عذرا عباس کا بچپن

یہ تحریر 3417 مرتبہ دیکھی گئی

میرا بچپن۔ مصنفہ عذرا عباس۔ جدید کلاسیک پبلشر، کراچی

“بہت سے ایسے منظر جنھیں شاید نہیں بھلانا چاہیے تھا ہو سکتا ہے میں بھلا بیٹھی ہوں لیکن جو یاد رہ گئے ہیں وہ کیوں یاد رہ گئے ہیں مجھے پتا نہیں۔”

فکشن اور خودسوانح کے درمیان حدفاصل قائم کرنا مشکل ہے۔ بہت سا فکشن خود سوانح کی بدلی ہوئی شکل ہے اور بہت سے خود سوانح میں فکشن کی آڑی ترچھی جھلکیاں نظر آتی ہیں۔ ماضی کو یاد کرنا یا یاد رکھنا تو مشکل نہیں لیکن ٹھیک ٹھیک یاد رکھنا خاصا دشوار ثابت ہو سکتا ہے، خصوصاً اس صورت میں جب ہم کسی داخلی یا خارجی دباؤ کے تحت اسے ٹھیک طرح یاد نہ رکھنا چاہتے ہوں۔

گویا خود سوانح پر زیادہ اعتبار نہیں کیا جا سکتا لیکن یہ تقاضا ہی کیوں کیا جائے کہ وہ لفظ بہ لفظ، واقعہ بہ واقعہ درست ہو؟ ہر انفرادی ماضی، مرد کا یا عورت کا، بڑی حد تک نجی چیز ہے، ایک طرح کا خواب جسے کوئی اور نہیں دیکھ سکتا، جس میں کوئی اور شریک نہیں ہو سکتا۔ ایک طویل، صبر آزما خلوت۔ یہ مانا کہ بعض باتوں کی تردید کرنا شاید ممکن ہو لیکن یہ کون کہہ سکتا ہے کہ کہنے یا لکھنے والے نے اپنے ماضی کو جس طرح بیان کیا ہے، سمجھایا محسوس کیا ہے وہ کسی سچائی کا حامل نہیں۔ یہ ماضی، بہرحال، میرا یا آپ کا نہیں۔ اس سے انھیں شرائط پر آگاہی حاصل کرنے یوگی جو ماضی والے نے عائد کی ہوں۔

عذرا عباس نے بچپن کی بکھری ہوئی یادوں کو سمیٹا ہے۔ اگر کوئی قاری اس کتاب کو فکشن ماننے پر مصر ہو تو اسے یہ بھی تسلیم کرنا چاہیے کہ اردو میں فکشن اتنے سلیقے اور کفایت سے روز روز نہیں لکھا جاتا۔ انداز بیان میں خودنمائی ہے نہ لفاظی، سجاوٹ ہے نہ بناوٹ، رقت آمیزی ہے نہ خودترسی۔ خود اپنے آپ میں کھوئی ہوئی سیدھی سادی شفاف سی نثر جسے کسی سہارے کی ضرورت نہیں۔ چھوٹے چھوٹے واقعات کی یکجائی جو کسی اہتمام کے بغیر آپس میں جڑتے جاتے ہیں۔

نچلے متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والی اس لڑکی کا بچپن ہم میں سے بہت سوں کا بچپن ہو سکتا ہے۔ گھر کے اندر اور گھر سے باہر کی یہ یادیں بنتے بگڑتے یا پختہ ہوتے انسانی رشتوں کی روداد ہے۔ دنیا اور دنیا والوں کو جاننے پہچاننے کے کڑے مرحلوں سے گزرنے والی لڑکی حیرت زدگی کے عالم میں ہے اور یہ حیرت کبھی کبھی دہشت زدگی میں بدل جاتی ہے۔ صرف بچپن ہی میں ہم صحیح معنی میں اپنے گرد و پیش سے حیرت زدہ یا دہشت زدہ ہو سکتے ہیں۔ کہانی کہنے والی کو بس ادھورا سا شعور ہے کہ جو سمجھ میں نہیں آتا یا آ سکتا وہ ان باتوں پر حاوی ہے جو سمجھ میں آ جاتی ہیں۔ ان معاشروں میں جہاں مردوں کی بالادستی قائم ہو۔ عورتوں کو بچپن سے بڑھاپے تک، یہ احساس دلایا جاتا ہے کہ کوئی ٹھکانہ، کوئی فیصلہ، جینے کا کوئی انداز ان کا اپنا نہیں۔ ان کی زندگیاں ان مسلط کیے ہوئے فیصلوں سے الجھتے ہوئے گزرتی ہیں۔ یہ کشمکش اس آپ بیتی میں پہلے ورق سے موجود ہے۔ عذرا عباس نے کسی چالاکی یا ہاتھ کی صفائی کے بغیر سب کچھ بچی یا لڑکی کی نظر سے دیکھنے کی کوشش کی ہے۔ محرکات تلاش کرنے یا تجزیہ بازی کے چکر میں نہیں پڑی۔ یہی وجہ ہے کہ بیانیہ قربت کے احساس سے لبالب ہے جیسے سب کرداروں اور واقعوں کو ابھی ابھی دیکھا ہو۔ اس چھوٹی سی کتاب میں کردار ہیں بھی جاندار۔ کون ہے جو دادا ابا، چاندی کی بالیاں بیچنے والے، چوہیا والی عورت، شمو کی اماں، پاگل عورت اور سگو کو آسانی سے بھلا سکے۔ بیانیے کی بے ساختگی میں کھلا پن بلکہ کھلا ڈلاپن ہے مگر کوئی بات محض چونکانے کے لیے، چٹخارے کی خاطر نہیں۔