حسن منظر کا نیا ناول تاریخی ہے اور اس دور کی تصویر کشی کرتا ہے۔ جب شاہجہاں کے غیرفعال ہونے کے بعد اس کے چاروں بیٹوں میں خانہ جنگی شروع ہو گئی تھی۔ شاہجہاں کو دلی لگاؤ دارالشکوہ سے تھا۔ وہ چاہتا تھا کہ اس کے بعد دارالشکوہ ہی مغلیہ سلطنت کا سربراہ بنے۔ مشکل یہ تھی کہ اقتدار کی اس رساکشی میں باقی تینوں شاہ زادوں کو علم تھا کہ دارا شکوہ کے اقتدار پر فائز ہونے کی صورت میں ان کی موت یقینی ہے۔ اگر قتل نہ ہوئے تو نابینا کر دیے جائیں گے۔ لہٰذا یہ چاروں صرف تخت نشین ہونے کے لیے ایک دوسرے سے دست و گریباں نہ تھے بلکہ اپنی جان بچانے کی خاطر بھی کوشاں تھے۔

اس تمام ابتلا میں نیا کچھ بھی نہ تھا۔ خود شاہجہاں نے تخت و تاج سنبھالتے ہی اپنے بھائیوں اور حقیقی بھتیجوں کو قتل کر ا دیا تھا۔ جہانگیر نے اکبر اور شاہجہاں نے جہانگیر کے خلاف بغاوت کی تھی۔ ہر ایک کی دلی تمنا تھی کہ جلد از جلد بادشاہت مل جائے۔ اگر سترے بہترے ہو کر راج کرنے کا موقع ملا تو کیا فائدہ۔ اولاد الگ دشمن ہو جاتی تھی کہ بوڑھا باپ کسی طرح دنیا سے رخصت ہو تو بھائیوں کو ٹھکانے لگا کر بادشاہت کے مزے لوٹنے کا موقع ہاتھ آئے۔
حسن منظر کی ہمدردیاں دارا شکوہ کے ساتھ ہیں۔ اس پر کسی کو کیا اعتراض ہو سکتا ہے۔ مطلق غیر جانب داری ایک خیالی شے ہے۔ البتہ جو تیز طرار ناول نگار ہوتے ہیں وہ اپنے جھکاؤ کا اتنی آسانی سے پتا نہیں چلنے دیتے۔ حسن منظر نے دکھایا ہے کہ پوری مغلیہ سلطنت میں تشویش کی لہر دوڑی ہوئی ہے۔ کسی کو علم نہیں کہ مستقبل میں کیا پیش آئے گا اور تخت و تاج کے خواستگاروں میں سے کامیابی کس کے قدم چومے گی۔ کاروبار ٹھپ ہے۔ بہت سے لوگ شہروں کو چھوڑ کر دیہات کا رخ کر رہے ہیں۔ دارا شکوہ کے حامیوں کی کمی نہیں۔ اورنگ زیب کے حق میں آواز بلند کرنے والے بھی موجود ہیں۔
یہ کہنا مشکل ہے کہ معاشرے میں بے چینی اور بے یقینی کی جو تصویر حسن منظر نے کھینچی ہے وہ اس دور کے حالات اور منقسم رعایا کی صحیح عکاسی کرتی ہے۔ لیکن انھوں نے معاملات کو جس طرح پیش کیا ہے وہ ناول نگار کا استحقاق ہے۔ ہم تاریخ میں جس قدر پیچھے جائیں گے روزمرہ کے معاملات کے بیان کے لیے ہمیں تخیل کا زیادہ سے زیادہ سہارا لینا پڑے گا۔ پہلے زمانے میں جو تاریخیں لکھی جاتی تھیں، انھیں بادشاہوں اور سلطنتوں کے عروج و زوال، جنگوں اور خانہ جنگیوں سے زیادہ سروکار ہوتا تھا۔ عام لوگ کیسے زندگی بسر کرتے تھے، ان کی کیا حالت تھی، اس پر پرانی تاریخوں میں اتفاقاً ہی روشنی پڑتی ہے۔
اس مختصر ناول کا خلاصہ یہ ہے کہ دارا شکوہ، مراد اور شجاع مارے گئے اور یہ بڑا ظلم ہے۔ اورنگ زیب جیت گیا، یہ بہت برا ہوا۔ گویا اورنگ زیب کو چاہیے تھا کہ، ہماری خوشنودی کی خاطر، خود قتل ہو جاتا جب ناول نگار اپنے پتّے کھول کر سامنے رکھ دے تو ناول بے مزہ ہو کر رہ جاتا ہے۔ حسن منظر کے جال میں دارا شکوہ تخت سنبھالنے کے لیے سب سے موزوں تھا اور اورنگ زیب سب سے ناموزوں۔ اسطرح بے دھڑک فیصلے جاری کرنا کچھ جچتا نہیں۔ دارا شکوہ میں بھی یقیناً خوبیاں ہوں گی۔ ان کا ہمیں علم نہیں ہو سکتا کیوں کہ اسے حکومت کرنے کا موقع ہی نہیں ملا۔ اورنگ زیب میں بھی، ظاہری متانت اور زاہدانہ طرزِ زندگی کے باوجود، جو بہت سے حضرات کو گراں گزرتی ہے، خوبیاں تھیں اور ان کا اعتراف کرنے کے بجائے اسے برا بھلا کہتے رہنا انصاف نہیں۔ اسے متعصب کہا جاتا ہے۔ جس افسر کی آخری جانچ کے بعد اورنگ زیب کھانا کھاتا تھا وہ نعمت خان عالی تھا اور شیعہ تھا۔ اس کے علاوہ اپنے وصیت نامے میں تحریر کیا ہے: “میں نے اپنے خرچ کی تھیلی میں قرآن نقل کرنے کی محنت سے حاصل ہوئے تین سو پچاس روپیے ہیں۔ یوں کہ قراآن کی نقل کے ذریعے کمایا ہوا پیسہ شیعہ فرقے کے نزدیک ناجائز سمجھا جاتا ہے۔ اس لیے اس سے کفن نہیں خریدا جائے اور نہ ہی دوسری ضرورتوں پر خرچ کیا جائے۔” محمد حسین آزاد نے اس کے فارسی خطوط کی عبارت کو “گلستان” کا ہم پلہ قرار دیا ہے۔ اس رائے کو تسلیم کرنا مشکل ہے لیکن یہ ضرور ظاہر ہوتا ہے کہ اورنگ زیب کی فارسی نثر نہایت شستہ ہے۔ یہ باتیں تو سامنے آ گئیں، اس لیے لکھ دیں۔ جو رائے ازحد اہم ہے وہ ذیل میں درج کی جاتی ہے۔
مرہٹوں پر فتح پانے کے بعد ایک افسر، محرم خاں، نے غیر مسلموں کو غیر معتبر اور دشمن بناتے ہوئے انھیں اعلیٰ عہدوں سے ہٹانے کی درخواست اورنگ زیب کو بھیجی۔ ارنگ زیب نے جواب دیا: “حکومت کے امور کا مذہب سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔” (پاکستان کے صاحبانِ اقتدار میں سے کوئی آج یہ کہہ کر تو دکھائے)۔
ایک خیال حسن منظر صاحب نے عجیب ظاہر کیا ہے۔ لکھتے ہیں: “کل ایک سال اور ساڑھے چار مہینوں کا ذکر جنھوں نے ملک کی آنے والی تاریخ کا رخ صدیوں کے لیے موڑ دیا۔” پتا نہیں، اشارہ کس طرف ہے۔ اس سے مغلیہ سلطنت کا زوال یا انگریزوں کا تسلط مراد ہے یا عدم رواداری کی فضا پر اظہارِ قلق ہے۔
جہاں تک زوال کا تعلق ہے تو ہر بڑی قوت جلد یا بدیر زوال سے دوچار ہوتی ہے۔ مغلیہ سلطنت کو کوئی استثنا حاصل نہیں۔ دارا شکوہ کے کامیاب ہونے یا نہ ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ سب سے بڑا جھٹکا جو مغلیہ سلطنت کو لگا وہ نادر شاہ کا حملہ تھا۔ وہ دلی کو لوٹ کر لے گیا۔ رہی سہی کسر احمد شاہ ابدالی نے پوری کر دی۔ دونوں نے یہاں رہنا گوارا نہیں کیا۔ خدا جانے جو دولت نادر شاہ نے لوٹی وہ کہاں گئی۔ بظاہر تو اس سے ایران کا کوئی بھلا نہ ہوا۔
نادرشاہ نے جو تباہی پھیری تھی اس سے متوحش ہو کر مرہٹہ پیشوا بالاجی کو مغلیہ سلطنت کے تحفظ کی فکر لاحق ہو گئی۔ اس نے چاہا کہ متحد ہو کر مغلیہ سلطنت کا دفاع کیا جائے تاکہ کسی بیرونی حملہ آور کو آیندہ لوٹ مار کا موقع نہ مل سکے۔ افسوس کہ یہ بیل منڈھے نہ چڑھیل
اے فلکِ نا انصاف از حسن منظر
ناشر: رائل بک کمپنی، کراچی
ص،216؛ پانچ سو روپیے