غزل

یہ تحریر 324 مرتبہ دیکھی گئی

زوال وحشتیں کرتا ہے غل مچاتا ہے
صدا کا قحط مگر ہے کہ بڑھتا جاتا ہے

خدا کے ساتھ ازل سے سبھی کا ناتا ہے
جب ابتلا سے گذرتے ہیں یاد آتا ہے

صبا سرگوشیاں کرتی ہے پھول کانپتے ہیں
جو دیکھتا ہے وہ رنگوں میں ڈوب جاتا ہے

کہیں ستارہ و گل ہیں کہیں صداو سکوت
عجب تماشائے عبرت کہ دل لبھاتا ہے

میں رخت باندھ کے بیٹھا ہوں راستے کا چراغ
گئے ہووں کی مجھے داستاں سناتا ہے

اک ایسا شخص جسے شکر کا قرینہ نہیں
جو سادہ دل سے وہ کہہ دے وہ اس کو بھاتا ہے

خدا کا نام مرا آخری سہارا تو ہے
وہی بناتا ہے مجھ کو وہی جلاتا ہے

فساد یہ ہے کہ تو روشنی کو آگ کہے
مراد یہ ہے کہ دل دل کو آزماتا ہے

کوئی قرینہ نہ ہو پھر بھی دل کہے گا یہی
جو کہکشائیں بناتا ہے وہ ہی داتا ہے