پچھتر برس پہلے کا سوات

یہ تحریر 1298 مرتبہ دیکھی گئی

حکیم محمد یوسف حضروی علاقہء چھچھ کے معروف قصبے حضرو سے  تعلق رکھتے تھے اور علی زئی  قبیلے کے فرد تھے۔ 1855ء کے لگ بھگ پیدا ہوئے۔ ان کی زندگی کے حالات بہت کم معلوم ہیں۔ یہ بھی علم نہیں کہ حکمت کا شوق کیسے ہوا اور کن حکما کے سامنے زانوئے تلمذ تہ کیا۔ انھوں نے اپنی کتاب “فلسفہء شادی” مطبوعہ (1946ء) میں لکھا ہے: “راقم الحروف آج اپنی زندگی کی اکانوے منزلیں طے کر چکا ہے۔ اس نوے سال میں، میں نے ہندوستان، افغانستان، خراسان، عربستان، حجاز اور مصر میں اپنی عمر کا ایک اچھا خاصا حصہ صرف کیا اور تقریباً پچاس سال سے حکمت کا پیشہ اختیار کیے ہوئے ہوں۔”

اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ موصوف سیر و سفر کے شائق تھے۔ طویل جہاں نوردی کے دوران میں انھوں نے کن حضرات سے کیا کیا سیکھا، اس کا کوئی سراغ نہیں ملتا۔ غالباً 1914ء میں یا اس سے کچھ پہلے کلکتے سے حکمت کا آغاز کیا۔ وہاں ان کا ذاتی دواخانہ تھا۔ 1926ء میں “شفا” کے عنوان سے ایک ماہ نامہ بھی شائع کرنا شروع کیا۔ بطور طبیب ان کا خاصا شہرہ تھا۔ تقسیم برصغیر کے بعد کلکتے کو خیرباد کہہ کر کراچی چلے آئے۔ وہاں بھی دواخانہ قائم کیا۔ پانچ سات سال کراچی میں مقیم رہے۔ پھر کبرسنی کی وجہ سے سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر حضرو چلے آئے اور وہیں 1959ء میں انتقال کیا۔

پشتو تو، ظاہر ہے، انھیں آتی تھی۔ اس کے علاوہ اردو، فارسی اور عربی میں اظہار پر قادر تھے جیسا کہ “سیرِ سوات” نامی کتاب سے ظاہر ہے جس میں ان کا اردو، فارسی اور عربی کلام موجود ہے۔ وہ “سیرِ سوات” کا دوسرا حصہ لکھنے کا ارادہ بھی رکھتے تھے۔ اس میں سوات کا مزید احوال لکھنا منظور تھا اور ان اساتذہ کا ذکر مقصود تھا جن کے وہ شاگرد رہ چکے تھے۔ لیکن یہ دوسرا حصہ یا تو لکھا نہ جا سکا یا شاید اس کا مسودہ ان کے اخلاف کے پاس موجود ہو۔

“سیرِ سوات” کے علاوہ ان کی دو کتابیں قابل ذکر ہیں۔ ایک تو “یونانی دوا سازی” جو پہلی مرتبہ 1926ء میں کلکتے سے شائع ہوئی اور دوسری بار 1951ء میں کراچی سے۔ دوسری کتاب “اسرارِ باہ” کے دو نسخے ہیں، ایک خرد اور دوسرا کلاں۔ کلاں نسخہ کم و بیش آٹھ سو صفحوں پر مشتمل تھا۔ اس کلاں نسخے کو شائع کرنا سود مند ثابت ہو سکتا ہے۔ “سوات کی سیر کے خواہاں افراد  کی تعداد تو ہزاروں میں ہوگی لیکن قوتِ باہ کے طالب کروڑوں ہیں۔

اب پچھتر سال پہلے کے سوات کا ذکر ہو جائے۔ سوات کا سفر حکیم صاحب نے جون 1944ء میں کیا تھا۔ اس وقت وہ نوے سال کے تھے۔ ان کی ہمت کی داد دینی چاہیے۔ ایک تو پیرانہ سالی، دوسرے شدید گرمی، تیسرے آمد و رفت کے ذرائع جو کوئی خاص آرام دہ نہ تھے۔ آج کل تو نوے سال کے آدمی کی صحت تو درکنار حافظہ بھی سلامت نہیں رہتا۔

اس سفر کا احوال قلم بند کرنے کی بڑی وجہ انھوں نے یہ بیان کی ہے کہ متعصب ہندو اور غیرملکی مصنفین اسلامی ملکوں اور مسلمانوں اور بالخصوص پٹھانوں کے بارے میں جو غلط سلط ، حقیقت سے دور اور شرانگیز باتیں  لکھتے رہتے ہیں ان کی تردید ضروری ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ یہ مصنفین یہ سوچنے کی زحمت بھی گوارا نہیں کرتے کہ غیرمصدقہ افواہیں استنباطِ نتائج کے لیے کافی نہیں ہوتیں۔ یہ بھی کہا ہے کہ سوات میں “ہم نے خود اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے کہ لبِ سٹرک چنار کے درختوں کے سائے میں پردیسی ہندو نوٹوں کے بنڈل چادر میں لپیٹ کر سرہانے رکھے ہوئے سو رہے ہیں اور بغل میں مال و اسباب سے بھرے ہوئے صندوق پڑے ہوئے ہیں اور ان کا مال اور ان کی جان ہر طرح محفوظ و مامون ہے۔” یقین تو نہیں آتا مگر جھٹلائیں تو کیسے؟

نثر دو طرح کی ہے۔ جہاں فطری مناظر کا بیان ہے وہاں رنگین بیانی اور لفاظی کا سہارا لیتے ہیں اور متاثر کرنے میں کامیاب نہیں ہوتے۔ لیکن جب سیدھا سادہ انداز اختیار کرتے ہیں تو ان کے مشاہدات اثر سے خالی نظر نہیں آتے۔ حسِ مزاح اس پر مستزاد ہے۔ مردان میں ایک ہوٹل کا جو نقشہ کھینچا ہے وہ پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے اور اگر اسے الگ سے چھاپ دیا جائے تو افسانے کا گمان گرے۔ وہاں ایک دکان دار سے کھانا منگایا جو سینی میں لایا گیا۔ رقم طراز ہیں: “قارئین عظام کو اس کا خیال رہے کہ یہ واقعات ماہ جون کے ہیں اور اس وقت عیدالفطر کو گزرے ہوئے تقریباً نو ماہ ہو چکے تھے۔ اور یہ سینی جس میں دکان دار سلیقہ شعار نے مرغ پلاؤ بھیجا تھا اس عید الفطر میں مانجھی گئی ہوگی۔ اس کے بعد نہ ملازمین نے اس طرف کوئی توجہ کی اور نہ مالک صاحب کو اپنی عدیم الفرصتی سے اسے دیکھنے اور غور کرنے کی مہلت ملی ہوگی۔ ” اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ صفائی نصف ایمان ہے کہ دعوے کے باوجود پچھتر سال میں ہمارے مزاج میں کوئی خاص فرق نہیں آیا۔

سوات کے شاہی محل، ولی عہد اور والیِ سوات سے ملاقات اور شاہی ضیافتوں کا احوال بھی دلچسپی سے خالی نہیں۔ مختصراً علاقے کی حدود، آبادی، لباس، اخلاق و عادات، قصبات و شہر، تعلیم، انتظام حکومت، عدالت  و قوانین، حفظانِ صحت، محکمہ ڈاک و ٹیلی فون، سڑکوں،پلوں اور آب رسانی، فوج اور پولیس، مال گزار ی اور مہمان خانوں کا ذکر بھی آ گیا ہے۔ گزیٹڑ نہ سہی، اس سے قریب تو ہے۔

ارشد محمود ناشاد علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی، اسلام آباد کے شعبہء اردو سے منسلک ہیں۔ انھوں نے تدوین میں سلیقے کا ثبوت دیا ہے اور حواشی و تعلیقات کارآمد ہیں۔ البتہ فرہنگ مرتب کرتے ہوئے ذرا زیادہ ہی فیاضی سے کام لیا ہے۔

ایسا معلوم ہوتا ہے کہ حکیم صاحب کی شعری و نثری تصانیف اور بھی ہوں گی لیکن ان کے اخلاف کی بے پروائی سے سامنے  نہیں آ سکیں۔ ارشد محمود ناشاد کے مہربان دوست راشد علی زئی لکھتے ہیں: “حکیم حضروی کے بے شمار مقالات نظم و نثر اور طبی نسخہ جات کے ساتھ ساتھ کئی مسودات اور دوسری چیزیں ان کے گھر کی الماریوں میں پڑے پڑے دیمک اور کیڑے مکوڑوں کی نذر ہو رہے ہیں مگر ان کی پڑھی لکھی اولاد کو اس بات کا قطعی کوئی احساس نہیں ہے۔ میری کئی دفعہ کی درخواست کے باوجود ان الماریوں کے تالے نہیں کھل سکے۔” یہ ہماری عام روش ہے۔ اسلاف کے ادبی و علمی آثار کو بے دردی سے ضائع ہونے دیتے ہیں۔ ہزاروں قلمی نسخے اسی اسلاف دشمنی سے خاک میں مل چکے ہیں۔

سیرِسوات از حکیم محمد یوسف حضروی

تدوین و تحشیہ: ڈاکٹر ارشد محمود ناشاد

ناشر: قلم فاؤنڈیشن انٹر نیشنل، لاہور

صفحات: 196؛ قیمت نامعلوم