غزل

یہ تحریر 131 مرتبہ دیکھی گئی

دشتِ تسلیم سے جو کُوئے فغاں تک پہنچے
غیب سے پھر نہ صدا آئی کہاں تک پہنچے
بھیج دیجے گا کوئی آگ بجھانے والا
اِس سے پہلے کہ وہ خطرے کے نشاں تک پہنچے
کیا سزاوار نہیں دُردِ تہہِ جام کے بھی وہ
آخری وقت میں جو پیرِ مغاں تک پہنچے
یہ الگ بات ہے جو بابِ کرم بند ملا
ہم بہ ہر طور ستم گر کے مکاں تک پہنچے
قیس ، فرہاد ، مہیوال ، پُنل اور بلالؔ
ہمّت و بخت کا تھا کھیل جہاں تک پہنچے