چین کب حضرتِ غائر کو کہیں

یہ تحریر 1184 مرتبہ دیکھی گئی

اپنے نئے شعری مجموعے “آسمان آنکھ اٹھانے سے کُھلا” میں کاشف حسین غائر نے وہ سب ستائشیں شامل کرکے، جو وقتاً فوقتاً ادب سے وابستہ حضرات نے ان کی غزلوں کو سامنے رکھ کر کیں، اپنی مشکلات میں کچھ اضافہ ہی کیا ہے۔ جب اتنی داد مل چکی ہو تو شاعر، کسی نہ کسی حد تک، یہ شعوری کوشش کرتا ہے کہ پہلے دو مجموعوں میں جس شعری سطح کو چھو چکا ہے اسے برقرار رکھے۔ وہ سمجھتا ہے، اور یہ سمجھنے میں حق بجانب ہے کہ اب قارئین اس سے یہی توقع رکیں گے۔ یہ خیال بڑا چیلنج ہے اور شاعر کو چوکس رکھتا ہے۔ شعری سطح کو برقرار رکھنے کی کاوش سان کی مانند ہے۔

ان نئی غزلوں میں کاشف حسین غائر نے اپنے معیار کو قائم رکھا ہے۔ ظفر اقبال نے کیا خوب تبصرہ کیا ہے کہ “میرے خیال میں اس کے دماغ میں ایک ایسا فرما فٹ ہے جس سے وہ شعر نکل ہی نہیں سکتا جو اس کے معیار پر پورا نہ اترتا ہو۔” لیکن یہ فرما نیرنگ سے پُر ہے۔ شعر صف در صف سامنے آتے جاتے ہیں لیکن غور سے دیکھنے پر کسی شعر کے خدوخال دوسرے شعر سے نہیں ملتے۔ خطوط سادہ ہیں اور ہلکے رنگوں میں ہیں۔ اس کے باوجود اول کا آخر ایک سیر بینی کیفیت ہے۔

غالباً اس ہنری مندی میں یہ جوہر کارفرما ہے کہ غائر کی غزل آرائش سے خالی ہے۔ بہت سے لوگ یہ سوچتے ہی نہیں کہ سیدھے سادے لفظوں کو معمولی ترتیب دے کر کیا کیا ستم ڈھائے جا سکتے ہیں۔ یہ غزلیں ایک ایسے فرد کی باطنی کیفیات کی ترجمانی کرتی ہیں جو بہت تنہا اور اداس ہے۔ یہ احساسات نئے نہیں۔ حساس انسانوں نے کب خود کو تنہا اور بے وطن محسوس نہیں کیا؟ لیکن اکیسویں صدی میں برق رفتاری اور چیزوں کو چھوٹے سے چھوٹا کرتے جانے کی جو لہر آئی ہے اس نے کسی کو خلوت میں بھی تنہا نہیں رہنے دیا۔ پرانا محاورہ ہے کہ جلدی کا کام شیطان کا۔ اسی ابلیسی کارفرمائی نے فرقت اور قربت کو عجیب طرح جوڑ اور توڑ مروڑ کر ہمیں سیمابی بنا دیا ہے۔ جب غائر کہتا ہے کہ

بہت سے لوگ مرے آس پاس ہوتے ہیں

یہ اور بات مرے آس پاس ایک نہیں

یا یہ شعر:

مری نگاہ میں غائر ہزار موسم ہیں

ہزار ہیں بھی تو کیا دل کو راس ایک نہیں

تو تنہائی اور لاحاصلی کے رنگ سوچ کے افق پر نظر آتے ہیں۔ گھڑی غروب کی ہے یا طلوع کی، یہ اب کہاں معلوم۔ نتیجہ طنز میں رچا یہ شعر ہے:

میں بھی مصروف ہوں اور آپ بھی ہیں عجلت میں

دیکھیے آپ سے کیسے میں ملاقات ہوئی

شاعر کو صرف لاحاصلی کا احساس نہیں، وہ یہ بھی دیکھتا ہے کہ دنیا استحصال اور ناانصافی پر قائم ہے۔ ہم نے کہنے کو بڑی ترقی کی ہے اور بڑی طاقتوں نے بے خوف ہو کر ترقی کے مدارج طے کیے ہیں لیکن اسی تناسب سے استحصال اور ناانصافی کی نرالی، عیاں اور نہاں، شکلیں سامنے آئی ہیں۔ شاعر یہ کہنے پر مجبور ہے کہ آدمی نظر نہیں آتا۔ جس سے ملیے وہ فرشتہ یا خدا ہوتا ہے۔ یا

اس بار تو وہ دھوپ کی یلغار تھی کہ بس

ہم اپنی چھاؤں لے کے شجر کی طرف گئے

وہ کہتا ہے، “کتنی دیواریں، کتنے دروازے / ڈر  کے مارے بنا لیے میں نے” دیواریں خود کو محفوظ کرنے کے لیے، دروازے فرار ہونے کے لیے۔ کچھ بھی ٹھیک نظر آتا اور آخر اسے یہ کہنا پڑتا ہے:

زندانِ بے دلی کا میاں در کوئی نہیں

بیکار ہی میں راہِ مفر دیکھتا ہے تُو

روز کے تشدد اور تباہی کا عادی ہونے والا یہ ہی کہہ سکتا ہے:

مجھے یہ چائے پھیکی لگ رہی ہے

کہاں ہے صبح کا اخبار لاؤ

یہ تو غمِ دنیا اور غمِ جاناں کی باتیں ہوئیں۔ لیکن اس مجموعے میں بعض شعر بالکل حیران کر دینے والے بھی ہیں۔ ان پر کوئی ٹھپا نہیں لگ سکتا۔

غائر اک عمر کی جدائی کے بعد

ہم ملے بھی تو اک کہانی میں

یہ انکشاف ہوا ہے اندھیرا بڑھنے سے

دکھائی دیتی نہیں روشنی میں سب چیزیں

کیا  یہ توقع رکھی جا سکتی ہے کہ کاشف حسین غائر اپنے اگلے کسی مجموعے میں حیرت کی کمی اور سطح کو چھو سکے گا؟ ایسے شعر جن کو دل تو سمجھ لے لیکن معنی بیان نہ کیے جا سکیں۔ خالص جادوگری، جیسے کوئی منتر۔ آئیے، انتظار کرتے ہیں۔

آسمان آنکھ اٹھانے سے کُھلا از کاشف حسین غائر

ناشر: رنگ ادب پبلی کیشنز، کراچی

صفحات: 160؛ چھ سو روپیے