ٹرک نامہ ؛ادبیات ٹرک

یہ تحریر 725 مرتبہ دیکھی گئی

برا ہو ہماری سیاست کا کہ آج کل ہر سمت سیاست ہی سیاست ہے اور ہر چیزاسی رنگ میں رنگی نظر آتی ہے-سیاست کوئی شجر ممنوعہ نہیں ہے مگر ہماری سیاست کو یہاں کے سیاست دانوں نے اس قعر مذلت تک پہنچا دیا ہے کہ توبہ ہی بھلی- اور تو اور نقل و حمل کے حوالے سے ہماری بنیادی ضرورتوں کو پورا کرنے والے ٹرک بھی اس کی زد سے نہیں بچ سکے ہیں-سوشل میڈیا یا اخبارات میں ہر جانب ان دنوں ٹرک کاشہرہ ہےاور ٹرک کو سیاست دانوں نے معلوم نہیں کیوں بدعنوانی کے الزامات کا عنوان بنا دیا ہے-اس ہاؤ ہُونےمیری توجہ ٹرک کےایک خاص پہلوکی طرف مبذول کر وا دی یعنی ٹرک آرٹ-ابتدا ہی سے پہاڑی سنسان سڑکوں پر رواں دواں سجے سجائے ٹرک دیکھنا میرا رومان رہا ہے-سڑکوں پر رواں دواں سجیلا ٹرک اورریل کی سیٹی آج بھی مجھے ناسٹیلجیا میں مبتلاکر دیتے ہیں مگرآج میراموضوع کچھ اور ہے-آپ نے ضرور دیکھا ہوگا کہ آرٹ ورک کے ساتھ ساتھ ٹرکوں کے پییچھے کوئی شعر یا جملہ لکھاہوتاہے میں ان کو ادبیات ٹرک کے زمرے میں شمار کرتا ہوں کہ ان کے پس پردہ جہاں ٹرک ڈرائیورکی تنہائی، اُداسی ، اہل خانہ سےجدائی کی کیفیات کا اظہار ہوتاہے وہاں ان اشعاراورجملوں کے پس منظر میں دانائی اور فلسفےکی تہہ در تہہ موشگافیاں بھی توجہ طلب ہیں- مجھے یاد پڑتاہے کہ اُردو کے کسی منچلے سکالر نے اس موضوع پر ایک آدھ مقالہ بھی لکھ مارا ہے-یہ چند اشعار اور جملے دیکھئے اوران میں موجود فکری زاویے،فلسفیانہ تخیلات، حکمت دانائی ملاحظہ کیجئے-

-ماں کی دعا، جنت کی ہوا : کتنی گہری بات کی ہے،اس کو پڑھ کرمیرےذہن میں تو فوری طور پر حضور پاک ص کی یہ حدیث آجاتی ہے؛ الجنة تحت أقدام الأمہات۔

-پاس کر یا برداشت کر: اس چھوٹے سے جملے کے پیچھے صبر و شکر کا ایک پورا فلسفہ ہے یعنی صبر و سکون کے علاوہ انسان کے پاس کوئی چارہ نہیں یا پھر وہ اپنے اندراتنی توانائی پیدا کرے کہ دنیا کی کٹھنائیوں کو کچلتا ہواآگے نکل سکے-

-جلنے والے کا منہ کالا:کس خوبصورت انداز میں نشاندہی کی گئی ہے کہ حاسد اپنی ہی آگ میں خودجل مر تا ہے–جب تک زر لٹاؤ گے زیر دست ہے دنیا/ ہاتھ کھینچ کر دیکھو مطلب پرست ہے دنیا: اشعار اکثر و بیشتر وزن سے خارج ہوتے ہیں مگر ہم ذرا سی نوک پلک سنوار کر ان کے مفاہیم پر غور کریں تو حکمت و دانائی کے گہر تلاش کر سکتے ہیں-اسی شعر کو دیکھئے کیا اٹل حقیقت بیان کر دی ہے-

پپو یار تنگ نہ کر: ادبیات ٹرک میں یہ جملہ مجھے بہت پسند آیا ویسے بھی یہ زباں زد عام ہے-اس جملے کو پڑھ کر فوری طور پر انشاالللہ خاں انشا کایہ شعر ذہن میں آجاتاہے؀نہ چھیڑ اےنکہت باد بہاری راہ لگ اپنی/ تجھےاٹکھیلیاں سوجھی ہیں ہم بیزار بیٹھے ہیں- یہ صرف چند مثالیں ہیں ورنہ ان ادبیات کےدفترکے دفتر بھرے پڑے ہیں-ادبیات ٹرک نہ صرف ڈرائیوروں کے ذوق و مزاج کی بھرپورعکاسی کرتی ہیں بلکہ سڑکوں پرسفرکرنے والوں کی تفریح طبع کا سامان بھی مہیا کرتی ہیں- یہ عوامی دیسی ادب ہمارے نقادوں کی توجہ کا منتظر ہے-