چند کلیوں پر قناعت

یہ تحریر 2116 مرتبہ دیکھی گئی

بعض لوگ فیصلہ نہیں کر پاتے کہ انھیں کیا کرنا چاہیے یا کس بات پر زیادہ توجہ دینا بہتر ہوگا۔ شاعری بھی کرتے ہیں، افسانے بھی لکھتے رہتے ہیں، تنقید بھی لکھتے ہیں اور تحقیق کا حق بھی ادا کرنا چاہتے ہیں۔ سلیم الرحمٰن نے بھی یہ سب کچھ کرنا چاہا ہے۔ وہ ایک عرصہ لاہور ریڈیو سٹیشن سے وابستہ رہے۔ اس کے بعد کسی کالج سے منسلک ہو گئے۔ ان کے افسانے پڑھ کر احساس ہوتا ہے کہ فکشن ان کا اصل میدان تھا۔ اگر وہ باقاعدگی سے افسانے لکھتے رہتے تو خاصے مشہور ہو چکے ہوتے۔ ناول لکھنا بھی ان کے لیے مشکل نہ ہوتا۔ انھوں نے اس صنفِ ادب کو قابلِ التفات نہ گردانا۔
“میم صاحب” میں صرف نو افسانے ہیں۔ مصنف نے انھیں کہانیاں کہا ہے۔ انھیں افسانے قرار دیا جائے یا کہانی، اس سے فرق نہیں پڑتا۔ ان افسانوں کو پڑھ کر بیک وقت خوشی بھی ہوتی ہے اور افسوس بھی۔ خوشی اس بات کی کہ چند افسانے اچھے بھلے ہیں۔ افسوس یہ کہ افسانہ نگار نے ان “چند کلیوں” پر قناعت کیوں کی۔ “کچھ ان کہانیوں کے بارے میں” وہ لکھتے ہیں کہ یہ تیس پینتیس برس پہلے قلم بند کی گئی تھیں اور مطبوعہ ہیں۔ گویا 1990 کے بعد انھوں نے اس صنف سے کنارہ کشی اختیار کر لی۔
اب تو جو اس مجموعے میں ہے اس پر گزارا کرنا پڑے گا۔ پہلی بات یہ کہ مصنف کا مشاہدہ اچھا ہے اور سماعت تیز. بہت سے مکالمے برجستہ اور تیکھے ہیں۔ افسانوں میں واسطہ نچلے یا پسے ہوئے طبقے سے رکھا گیا ہے۔ مصنف نے اس پس ماندہ اور تکلیف دہ زندگی کو اتنے قریب سے کب اور کیسے اور کیوں دیکھا، اس کا علم نہیں۔ حقیقت پسندی کی جس سطح کو وہ بعض افسانوں میں چھونے میں کام یاب رہے ہیں اس پر کچھ حیرت ہوتی ہے۔ یہاں یہ اعتراض کیا جا سکتا ہے کہ زندگی کے ان پہلوؤں سے تبصرہ نگار کو آگاہی نہیں۔ اس لیے مشاہدے کی درستگی اور مکالموں کی برجستگی پر وہ کیسے محاکمہ دے سکتا ہے۔ یہ اعتراض کسی حد تک بجا ہے۔ لیکن فکشن زندگی کو ازسرِ نو مرتب کرکے پیش کرنے کا نام ہے اور اگر وہ قائل کُن طاقت کا حامل ہو تو پھر اس کی عکاسی کو سراہنے میں ہرج نہیں۔ سچ پوچھیے تو زندگی اتنی پیچیدہ حقیقت ہے کہ فکشن اس سے پورا تو کیا ادھورا انصاف بھی نہیں کر سکتا۔
جو افسانے بہتر معلوم ہوئے ذیل میں ان کا تھوڑا سا ذکر کیا جاتا ہے۔ “دل جگر تشنہء فریاد آیا” میں دو آدمی رات بھر کے لیے ایک لڑکی لے کر آئے ہیں۔ لیکن اس بات میں ان کے ساتھ جو واقعات پیش آتے ہیں انھیں دہشت زدہ اور حیران کرنے کے لیے کافی ہیں اور ان کا مزہ کرکرا ہو کر رہ جاتا ہے۔ یہاں اگر مزاح ہے تو کالا سیاہ اور طنز ہے تو کٹیلا۔ افسانے کے کردار انسانیت سے گرے ہوئے نہیں دکھائے گئے۔ ان میں بے بسی اور مجبوری تو ہے لیکن سفاکی نہیں۔ “ست نتھل” طوائفوں کے بارے میں ہے۔ اصل کردار ایک نامراد عاشق ہے۔ “بھاواد” ایک اور نامراد عاشق کا افسانہ ہے اور بُنت کے لحاظ سے باقی افسانوں پر فوقیت رکھتا ہے۔ “ہنڈولے کی آگ” ریل کے سفر سے متعلق ہے اور اپنے نرالے پن کی وجہ سے بہت مؤثر ہو سکتا تھا۔ اس میں دقت یہ ہے کہ بیانیہ اردو میں ہے اور مکالمے اردو میں نہیں۔ انھیں اگر اردو میں منتقل کر دیا جائے تو ان کی ساری بے ساختگی ختم ہو جائے گی۔ ایسے مسئلے کا کوئی حل مصنف کو نکالنا چاہیے تھا۔
بظاہر سلیم الرحمٰن صاحب کا مزید افسانے لکھنے کا ادارہ نہیں۔ اندازہ ہوتا ہے کہ انھوں نے زندگی کے اتار چڑھاؤ بہت دیکھے ہوں گے۔ اگر وہ اپنے مشاہدات اور تعبیرات میں دوسروں کو شریک کرنے پر آمادہ نہیں تو میں اور آپ کیا کر سکتے ہیں۔
میم صاحب از سلیم الرحمٰن
ناشر: الوقار پبلی کیشنز، لاہور
صفحات: 192، 895 روپیے