زیر اشاعت کہانی مشہور و موقر ادبی جریدے سویرا کے حالیہ شمارے نمبر ۔99 میں شائع ہوئی۔ ہمارے دیوان صاحب ایک طویل عرصے تک کراچی کی انتظامی عدلیہ سے منسلک رہے۔بشری زیدی کے حادثے کے دن سے کراچی کے بگاڑ کے عینی شاہد، وہ ایک طویل عرصے تک مجسٹریٹ میونسپل کمشنر، اور وزارت زراعت اسلام آباد میں افسر ، آئی جی جیل خانہ جات اور کئی محکموں کے سیکرٹری بھی رہے۔کراچی کی مافیا، سیاست اور دنیائے جرائم کو بہت قریب سے دیکھا۔امریکہ سے تعلیم پائی۔ ساٹھ کے قریب ممالک کی سیر کی کراچی پولیس اور عدالتی نظام اور سندھ کے ہوم ڈیپارٹمنٹ سے سن اسی سے براہ راست وابستگی کی بنیاد پر حاصل شدہ تجربات اور مشاہدے سے کشید کی گئی اس کہانی کا عرصہ کارزار سن 1980-90 کی دہائی پر محیط ہے۔
سلیم سہیل۔ ایڈیٹر ان چیف
چار اقساط کی پہلی قسط
۔۔۔۔
”من کہ مسمیّ اے ایس آئی منیر نسیم متعینہ تھانہ جوہر آباد، امشب ،بحکم ایس ایچ او بہادر جعفر نقوی ، علاقہ گشت پہ تھا کہ مخبر خاص ،جہانگیر بھورے کے ذریعے یہ اطلاع ملی کہ در ایں اثنا تھانے کے قرب و جوار میں واقع ایک غیر قانونی طور پر قائم شدہ ٹال پر لکڑی کے بے ترتیب ڈھیر کے عقب میں ایک نوجوان جوڑا دنیا و مافیا سے بے خبر والہانہ انداز میں باہم بوس و کنار ہے۔ان کا یہ فعلِ قبیحہ، تعزیرات پاکستان کی دفعہ 294 کی اور قابل دست اندازی پولیس کی زد میں آتا ہے۔

اطلاع موصول ہوتے ہی افسر ہذا ہمراہ گواہاں جہانگیر بھورے اور توقیر پکھیرو کے موقع پر پہنچا ۔ فعل قبیحہءکا اجرا اپنی گنہ گار آنکھوں سے دیکھا۔ سعی گرفتاری میں جذوی ناکامی کا سبب یہ ہے کہ مرد ملزم جو شکل سے عیار ،مہاجر اور علاقہ مکیں دکھائی پڑتا تھا، مانند چھلاوے کے تاریکی کا فائدہ اٹھا کر قریبی گلی کے راستے غائب ہوگیا۔ ملزمہ خوش شکل، بدن بدرجہ مائل بہ فربہی،زبان و حلیے سے افغانی اور اردو سے پریشان کن حد تک ناواقف دکھائی دی اسے ہمراہ ملازمان گرفتار کیا۔
ملزمہ ا پنا نام بمشکل زر تاج اور والد کا نام حضرت گل بتاتی ہے۔اس کی گرفتاری کا اہتمام کرکے روزنامچے میں اندراج اور بحکم ایس ایچ او بہادر مزید قانونی کاروائی کا آغاز کیا۔مفرور ملزم تاحال دست اندازی پولیس سے محفوظ ہے ، ہر چند کہ تلاش مسلسل جاری ہے۔ داخلہ چالان مسل(فائل) مقدمہ و بیانات گواہان اور بہ ہمراہی ملزمہ بغرض کاروائی عدالت پیش خدمت ہے۔ “

ارے یہ کیا؟ ہمارے اردو کے شاعر ایس پی صاحب (جن کے بارے میں یہ بات عام تھی کہ وہ علاقے بھر سے جوئے، شراب اور منشیات کے دھندے سے ایک روپیہ رشوت کا نہیں لیتے،البتہ زمین اور ہر طرح کی عورت کا قبضہ وہ خواب میں بھی نہیں چھوڑتے) انہوں نے میری ایف۔ آئی۔ آر کی ڈپٹی کمشنر صاحب سے کیا تعریف کی کہ اب میراقلم لاشعوری طور پر ہر تحریر کا آغاز بالکل ویسے ہی کرتا ہے جیسا میں نے اس ایف آئی آر کا کیا تھا۔

ہمارے رامپور والے ڈی ایس پی خواجہ دلدار نظامی صاحب کا ادبی ذوق بہت شستہ تھا۔ ان کے لیے کالے کتے والی شراب کی بوتل اور میرٹھ کباب والوں کے ہاں سے چھ سیخ کباب اور دو مغز بھنے کا شبینہ من جانب تھانہءہذا ، ایک ماہ میں دو مرتبہ پہنچانا میرے ذمے تھا۔ وہ کہا کرتے تھے کہ بھئی منیر نسیم ،سندھ پولیس کی ایف آئی آروں میں واللہ کوئی غالب کا شعر تلاش کرنا چاہے تو تمہاری ایف آئی آر پڑھ لے۔ان کی تعریف سے خوش ہوکر میں نے پانچ سو روپے اس پانچ ہزار روپے کی رقم سے جو ایس ایچ او صاحب نے ہفتہ واری بھجوائی تھی پوچھ کر رکھ لیے۔
چلو جی ایف آئی آر پر تو مٹی پاﺅ۔ اس کے تو ملزمان بھی بری ہوگئے۔ ملزمہ زر تاج ،آغا مجسٹریٹ اللہ ڈینو شاہانی صاحب کو زیادہ ہی اچھی لگی تھی۔کسی فروٹ چاٹ میں قتلہ قتلہ ہوکر مل جانے کو بے تاب آڑو جیسی۔

زر تاج کی فحش حرکات کے مقدمے سے بریت کا معاوضہ ہم چار آدمیوں نے وصول کیا ۔ عدالت کا پیش کار ظفیر، اکرم سپاہی،وکیل غوری اور بعد میں مجسٹریٹ اللہ ڈینو شاہانی نے، پانچواں کورٹ کا چپراسی لیاقت بھی شامل ہونے کو تیار تھا مگر عین وقت پر اس کے سالے کا موٹر سائیکل کا ایکسیڈنٹ ہوگیا۔ زرتاج کو ظفیر کے فلیٹ پر اکرم کورٹ محرر لایا تھا۔بیوی بچے ملتان گئے تھے۔ اس کی بیوی ملتان کی انصاری ہے۔

ہر تھانے کی طرف سے ایک بدمعاش پڑھا لکھا سپاہی ہر تین چار عدالتوں کے ساتھ تعینات ہوتا ہے۔عدالت میں ملزم کو پیش کرنے سے عدالت کے جاری کردہ احکامات تھانے تک پہنچانا،مجسٹریٹ اور جج صاحب کے موڈ، مزاج اور پسند ناپسندسے متعلقہ افسرباخبر رکھنا اس کے فرائض میں داخل ہوتا ہے۔
سچ پوچھیں تو زر تاج تھانے سے ضمانت کے بعد وہ ساجد اعوان ٹھیکدار کے پاس رہتی تھی۔ اکرم نے ہی اس کو وہاں سے عدالت میں پیش کرنے کے بہانے ساتھ لایاتھا۔اس نے اعوان کو ڈرایا تھا کہ ویسے ہی اس کے خلاف نیا ایس ایچ او گرم ہے اگر زر تاج صبح عدالت میں پیش نہیں ہوئی تو ممکن ہے مجسٹریٹ شاہانی سندھی ایس ڈی ایم کو کہہ کر اس کے نقص امن کی دفعہ سولہ کے تحت دو ماہ کے لیے جیل بھیج دے۔زر تاج کو اکرم ظفیر کے ٹھکانے پر لے آیا۔غوری صاحب کی شراب اکرم کو لڑگئی دونوں الٹیاں کرتے پڑے رہے۔اب سچ پوچھیں تو زر تاج بستر میں ظفیر اکیلے کے حصے میں آئی تو اسے لگا بستر میں روس کا کوئی فوجی کمانڈو گھس گیا ہے۔ وہ بارہ بنکی یوپی کا شریف دبلا پتلا مہاجر۔ اتنی دھینگا مستی ، تکا فضیحتی اس کے بس میں کہاں،بتا رہا تھا کاٹتی بھی بہت زور سے ہے،ایک دفعہ کمر پکڑ لے تو سلپ ڈسک کا خطرہ ہوجاتا ہے وہ دے مار ساڑھے چار کا عادی نہ تھا۔فرض فریضوں سے جان چھڑا کر بھاگ لیا۔
اگلی صبح بھری عدالت میں گواہوں کی عدم دستیابی اور غوری وکیل کی جھوٹی موٹی نمونے بازی پر مجسٹریٹ نے اسے بری کردیا مگر ساتھ ہی تا برخواست عدالت پابند کیا کہ وہ ان کے چیمبر میں شریف عورت کی طرح بیٹھی رہے گی۔شاہانی صاحب ویسے تو کسی کو مفت بری کرنا انصاف کی توہین سمجھتے تھے ظفیر نے سمجھایا کہ جب تک اگلے مہینے کی بیس تاریخ تک آپ کا بیٹا ماسکو سے واپس نہیں آتا یہ آپ کے پاس رہے گی۔ مقدمے میں بری کرنے کے دو ہزار ملتے ۔ زرتاج جیسی لڑکی پندرہ سو روپے رات میں نہیں ملتی۔سپر ہائی جیسا بدن، گھر کھانا بھی پکائے گی، یتیم ہے، کسی کے گھر کی عزت ہے۔خالی رقم سے رات پندرہ سو والا بیٹے کے آنے میں پورے چالیس دن ہیں ساٹھ ہزار کا مال وہ بھی صرف ایک دستخط کی چڑیا فائل پر بٹھانے غوری وکیل ورنہ فیصلے کے خلاف سیدھا اپیل میں چلا جائے گا اور ایڈیشن سیشن جج صاحب تو دیکھتے ہی اس سے نکاح کرلیں گے۔

عدالت کا وقت ختم ہوا تووہ اسے اپنے ساتھ رکشے میں بٹھا کر اسٹیل ٹاﺅن (گلشن حدید)لے گئے۔ ظفیر پیش کار ان کا راز داں اور خزانچی تھا۔سائلان و وکلاءصاحبان سے مال کی وصولی اور مجسٹریٹ صاحب تک محفوظ ترسیل کا ذمہ اسی ناہنجار کا تھا۔ انہوں نے تابعداری کا لابھ لیتے ہوئے اسے ہدایت کی کہ وہ ملزمہ کو رکشہ دلانے کے بہانے سول ہسپتال کے کونے تک لے جائے۔وہ خود وہاں تک غوثیہ مرغ چھولے والے کے سامنے والے پچھلے دروازے سے نکل کر پیدل آجائیں گے وہ ہسپتال کے کونے پر رکشہ روک کر انتظار کرے۔



ظفیر پیش کار جس کا نام وہ ہمیشہ سے مظفرلیتے تھے، وہ لیاقت چپراسی کے ساتھ چل پڑا۔پیچھے پیچھے چادر کی بکل مار کر کر شریف عورت کی طرح چلی آتی تھی۔لیاقت کی ڈیوٹی یہ تھی کہ وہ زر تاج کے پیچھے چل کر اس پر نظر رکھے ۔ زر تاج اب چوں کہ عدالت سے بری ہوچکی ہے لہذا اس کا اندیشہ ہے کہ انصاف کا دامن مکمل چھڑا کر کراچی کی بھیڑ میں گم نہ ہوجائے۔ویسے سادہ مزاج تھی۔چپ چاپ مجسٹریٹ صاحب کا ہاتھ پکٹر کر رکشے میں بیٹھ گئی۔
رکشہ والے کو منھ مانگے دام پیشگی ادا کرکے جب وہ دونوںعدالت کی جانب واپس آرہے تھے پیش کار ظفیر کہنے لگا ہوگا کچھ نہیں دیکھنا وہ جیسے ہی تیار ہوگی یہ غسل خانے کی اندر سے کنڈی لگالیں گے مگر مجسٹریٹ صاحب نے ہمیں سڑک پر بھڑوا بنادیا۔ ہم سے چھوکری یہاں منگوائی ،رکشے والا کیا سوچ رہا ہوگا۔ہم دلال ہیں۔۔
سن تیراسی چوراسی میں اندرون سندھ سے مال اور سفارش کے عوض ترقی پاکر دیہاتی مختار کار سے مجسٹریٹ درجہ سوئم بنے یہ افسر کراچی آن کر بولائے بولائے پھرتے تھے ۔ آوک جاوک کے لیے پیشکار کے فراہم کردہ رکشوں کا استعمال کرتے تھے۔ ۔اسٹیل مل ان دنوں خوب چلتی تھی۔بیٹا وہاں بطور اسٹنٹ انجینئر ملازم تھا۔ وہ تربیت کے لیے اُن دنوں روس گیا ہوا تھا ۔ گھر خالی تھا۔

مجسٹریٹ صاحب نے زر تاج کو اسی سرکاری رہائش گاہ میں شرف میزبانی سے سرفراز کیا۔ وہ کہاں ٹک کر رہنے والی تھی۔ہفتے بعد وہاں سے بھی سٹک گئی ۔مجھے پتہ چلا کہ تھانہ ملیر کے ہیڈ کانسٹبل عبدالمنان کے ساتھ دوڑ گئی ہے۔ وہ بھی سرگودھا میں ہمارے علاقے یعنی ہمارے بہلوال ہی کا تھا ۔ میں اور ہیڈ کانسٹبل عبدالمنان کبھی اسکول میں ساتھ تھے۔ بعد میں ابا جی کی علاقہ مٹھا ٹوانہ میں بطور ہیڈ ماسٹر تعیناتی ہوگئی تو ہم نے وہیں مستقل ڈیرہ ڈال لیا اور بہلوال مڑکے نہیں آئے۔ مٹھا ٹوانہ میں ہی میرے جگری دوست علی اشرف کا ننھیال تھا۔وہیں ہماری دوستی ہوئی ۔دہلی کے مہاجر اسے دانت کاٹے کی دوستی کہتے ہیں۔ علی اشرف قوم کا راجپوت اور گاﺅں علاقہ سدوال، ضلع چکوال تھا۔گھر میں مذہبی رواداری بہت تھی۔بیٹا بیٹی سنی تو مگر بیوی بہو اور داماد شیعہ تھے۔


خاکسار نے ہی اپنے پیٹی بند بھائی اور سابقہ گرائیں عبدالمنان کو بتایا تھا کہ زر تاج کو مجسٹریٹ اللہ ڈینو شاہانی صاحب لے گئے ہیں۔ چالاک آدمی تھا۔ ہر دفعہ عدالت میں موجودگی کی تصدیق کرلیتا کہ مجسٹریٹ بہادر اپنی عدالت عالیہ میں انصاف کے صحفات پر عدل کا نور بکھیر رہے ہیں تو یہ شہوتوں کا ستایا،عوام کے جان و مال کا محافظ سپاہی ،مجسٹریٹ صاحب کے فرزند کے سرکاری گھر پر پہنچ جاتا۔ بہلوال کے اس چیتے چالباز نے سرکاری کوارٹر کے دو چکر لگائے۔ تیسرے چکر میں زرتاج آغا کو منھ میں دبوچ کر لے اڑا ۔ وہ جاتے جاتے چھوٹا موٹا مال بھی سرقہ کرگئی تھی۔ اللہ ڈینو صاحب بے چارے ریٹائرمنٹ کے قریب تھے ۔ مال کے اس سرقے کو جان اور نوکری کا صدقہ سمجھ کر چپ سادھ لی۔ ایسے معاملہ فہم عدالتی افسران اب کہاں؟
مجسٹریٹ صاحب اکثر مجھ سے پوچھتے تھے کہ” منیر نسیم جو روح کو تڑپا دے اور قلب کو گرما دے۔اس قسم کی کوئی ایف آئی آر اب کیوں نہیں لکھتے؟ “۔ میں بھی سر جھکا کر بہت مودبانہ لہجے میں جواب دیتا کہ” صاحب ایسی ایف آئی آر کو سرکاری کوارٹر میں سنبھال کر رکھنا آسان نہیں ہوتا، خشک سیروں تنِ افسر کا لہو ہوتا ہے“۔وہ بھی معاملہ فہم آدمی تھے۔ کہتے تھے” تم سچ کہتے ہو افغانستان کی جنگ کی وجہ سے بہت تباہی آئی ہے۔فوجی بھی بہت پریشان ہیں۔بڑی میٹنگوں میں ہم سے پوچھتے ہیں کہ” افغانستان سے آنے والی بے سہارا عورتوں اور روز مرہ کی دہشت گردی کا کیسے مقابلہ کریں۔ یہ چک چورانوے کے کپتان ۔میجر قسم کے افسر ہم پرانے سندھی افسروں کے تجربے کو بہت قدر اوردھیان سے دیکھتے ہیں۔ مارشل لاءہے ۔بس ان کو رقم کا اشارہ مل جائے تو خوش ہوتے ہیں ورنہ ہر بات کاہریسہ بنادیتے ہیں۔ میرے کو ریڈز پر لے جاتے ہیں تو میں ان کے کاغذ پر آنکھ بندھ کرکے سائین ٹھوک دیتا ہوں۔۔یہ گولیمار میں بولیں کہ ہم نے محمد بن قاسم کا قاتل اپنی سرسید گرلز کالج کی گرل فرینڈ سمیت پکڑلیا ہے تو میں لکھوں گا بی فور میں ایڈمی ٹیڈ کریکٹ اور دستخط ،مہر سمیت “ میرے کو ان فوجیوں سے بہت ڈر لگتا ہے ان سے ہمارا ایک سندھی وزیر اعظم لٹکا دیا مگر وہ بھی شریف آدمی نہیں تھا۔چلو مٹی پاﺅ۔ہمیں اس آوارہ حسینہ زر تاج اور سابقہ مختار کار حالیہ مجسٹریٹ درجہ اول اللہ ڈینو شاہانی صاحب سے کیا لینا۔ یوں بھی یہ بات پانچ سات سال پرانی ہے ۔
اس سے پہلے کے میری داستان حسرت کچھ آگے بڑھے میں آپ کو بتاتا چلوں کہ خاکسار کا پورا نام منیر نسیم ٹُلّا ہے ۔ والد کا نام نسیم جمال، ہماری ذات ۔ ٹُلّا ہے ۔ٹُلّا ، جٹوں کا ایک چھوٹا سا قبیلہ ہے، قد چھ فٹ، چوڑی چھاتی،ماتھا کشادہ ، مزاج مائل بہ اداسی، شناختی علامت چہرے پر کان کے نیچے پیدائشی داغ،دور سے دیکھیں تو وہ اٹلی کا نقشہ لگتا ہے۔ ہمارے چکوال کی پینڈو جٹیاں مذاق میں اسے جوتے کا علامتی نشان کہتی تھیں۔ہمارے بارہ بنکی یوپی والے ڈی ایس پی خواجہ دلدار نظامی صاحب اکثر ماتحتوں سے کہتے رہتے تھے کہ جاہل عورتوں کا مذاق بھی جاہلانہ ہوتا ہے۔


ہم ٹلے ، چھج دو آبہ جٹ ہیں، پہلے ہم خانہ بدوش ہوتے۔ جہاں پانی گھاس دیکھی، مال مویشیوں سمیت ڈیرے ڈال لیے۔ممکن تھا کہ میں یہاں کراچی میں تعیناتی کے بعد بھی خود کو منیر نسیم ٹُلّا ہی کہلوانا پسند کرتا مگر وہ ہمارے فیض آباد لکھنو کے مہاجر ایس ایچ او جعفر نقوی صاحب کراچی کے مزاج سے بخوبی واقف تھے۔ انہوں نے سمجھایا کہ کراچی کے چھچھورے مہاجر لڑکے پولیس والوں کو تمسخر اور تضحیک سے ٹُّلا پکارتے ہیں۔
وہی مزید بتارہے تھے کہ کبھی کبھار مقدمے میں جب کوئی قانونی شق سمجھ نہ آرہی ہو تو ہم قانون کے رکھوالے، صرف ٹلا کی آواز مارنے کو کار سرکار میں مداخلت اور دھمکی کا درجہ دے کر ان لفنگے پرندوں پر مقدمہ ٹھونک دیتے ہیں۔اب اگر تم نے ٹُّلا اپنے نام ہی کا حصہ بنالیا تو یہ ٹپوڑی تمہارا مذاق بھی اڑائیں گے اور تم کچھ کر بھی نہ پاﺅگے۔ نقوی صاحب اپنے نیشنل اسٹڈیم جتنے کولہوں پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہنے لگے اس کو بے چارگی کو ہم اہل لکھنو کولہے کی چوٹ کہتے ہیں یعنی وہ زخم جسے پتلون یا گھاگرا نیچا کرکے کو دوسروں کو دکھاتے ہوئے خود بھی شرمندگی محسوس ہو۔ بات تو سچ تھی گو بات تھی رسوائی کی۔دل کو لگی اسی لیے جی جان سے مان لی۔
خادم نے بی اے الحمد و للہ سرگودھا سے کیا۔ جنرل ضیا الحق صاحب اللہ ان کو کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے انہون نے اسی وقت مارشل لاءلگایا تھا۔میرے بڑے بہنوئی کرنل صاحب مارشل ڈیوٹی پر تعینات ہوکر ملتان پہنچے تو خاکسار کا تقرر پنجاب پولیس میں بلا کسی دشواری کے بطور اے۔ ایس۔ آئی ہوگیا۔لاہور کے کسی بھی تھانے میں تعیناتی میں سب سے مشکل مسئلہ یہ تھا کہ ہر نو بھرتی شدہ ہر ایس۔ اے۔ آئی کا کوئی نہ کوئی عزیز مارشل لا کے دامن بے کراںسے جڑا تھا۔ یوں مال بناﺅ تھانوں میں پوسٹنگ پکڑنا محال ہوچلا تھا۔ سفارشوں کی چمپینز ٹرافی میں بڑے عہدے چھوٹے عہدوں پر غالب آگئے۔جرنیل بریگیڈئیر پر چھا گیا، کرنل ،میجر پر حاوی ہوگیا۔ہمارے پنجاب میں رینک کا بہت احترام ہے۔


اسی وجہ ہمارے پولیس کے بڑے افسران نے تربیت کے خاتمے پر ان کم بختوں نے میرے کرنل بہنوئی کو تسلے میں چاند دکھایا (جھوٹی تسلی)۔انہیں بہلا پھسلا کر مجھ غریب کے بال کو اسپیشل برانچ میں دے مارا۔اللہ جانے ان کے پاس میری علمیت ، وجاہت، طبیعت میں فطری لٹک اور لبھاﺅ، فنون لطیفہ سے لگاﺅ،دھیمی گفتگو،معاملہ فہمی،قسم کے درست کوائف کہاں سے پہنچے تھے۔ ان افسران بالا نے مجھے پنجاب یونی ورسٹی میں طالب علموں کی جاسوسی پر لگادیا۔میرے ابا جی حاجی نسیم جمال ٹلا صاحب کہا کرتے تھے کہ چینی حکماءکا قول ہے کہ ذہین آدمی کی پہچان یہ ہے کہ اس کو اگر سمندر میں دھکا دیا جائے تو وہ مچھلی سمیت باہر نکلے۔

خاکسار نے خفیہ پولیس کے ایس۔ پی۔ صاحب کو باور کرایا کہ ہم اسپیشل والوں کا جاسوسی کے لیے اب برآمدے میں کرسی ڈال کر سر پر جناح کیپ اور بیروں والی واسکٹ پہن کر بیٹھنا طریقءمتروک ہے۔بہتر ہوگا اگر خاکسار کو ایم ۔اے اردو میں داخلے کے لیے فیس،ہاسٹل کا معاوضہ اور ایک عدد اسکوٹر دیا جائے تو فرائض منصبی کی بجا آوری بہتر انداز میں کی جاسکے گی۔ایس پی صاحب بھی گھاگ تھے۔انہوں نے سوچا کہ کم از کم ایم ۔ اے کی ڈگری کے حصول تک تو یہ ناہنجار علم کے اس کھونٹے سے بندھا رہے گا۔
خاکسار کی طالب علموں کے بارے میں جاسوسی کی غرض سے فراہم کردہ اطلاعات کے بارے میں اسپیشل برانچ میں یہ بات عام ہوگئی کہ یہ گھوڑے کے منھ سے کھینچ کر لائی گئی کسی گھاگ ڈینٹسٹ کی اطلاعات ہیں۔خاکسار ہی وہ گہنہ گار ہے جس نے الحمرا ہال میں Nude Paintings کی نمائش پر سرکار کے ایماءپر ایک مذہبی طالب علم جماعت کے غنڈوں کی مدد سے دھاوا بولا تھا اور مسز حسین اور کولن ڈیوڈ کا ایک ایک نیوڈ شہ پارا بھی چرایا تھا۔ تبادلے کے بعد کراچی میں ایک گجراتی سیٹھ کو یہ شہ پارے بیچنے کی وجہ خاکسار کو ایک معقول رقم ملی۔یہ جنرل ضیاالحق کا دور زرین تھا۔
یونی ورسٹی میں کوئی اور قابل ذکر بات نہ ہوئی سوائے اس کے کہ مجھے وہاں شعبہءاردو میں قصبہ ہڈالی ۔ ضلع خوشاب، جو بہت رنگ برنگی ہستی مشہور صحافی خوشونت سنگھ کی وجہ سے زیادہ مشہور ہوا ، وہاںکی یاسمین بشرہ مل گئی ۔حسین تو نہ تھی مگر سیکسی بہت تھی۔ قریب بیٹھی ہو تو دودھ، لسی، دیسی گھی، گڑدھانی کے ذائقہ یاد آجاتا تھا۔کلاس میں ہوتی تو سب لڑکوں کے دماغ بیڈ روم بن جاتے تھے۔ راجہ سہیل کا تعلق پنڈدادن خان سے تھا ۔ وہ شعبہءانگریزی میںہم سے ایک سال سینئر تھا۔ میرے اس سے مراسم بھی اچھے تھے۔یاسمین بشرہ میرے آنے سے دو ہفتے قبل ہی اس کی دلدل الفت میں گوڈے گٹے دھنس چکی تھی۔


یاسمین بشرہ اور راجہ سہیل کے تعلقات کے بارے میںلڑکے طرح طرح کی باتیںکیا کرتے تھے۔جن میں سے بھی ایک بات تھی کہ وہ دونوں سی ایس ایس کی یعنی مقابلے کے امتحان کی تیاری کے علاوہ بھی بہت کچھ کرتے ہیں۔ ان کے بہت کچھ کرنے کا مجھے پختہ یقین تھا۔ راجہ مجھ سے ڈیٹ مارنے کے لیے پرائیوٹ نمبر پلیٹ والی سرکاری اسکوٹر مانگ کر لے جاتا ۔یاسمین بشرہ تاحد نظر تک تو سیٹ پر پیچھے بیٹھی دکھائی دیتی تھی مگر جب ڈیٹ کے اختتام پر اسکوٹر مجھے واپس کی جاتی تو اس کی سیٹ کابیلنس بھی آﺅٹ ہوتا ۔ یاسمین بشرہ کو اسکوٹر کی سیٹ پر بیٹھتے وقت پیچھے سے دامن اٹھا کر بیٹھنے کی عادت تھی ۔اس کی وجہ شاید یہ بھی تھی کہ اس کا شمار بھی مارلن منرو کی طرح ان دوشیزاﺅں میں ہوتا تھا جن کے کولہوں میں بھی چین اور تائیوان والی پیہم مخاصمت اور لڑائی چلتی رہتی تھی ۔بعض دفعہ دوران نشست و خرام ایسا لگتا تھا ان خواتین کے کولہے ایک دوسرے سے منھ بسور ایک واضح خط تقسیم یا واگہ اٹاری کی سرحدی چوکی بن کر بیٹھے ہیں۔یہ علیحدہ بات ہے کہ دوران فلم بندی مارلن منرو کو اگر پتلا جھل مل کرتا چسپاں چسپاں سا گاﺅن پہننا ہوتا ،جیسا اس نے صدر کینیڈی کی سالگرہ پر پہنا تھا تو وہ کولہوں کے درمیان سوکھی ڈبل روٹی کا ٹکڑا ٹشو میں لپیٹ کر رکھ لیتی تھی۔معاملہ ان تازہ بے وطن ،شہیدان وفا، تنکوں کا تھاجو واپسی کے سفر میں میانی سے چپکے ہوتے ۔ واپسی کے سفر میں ریشہ ریشہ پولیسٹر ملے حاسد سیٹ کور نے جو مہلت اور قربت اسے ملی ہوتی وہ ان میں سے کچھ تنکے ثبوت کے طور پر خود سے چپکالیا کرتاتھا۔

اس جوڑے کی واپسی پر چونکہ عشا کی نماز کا وقت ہوتا اور یاسمین بشرہ کو غسل کی جلدی ہوتی لہذا وہ یہ سیٹ کور صاف کیے بغیر ہی ہاسٹل دوڑ جاتی تھی۔ان کی ناراضگی کی وجہ یہ بنی کہ کسی نے راجہ سہیل کے نام سے ایک شعر یاسمین بشرہ کی دوست کو سنادیا۔ شعر یہ تھا ع
اے یاسمین بشرہ، میری دلنشین بشرہ
تیرے عشق میں ہوگیا میں آدمی سے کھسرہ

یونی ورسٹی کی زبان میں یہ لائن پیٹنے کی مذموم حرکت تھی ۔ گوندلوں کی یاسمین بشرہ شعر سن کر ہتھے سے اکھڑگئی۔ یونی ورسٹی میں اس طرح کے ترک تعلقات پر معاملہ یوں ہوتا تھا کہ رویا نہ تو نہ میں۔
راجہ سہیل امتحان کے بعد غائب ہوگیا۔یاسمین بشرہ نے اپنی عصمت کا بلیدان دے کر بہت سنہرے سپنے دیکھے تھے۔ اس شاعرانہ تضحیک سے ایسی ٹوٹی کہ ہڈیالی میں پہلے توسرکاری اسکول میں
اردو کی استانی لگی اور پھر رفتہ رفتہ نائب صدر مدرس بن گئی۔راجہ سہیل البتہ سی ایس ایس کرکے ڈی ایم جی میں لینڈ کرگیا اور اچھے اچھے عہدوں پر فائز ہوکر بہت مال پیٹا۔


ایم اے میں ابھی ایک سال باقی تھا یاسمین بشرہ میری سیٹ کی خانہ ویرانی دیکھ کر دل مسوس کر رہ جاتی ۔ایک دن میں نے سمجھایا کہ ہڈالی اور مٹھا ٹوانہ کے گاﺅں جیسے بانہہ بیلی، سنگی ساتھی ہیں ہمیں بھی مل جل کر جب تک یہاں ہیں دن گزارنے چاہیئں۔وہ مان گئی چونکہ میری اسکوٹر کی پچھلی سیٹ سے خصوصی لگاﺅ ہوچلا تھا لہذا مجھ سے پنجاب یونیورسٹی کے دور رراز قطعہ ءہائے اراضی میں سبزہ نورستہ پرلیٹ کر سبزہ نورستہ کو پامال کرنے والا کوئی بہتر محفوظ ساتھ نہ مل پایا ۔ایم اے کے نتیجے تک ہم دونوں ایک دوسرے سے جڑے رہے۔
میرے بہنوئی کے بریگیڈیئر صاحب کی مارشل ڈیوٹی میں سندھ میں تعیناتی ہوئی تو کرنل بہنوئی صاحب بھی وہاں سدھار گئے خاکسار کو چند دنوں بعدلاءاینڈ آرڈر کی ایک میٹنگ بھی جب بہنوئی نے ہوم سیکرٹری میرمنور

´صاحب جو ہمارے اپنے ہی پنجاب کے تھے سندھ پولیس میں بلا کرکراچی تعینات کرنے کی سفارش کی تو وہ جھٹ سے مان گئے۔وہ سندھ پولیس میں پنجابی افسران کی بھرمار دیکھنا چاہتے تھے تاکہ وہاں پنجاب میں نئی ملازمتیں نکلیں۔ایسی ہر درخواست پر Purely on Humanitarian Grounds انہوں نے پہلا کام دفتر جاکر یہ کیا کہ ایک خط حکومت پنجاب کے ہوم سیکرٹری کو لکھ دیا۔

خط میں درج تھا کہ اسٹوڈنٹس پالی ٹکس میں سیاسی ریشہ دوانیوں اور کراس بارڈر مداخلت کے اسرار و موز پر من کہ مسمی منیر نسیم پنجاب بھر میں اپنا ثانی نہیں رکھتا ۔یہی سبب ہے کہ خاکسار کی سندھ پولیس میں آمد وہی اہمیت رکھتی ہے جو اسلام کے حوالے سے محمد بن قاسم کی اہمیت رکھتی تھی۔ ان کا محکمے کا ایک افسر بھارتی قیدیوں کے واگہ بارڈر کے راستے روانگی کے انتظامات کا جائزہ لینے جارہا تھا۔ اسے یہ خط دستی پہنچانے کو کہا اور فون پر پنجاب میں اپنے ہم پلہ ڈی ایم جی سیکرٹری سے گفتگو بھی کرلی۔ورنہ آپ تو جانتے ہیں ایسی سینکڑوں درخواستیں سرکار میں ردی کے بھاﺅ بکنے اور پنجاب کے دفاتر میں سردی میں باہر کے عملے کے رات کو آگ تاپنے کے لیے استعمال ہوتی ہیں۔ایک ماہ کے اندر خاکسار نہ صرف کراچی آن پہنچا بلکہ پے در پے تعیناتیاں بھی بہنوئی کی مداخلت کی وجہ سے ایک سے بڑھ کر ایک ہوئیں۔یوں نوکری اچھی چلی ۔مال بھی بنتا رہا ،ایک آدھ پلاٹ بھی کے ڈی اے کے ڈی۔ جی۔ صاحب کو عید پر سلامی کرنے پہنچا تو تحفہ میں مل گیا۔ آپ کا خادم من کہ مسمی منیر نسیم اے ایس آئی ، ان دنوں معطل ہے۔ معاملہ کچھ خاص نہیں تھا مگر ہم پنجابی ملازمان، سندھی میں کہتے ہیں” شل نہ“ جس کا مطلب ہوتا ہے ’اللہ نہ کرے‘ ان کم بخت ڈی ایم جی افسران کے ہتھے چڑھ جائیں۔ میری معطلی کے احکامات خاص طور پر سیکر ٹری محکمہءداخلہ سے موصول ہوئے تھے۔ ہم پولیس والوں سے تو یوں بھی یہ زکوٹے جن، اینٹ کتے کی دشمنی رکھتے ہیں ۔

