چاہے ہزار بدلیں لہجے ، رُتیں ، ہَوائیں
شاعر رقم کریں گے محبوب کی اَدائیں
اُڑنے کو تو میسّر ہیں بے کراں فضائیں
بس کچھ چھچورپن سے شاہین باز آئیں
تہذیب مُنہدم ہوئی ، اپنا سر بچائیں
بھگدڑ مچی ہوئی ہو ، تو کون لے بلائیں
یادوں کی بستیاں کچھ اِس طور پر بسائیں
ہڑواڑ کی اُداسی مظلوم بھول جائیں
کچھ چاند چھب دِکھائیں ، کچھ پھول مسکرائیں
بادل اُداسیوں کے ممکن ہے چَھٹ ہی جائیں
آنگن، برآمدے صبح و شام سوچتے ہیں
وہ کس سے بات پوچھیں ، وہ کس کو دیں صدائیں
باتوں کے ظالموں نے دریا بہا دیے ہیں
اب شاہ کے معاوِن رستہ کوئی سُجھائیں
کرنے کو کام دو ہی اب رہ گئے ہیں ، یارو
چاہیں تو بھر لیں آہیں ، چاہیں تو تِلملائیں
کچھ تو سماعتوں کے دُکھ کی کریں تلافی
باگیشری میں غالبؔ کے شعر گُنگُنائیں
غزل
یہ تحریر 425 مرتبہ دیکھی گئی









