لاہور میرے اندر، میرے باہر

یہ تحریر 2625 مرتبہ دیکھی گئی

(1)

اُن دنوں میرا ایک ٹھکانا “ادب لطیف” کا دفتر بھی تھا۔ سبب اس کا برادرم ناصر زیدی تھے جو اس دور میں “ادب لطیف” کے مدیر تھے۔ اور آج کل بھی گویا سدا بہار مدیر  ہیں۔ “ادب لطیف ” کے مدیروں کی فہرست میں معروف شعرا اور ادبا شامل ہیں۔ ناصر زیدی نے انتہائی کم عمری میں اس تاریخی مجلّے کی عنانِ ادارت سنبھالی اور ماشاء اللہ آج تک سنبھالے ہوئے ہیں۔ جس طرح بابائے اردو نے محمد طفیل کی نقوش سے طویل وابستگی پر آپ کو “محمد نقوش” کا خطاب دیا تھا۔ میرے خیال میں ناصر زیدی اور “ادب لطیف” اب اس طرح لازم و ملزوم ہو چکے ہیں کہ اب “ادب لطیف زیدی” کہنا مناسب ہوگا۔

“ادب لطیف” صرف ایک ادبی مجلّہ ہی نہیں، ایک ادارہ اور پاک و ہند کی ادبی تاریخ کا ایک روشن باب ہے جو گزشتہ پون صدی سے شعر و ادب کی خدمت میں مصروف ہے۔ اس کے بانی چوہدری برکت علی اور ان کے ہونہار صاحبزادے چوہدری افتخار علی مرحوم نے ہمارے دور تک اس شمع کو روشن رکھا ہے جس کی روشنی میں ہم اپنی ادبی تاریخ کے مختلف گوشوں کو جیتا جاگتا نمایاں دیکھ سکتے ہیں۔ “ادب لطیف” نے شاعروں اور ادیبوں کی ایک پوری کھیپ تیار کی ہے اور سب سے بڑی بات اس ادارے نے اپنے اوپر سختیاں برداشت کر لیں۔ کبھی حق سچ کو چھپانے سے خوف زدہ نہیں ہوا۔

یہ 1968ء کے اوائل کا ذکر ہے۔ میں اورینٹل کالج میں نیا نیا داخل ہوا تھا کہ ایک دن استاد محترم ڈاکٹر تبسم کاشمیری کے دفتر میں داخل ہوا تو کیا دیکھتا ہوں کہ ایک گیسو دراز خوبصورت نوجوان ڈاکٹر صاحب کے سامنے والی کرسی پر بے تکلفی سے دراز ہے۔ منہ سے خوشبو کی لپٹیں نکل رہی ہیں غالباً الائچی چبا رہے تھے اور اونچے اونچے قہقہےلگ رہے ہیں۔ میں بھی ایک خالی کرسی پر بیٹھ گیا۔ ڈاکٹر صاحب بولے مظفر عباس (ڈاکٹر عبادت بریلوی اور ڈاکٹر تبسم کاشمیری مجھے ہمیشہ پورے نام سے پکارتے تھے)۔ یہ ہمارے قریبی دوست ناصر زیدی ہیں۔ “ادب لطیف” کے نوجوان ایڈیٹر، بہت کام کے آدمی ہیں۔ کبھی “ادب لطیف” کے دفتر جا کر ان کو مل لینا۔ ناصر زیدی بولے کبھی کیوں، آج ہی شام کو آ جانا۔ میں یونیورسٹی سے فارغ ہو کر انارکلی میں مٹرگشت کرتا ہوا اسی دن “ادب لطیف” کے دفتر لوہاری دروازہ میں جا پہنچا۔ ایک بڑے سے ہال نما کمرے میں سامنے ایک بڑی میز کے سامنے ایک باوقار سرخ و سفید نورانی چہرے والے صاحب تشریف فرما تھے، چودھری افتخار علی مالک و پبلشر ادارہ اور اس کے سامنے ایک دوسری میز تھی جو مسودات سے اٹی پڑی تھی جس کے ساتھ ایک کرسی پر ناصر زیدی بیٹھے تھے۔ میں سلام و دعا کے بعد ایک خالی کرسی پر بیٹھ گیا۔ اس وقت ایک معروف شاعر وہاں بیٹھے ہوئے تھے غالباً نثار اکبر آبادی تھے۔ زیدی صاحب نے خوب آؤ بھگت کی۔ چائے کا آرڈر دیا۔ ناصر زیدی سے اس کی پہلی ملاقات کے بعد گویا دبستاں کھل گیا۔ وہ دن اور آج کا دن، زیدی صاحب سے میرا محبت کا رشتہ اسی طرح قائم و دائم ہے۔ مگر اس رشتے کی مضبوطی کا کریڈٹ مجھ سے زیادہ ناصر زیدی کو جاتا ہے کہ وہ دوستوں کے دوست ہیں اور اس عقیدے کے قائل ہیں:

اپنی تو جہاں آنکھ لڑی پھر وہیں دیکھو

ناصر زیدی اپنے سے زیادہ دوستوں کا خیال رکھتے ہیں۔ بہت کم لوگ دیکھے ہیں جو اس طرح اپنے دوستوں کو آگے کرتے ہیں جس طرح ناصر زیدی  خود ادبی اور ثقافتی حلقوں تک رسائی کا واسطہ ناصر زیدی بنے ہیں۔ میرا کوئی مضمون چھپتا تو سب سے پہلے ناصر زیدی مجھے اطلاع دیتے تھے۔

“ادب لطیف، نگار، قومی زبان” غرض جن جن مجلوں میں میرے مضمون یا نظمیں شائع ہوتے، مجھے پہلے ناصر زیدی اُس کی کٹنگ یا بعض اوقات رسالے بھیج دیتے اور آج بھی یہ سلسلہ قائم ہے۔ میں ناصر زیدی پر لکھنے لگوں تو شائد ایک پوری کتاب بھی ناکافی ہو۔

مجھے اپنی پہلی کتاب اردو میں قومی شاعری پر پاکستان رائٹرز گلڈ سے تحقیق کا “داؤد ادبی انعام” ملا تو ناصر زیدی پہلے شخص تھے جنھوں نے مجھے  اطلاع دی۔ وہ پاکستان رائٹر گلڈ کے اِن دنوں بھی عہدیدار تھے بس اتنا کہہ سکتا ہوں، بقول میرؔ

پیدا کہاں ہیں ایسے پراگندہ طبع لوگ

افسوس تم کو میرؔ سے صحبت نہیں رہی

ناصر زیدی کی ایک صفت ایسی ہے جو میں نے بہت کم لوگوں میں دیکھی ہے، وہ نیکی کرکے بھول جاتے ہیں یہاں تک کہ :

دشمن بھی جو چاہے تو میری چھاؤں میں بیٹھے

چونکہ سیّد ہیں۔ دسترخوان بہت وسیع ہے، انتہائی وضع دار اور وضع داری نبھانے کا ہنر بھی جانتے ہیں۔ پہلے پاک ٹی ہاؤس میں اور آج کل ہاسپیلٹی ہالینڈے ان) میں

جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔