غزل

یہ تحریر 118 مرتبہ دیکھی گئی

پرانے خواب سے رشتہ نیا بنایا ہے
اسی کو یاد بھی رکھا جسے بھلایا ہے

ہزار پہرے بٹھائے تھے دل کے رستے پر
مجھے پتا نہ چلا وہ کدھر سے آیا ہے

جو میرے دل میں ہے وہ آگ میری اپنی ہے
جو تیرے ہاتھوں میں اک پھول ہے پرایا ہے

میں اپنے حال میں خوش بھی تھا اور اکیلابھی
کسے بتاؤں کسی نے مجھے بلایا ہے

وہ ایک چہرہ نئے خواب دے گیا مجھ کو
وہ ایک لمحہ تھا جس نے مجھے جگایا ہے

یہ کس طرح کا مکاں ہے ہمارے حصے میں
کہیں پہ دھوپ ہے اس میں نہ کوئی سایا ہے