دِل دریا بخشا ہے صبر پہاڑ دیا
ورنہ یاروں نے تو اُکھاڑ اُکھاڑ دیا
اُس کے وہم و گماں میں تو ہوں ہم کم سے کم
جس کی خاطر اپنا آپ اُجاڑ دیا
آپا دھاپی نے سنسار بگاڑ دیا
ماں نے ڈانٹا ، بیٹے نے سر پھاڑ دیا
شرم و حیا پر یوں ہی کوئی بات چلی تھی
صاحب زادی نے ابّا کو جھاڑ دیا
بے اُستادے تو نہ تھے ، جیون کے دنگل میں
لوبھ ،بناوٹ، ہٹ دھرمی نے پَچھاڑ دیا
بعض ہونّق، ناسَک ،نحس، نجس تھے اتنے
جیتا جاگتا شہر زمیں میں گاڑ دیا
بھول گئی دُنیا اُس نوسر باز کو ، جس نے
ہیرے موتی چھین کے کاٹھ کباڑ دیا
غزل
یہ تحریر 401 مرتبہ دیکھی گئی









