غزل

یہ تحریر 277 مرتبہ دیکھی گئی

میں دن کی روشنی ہوں مجھے رد کرے گا کیا
خوشبو نے پھیلنا ہے اسے روک لے گا کیا

یہ کس کا راستہ ہے یہ کس کی ہے جستجو
ہم لوگ تھک گئے تو زمانہ کہے گا کیا

اے روشنی کے روپ مجھے سائے کھا گئے
اے زندگی کی دھوپ یونہی اب چلے گا کیا

جو جس قدر غنی ہے اسی طور فیض یاب
جو بانٹتا ہے رزق اسے اور دے گا کیا

میں کم نصیب اس کی طرف دیکھ نہ سکا
اے بخت مجھ کو پھر نہیں موقع ملے گا کیا

کیا شکر کر سکے گا کوئی دل نیاز مند
جو دل نہ کر سکے تو زباں سے کرے گا کیا

اے موسمِ بہار مری سمت بھی نظر
اے کاروانِ حسن کوئی پل رکے گا کیا

کچھ لوگ اپنے آپ سے بھی بدگمان ہیں
یہ روگ ان کی زندگی کو راہ دے گا کیا

ہم جتنا سوچتے ہیں الجھتے ہیں اس قدر
یہ سوچنا سمجھنا کہیں پر تھمے گا کیاپ