قومی آسمان کا آفتاب

یہ تحریر 1119 مرتبہ دیکھی گئی

“کھانے تو ہوویں فرعونی اور طریق کھانے کا ہو مسنونی”

سر سید

مختاد مسعود لکھتے ہیں: میں جس کسی سے سرسید کے بارے میں گفتگو کروں وہ اگر یہ معلوم کرنا چاہے کہ اسے اس موضوع پر کیا کچھ پڑھنا چاہیے تو مجھے مشورہ دینے میں کبھی دقت نہ ہوئی۔۔۔ اگر مشورہ لینے والا نوجوان طالب علم ہوا تو اسے “حیاتِ جاوید” کی جگہ جمیل یوسف کی کتاب “مسلمانانِ برصغیر کے محسنِ اعظم سرسید احمد خانؒ” پڑھنے کے لیے تجویز کرتا۔ مختصر مگر جامع، مسند اور معتبر۔”

جمیل یوسف کی کتاب کے بارے میں مختار مسعود کی رائے درست ہے۔ سرسید کی شخصیت اور کارہائے نمایاں سے باخبر ہونے کے لیے یہ تصنیف عمدہ ہے۔ بنیادی سطح پرتعارف ہو جاتا ہے۔ بعدازاں مزید کچھ معلوم کرنا ہو تو بہت سی کتابیں موجود ہیں۔

یہ تو نہیں کہہ سکتے کہ سر سید کے ذہن میں پاکستان کا کوئی تصور پنپ رہا تھا۔ لیکن ان کی بصیرت کی داد دینی پڑے گی۔ ان کی سمجھ میں آ گیا تھا کہ اگر ہندوستان میں کبھی مغربی طرز کی جمہوریت قائم کی گئی اور ایک آدمی ایک ووٹ کے نسخے پر عمل ہوا تو حکومت ہمیشہ ہندوؤں کے پاس رہے گی۔ وجہ یہ کہ اکثریت انہی کی تھی۔ وہ ہندوؤں کے درپردہ عزائم سے بھی غافل نہ تھے۔ اس کے برعکس بعض مسلمان رہ نما ہندو قیادت کے مزاج کو کبھی نہ سمجھ پائے۔ اب تو وہ خط بھی شائع ہو گیا ہے جو گاندھی جی نے پنڈت نہرو کو لکھا تھا اور جس میں کہا گیا تھا کہ کابینہ میں مولانا ابوالکلام آزاد کو شامل نہ کیا جائے۔ اگر دکھاوے کے طور پر کسی مسلمان کو شامل کرنا ہو تو کسی اور کو چن لو۔

سرسید کی دلچسپیاں اتنی متنوع تھیں کہ حیرت ہوتی ہے۔ بقول جمیل یوسف “مذہب، اخلاق، معاشرت، تعلیم، سیاست، خطابت، اردو نثر، مضمون نویسی، ادارت، انجمن سازی، انجینئرنگ، آثارِ قدیمہ، تاریخ نویسی، غرض قومی زندگی کے ہر شعبے میں، اپنے پیچھے آنے والوں کے لیے روشن اور ان مٹ نقوشِ قدم چھوڑے۔ صرف یہی نہیں “رسالہ اسبابِ بغاوت ہند” تحریر کیا تاکہ انگریز حکم رانوں کو پتا چلے کہ ان سے کیا غلطیاں سرزد ہوئی تھیں۔ ولیم میور کی کتاب “لائف اوف محمدؐ” اور ڈبلیو ڈبلیو ہنٹر کی تصنیف  “آوور انڈین مسلمانز” کے دنداں شکن جواب لکھے۔ “آئین اکبری” اور “تاریخ فیروز شاہی” کی تدوین کی۔ انھیں ہومیو  پیتھی کی بھی کچھ نہ کچھ خبر تھی۔ ہمیں آزادی کے بعد پاکستان میں طرح طرح کے رہبر نصیب ہوئے ہیں لیکن کیا مجال جو علم و ادب، دیانت داری اور مسلمانوں کی بھلائی کے لیے سرگرمِ عمل رہنے میں کوئی سرسید کے قریب بھی پہنچ سکتا ہو۔

دو باتیں سرسید نے جان لی تھیں۔ ایک یہ کہ اگر مسلمان نوجوان جدید طرز کی تعلیم حاصل نہ کریں گے تو آیندہ اہم کیا کم اہم ملازمتیں بھی ان کے حصے میں نہ آئیں گی۔ سب پر ہندو قابض ہو چکے ہوں گے۔ دوسرے یہ کہ سائنسی علوم کو کسی طرح بھی نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ سائنسی علوم میں جس تیزی سے پیش رفت ہو رہی تھی اس کا انھیں اندازہ تھا۔ اور یہی وہ علوم تھے جن سے مسلمان بے خبر تھے اور ایسا معلوم ہوتا تھا کہ بے خبر ہی رہنا چاہتے ہیں۔

سرسید سے بعض غلطیاں بھی ہوئیں۔ خاص طور پر آسمانی صحائف میں درج باتوں اور سائنسی حقائق میں مطابقت پیدا کرنے کی کوشش جو بے جواز تھی۔ سائنسی علوم میں تبدیلیاں واقع ہوتی رہتی ہیں اور جن باتوں کو ایک مدت تک صحیح سمجھا جاتا ہے نئی تحقیق کی روشنی میں انھیں رد بھی کرنا پڑتا ہے۔

سرسید کی مخالفت میں تین گروہ پیش پیش تھے؛ اس وقت بھی اور آج بھی۔ ایک تو متعدد علمائے دین جنھیں سرسید کی کارگزاری اور خیالات سے فساد کی بُو آتی تھی۔ علی گڑھ میں مدرستہ العلوم قائم کرنے کی تجویز پر کہا گیا کہ جو لوگ ایسا کرنا چاہتے ہیں وہ حقیقت میں مسلمان نہیں اور مدرسے میں سرسید کا بت رکھا جائے گا۔ بہرحال، وہ انگریزی حکومت کا دور تھا۔ بحث مباحثہ شدت اختیار کر سکتا تھا لیکن صرف علمی یا دینی سطح پر۔ آج کل کی طرف قتل و غارت کی نوبت نہ آتی تھی۔

دوسرا گروہ ان حضرات کا ہے جو کہتے ہیں کہ انڈین نیشنل کانگرس میں مسلمانوں کی شمولیت کی مخالفت سرسید نے انگریزوں کے ایما پر کی۔ یہ الزام بھی کوئی وزن نہیں رکھتا۔ ہندوؤں کا ایک بڑا طبقہ انگریزوں کو اپنا بہی خواہ سمجھتا تھا۔ کانگریس کے خلاف  سرسید کی مہم کا ایک خاص پہلو یہ ہے کہ مسلمان جو بالعموم سرسید کی بیشتر باتوں کی مخالفت کرتے تھے اس مہم میں سرسید کے ہم نوا بن گئے۔ مسلمانوں کی یہ روش 1947ء تک قائم رہی کہ انھوں نے بعض مشہور دینی علما کے برعکس، جو کانگرس کے حامی تھے، قائداعظم کا ساتھ دینے کو ترجیح دی۔

تیسرا گروہ سرسید کو انگریزوں کا پٹھو اور خوشامدی قرار دیتا ہے۔ ان حضرات کے خیال میں اکبر الہ آبادی کو درپیش معاملات کی زیادہ سمجھ تھی۔ پہلی بات یہ کہ اکبر سرسید سے تئیس برس زیادہ جیے۔ مغربی تہذیب کی برتری نسلی منافرت اور استعمار پر قائم تھی اور اس کے مضر پہلو سامنے آتے جا رہے تھے۔ اکبر نے انھیں دیکھا اور سمجھا اور طنز کا نشانہ بنایا۔ ورنہ اکبر نہ سرسید کے خلاف تھے نہ انگریزی حکومت کے۔ اگر ہوتے تو یہ نہ لکھتے: “قومی آسمان کے آفتاب جس سے زیادہ جوہر شناس اور علم دوست اس ملک میں کوئی نہیں یعنی آنریبل سرسید احمد خاں۔” یا یہ اشعار ملاحظہ ہوں:

پابند اگرچہ اپنی خواہش کے رہو

حامی نہ کسی خراب سازش کے رہو

قانون سے فائدہ اٹھانا ہے اگر

لائل سبجکٹ تم برٹش کے رہو

یہ بھی جانے دیجیے۔ سرسید کا دور محکومی کا تھا۔ آزادی سے وہ کچھ نہ کر سکتے تھے۔ ہر قدم سنبھل کر، سوچ سمجھ کر، اٹھانا پڑتا تھا۔ ہمیں تو آزاد ہوئے چوہتر برس ہو گئے۔ ستر سال سے امریکہ کے کاسہ لیس ہیں۔ پہلے ہمارا دنیوی قبلہ لندن تھا۔ اب واشنگٹن ہے کہ ریاست ہائے متحدہ امریکہ سپر پاور ہے۔  خوئے غلامی اتنی ہے کہ انگریزی سر پر سوار ہے۔ اسی طرح بانیِ ملک کا مذاق اڑاتے ہیں۔ اس آزادی سے تو انگریزوں  کی محکومی ہی بہتر تھی۔ جتنے بڑے آدمی ہم نے انگریزی غلامانہ دور میں پیدا کیے اب ان جیسا ایک بھی نظر نہیں آتا۔ کہاں سرسید، حالی، شبلی، محمد حسین آزاد، نذیر احمد، اقبال، محمد علی جوہر، ابوالکلام آزاد، حسرت موہانی، محمد علی جناح، علامہ مشرقی اور کہاں آج کل کے نیم ٹر حکمراں اور سیاست داں۔ ہمارے حصے میں ایسے وزیر تعلیم بھی آئے ہیں جو کہتے ہیں فلاں میٹنگ مہینے کی بتیس تاریخ کو ہوگی۔ ان سب کے اسمائے غیرگرامی سے آپ بھی واقف ہیں۔ کوئی بات نہیں۔ وہ دور بھی گزر گیا۔ یہ دور بھی گزر جائے گا۔ ثبات ایک تغیر کو ہے زمانے میں۔

سرسید احمد خاں از جمیل یوسف

ناشر: کتاب ورثہ، لاہور

صفحات: 227؛ چار سو روپیے