غزل

یہ تحریر 49 مرتبہ دیکھی گئی

بجا ہے اس کی شکایت جو جا نہیں پایا
وہاں پہ جا کے بھی سب نے خدا نہیں پایا

کوئی تو بات ہوئی رات کے اندھیرے میں
چراغ چاند سے نظریں ملا نہیں پایا

جمال عکس کا جب آئنے پہ بھاری پڑا
کوئی بھی اپنا سراپا بچا نہیں پایا

میں خاک بھی نہ رہا خواب کی شکست کے بعد
کہ خواب کھل کے کسی کو سنا نہیں پایا

کبھی کبھی تو وہ خود سے چھپانے لگتا ہے
کہ اس نے خود میں کوئی دوسرا نہیں پایا

تلاش کرنا سہاروں کا اور کھو دینا
وہ حوصلہ بھی جو بندہ جُٹا نہیں ہوتا

کوئی زمیں ہو مگر شعر تیرا اپنا نہیں
کہ تُو تو جھوٹ سے دامن چھڑا نہیں پایا

میں راستے میں کھڑا منتظر ہوں کب آئے
وہ قافلہ جسے رستہ تھکا نہیں پایا

فصیلِ شہر ترا فیض ہے یہ حبس یہ خوف
کہ کوئی گھر میں دیا تک جلا نہیں پایا

ہمارے دل میں جگہ تھی مگر کسے دیتے
کہ ہم نے تجھ سا کوئی دوسرا نہیں پایا

کوئی بھی چیز نہ تھے، جب تلک نہ تھے منسوب
پھر ایک نام کی نسبت سے کیا نہیں پایا

میں پہلے دن سے اسی کشمکش میں تھا زاہد
میں کیا کروں گا جو اس کو بھلا نہیں پایا