ان میلوں کی وجہ ہی سے تو لاہور کے بارے میں کہا گیا ہےکہ:
ست دن تے اٹھ میلے
گھر جاواں،کیڑےویلے
لاہورکےمیلوں کی یہ قدیم روایت تو اب دم توڑ چکی ہےاب لاہورکوبس فیض احمد فیض اورجون ایلیا کے میلوں کے حوالے سے پہچانا جاتا ہے جوچاردیواریوں تک محدود ہوکر رہ گئے ہیں – اُن دنوں لاہورکے باغ ابھی قائم تھے-چھٹی کے دن ابا مجھےسیرکولے جاتے،بھاٹی دروازے سےباغ میں داخل ہوکرہم دلی گیٹ تک جاتے، اس باغ میں پانی کی پتلی سی لکیر ہمارے ہمارےساتھ ساتھ چلتی تھی جسےمیں معلوم نہیں میں کیوں نہرسمجھتاتھاحالانکہ وہ باغ کی آبیاری کے لئےپراناسسٹم تھاقدیم درختوں کےبڑےبڑےجھنڈ،فوارے، قدم قدم پرکسرکرتےنوجوان، پہلوانوں کے اکھاڑے،اردگردبنے چبوتروں پر ٹپے ماہئیے، ہیر رانجھا اورسوہنی مہینوال پُرسوزلہجوں میں گانے والی ٹولیاں باغ کی رونق میں اضافہ کرتی نظر آتی تھیں واپسی پردلی دروازے سے ہم تانگےپربھاٹی دروازے تک آتے آتےاور پھرکچہری سٹاپ سے ایک نمبر بس پربیٹھ کر کرشن نگر تک پہنچتے-ابا کامعمول تھاکہ روزانہ دفتر سے واپسی پر موچی دروازے کے حلوائی کی انتہائی لذیذ برفی یا قلاقند ہم بچوں کےلئے لایا کرتےیہی وجہ ہے کہ آج بھی برفی ،قلاقندآج بھی ہم بہن بھائیوں کو بہت پسند ہے ابا رات کوسونےسے پہلے ہمیں مزے مزے کی کہانیاں سنایا کرتے تھےایک کہانی مجھے آج بھی کچھ کچھ یاد ہے-ہنستی چھالیا اورروتے پان کی کہانی جس میں پان توہمیشہ روتا ہی رہتا تھا اور چھالیا ہر حال میں ہنستی مسکراتی اورشکرگزاررہتی تھی آگے مجھے یاد نہیں-سبق یہ تھا کہ جو لوگ ہرحال میں خوش اورشکر گزار ہوتے ہیں وہی فائدہ میں رہتے ہیں-اُس دور کی ان کہانیوں میں بڑی وزڈم ہوتی تھی-بچے ان سے زندگی کا سبق سیکھتے تھےسب سے بڑی بات کہ کہانیوں کےذریعے والدین اوراولاد کارشتہ مستحکم تھاجوفی زمانہ کسی حد تک معدوم ہو چکا ہے-ابا ہمیں شیخ چلی کی کہانی بھی بہت سناتے تھے،یہ بڑی معروف کہانی ہےاورشیخ چلی کے خیالی پلاؤ اور لن ترانیوں کی باتوں میں بھی ہمیشہ حکمت و دانائی کے کئی ایک سبق پوشیدہ ہوتے تھے- یہ کہانیاں کسی نہ کسی طرح آج بھی بہت مقبول ہیں- شیخ چلی کی کہانی کے ذکر کے ساتھ ہی ہماری دوسری کہانی بھی اب اختتام کو پہنچتی ہے-
یار زندہ،صحبت باقی-









