شعرائے بے وطن

یہ تحریر 2564 مرتبہ دیکھی گئی

ہر زبان کا، بشر طے کہ اس کے بولنے، سمجھنے، لکھنے اور پڑھنے والے کروڑوں نہ سہی لاکھوں تو ہوں، ایک لسانی، ادبی اور ثقافتی مرکز یا منطقہ ہوتا ہے۔ وہاں کے رہنے والے خود کو اس زبان کی تطہیر اور تفسیر کے امین یا وارث گردانتے ہیں۔ یہ حق کسی اور کو نہیں دینا چاہتے اور مصر رہتے ہیں کہ جو بھی اس زبان میں لکھا جائے، جہاں بھی لکھا جائے، وہ ان کے طے کردہ پیمانوں سے مطابقت رکھے ورنہ اس کی تحریر کو غیر معیاری، اجنبی یا روستائی سمجھ کر رد کر دیا جائے گا۔
کسی زمانے میں اس طرح کا رویہ دہلی اور لکھنؤ کے اردو ادبی حلقوں نے اپنا رکھا تھا۔ ان کا دعویٰ تھا کہ یہ ہم طے کریں گے کہ کیا لکھنا ہے اور کیسے لکھنا ہے اور جو ہمارا کہنا نہ مانے گا اس کے شعر و ادب پر ہم مہر تصدیق ثبت نہ کریں گے۔ یہ اکڑ تو کبھی کی خاک میں مل چکی اور اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ نسلی پاکیزگی کی طرح لسانی پاکیزگی ایک مہمل سوچ ہے جو حقائق سے تعلق نہیں رکھتی۔ جس طرح نسلوں میں ملاوٹ ہوتی رہتی ہے اسی طرح زبانیں بھی کبھی خالص نہیں رہتیں۔ ادھر ادھر سے نئے چشموں کا پانی آ کر ان سے ملتا رہتا ہے اور ان کے ذائقے کو کبھی باسی نہیں ہونے دیتا۔
یہی سلوک مدتوں اہل ایران نے ہندوستان کے فارسی شعرا کے ساتھ روا رکھا اور کہا “سبک ہندی” ایک الگ اسلوب ہے جس میں دل پذیری نہیں اور یہ کہ ہندوستانی شاعر پوچ گو ہیں۔ یہاں بھی زبان کی پاکیزگی کا تصور کار فرما ہے یعنی جیسے ہم فارسی کو سمجھتے اور برتتے ہیں اس طرح کوئی غیر ملکی یا آفاقی کیسے سمجھے اور برتے گا۔ زیادہ سے زیادہ ہماری نقالی ہی کہلائے گا۔ عیب جوئی میں انھوں نے تمام حدیں پار کر لیں۔ مثلاً میرزا جلال اسیر کے بارے میں والہ داغستانی لکھتے ہیں (ملحوظ رہے کہ اسیر ایرانی تھے اور کبھی ہندوستان نہیں آئے تھے): “چوں کہ اکثر بادہء ارغوانی میں مست رہتا تھا اور اسی حال میں شعر کہتا تھا اس کے بعض اشعار لباس معنی سے عاری رہ گئے ہیں۔ اس بنا پر اس کا دیوان ہندوستان میں نہایت مرغوب طبائع ہو گیا ہے۔ اس لیے کہ ہندوستان کے اکثر افراد بھنگ کی سرخوشی سے پیوستہ ہوتے ہیں اور وہ بے معنی جو مستی میں کہا گیا ہے ان کی سماعت اور ان کے اذہان سے مطابقتِ تام رکھتا ہے۔” یہ فضول گوئی کی انتہا ہے۔ داغستانی کے خیال میں ہندوستان کے اکثر افراد بھنگ پی کر بیٹھے رہتے ہیں اور لایعنی اشعار پر سر دُھنتے ہیں۔ جلال اسیر کے اشعار بے معنی نہیں ہیں اور اگر روایات کے اسیر اور ناک کی سیدھ میں چلنے والے نقاد اور قاری ہر شاعر سے یہ تقاضا کریں کہ اس کا کلام ایسا ہو کہ فوراً سمجھ میں آ جائے اور ذہن پر ذرا زور نہ ڈالنا پڑے تو ان کی ذہنی سطح پر رحم ہی کھایا جا سکتا ہے۔
ایک اور حقیقت ناقدین کے پیشِ نظر نہیں۔ اٹھارویں صدی کے نصف میں ہندوستان میں فارسی بولنے، سمجھنے، لکھنے پڑھنے والوں کی تعداد ایران سے سات گنا زیادہ تھی۔ اگر انگریز جان بوجھ کر فارسی کی بیخ کنی نہ کرتے تو فارسی شاید آج بھی بڑی اہمیت کی حامل ہوتی۔
ان بے اصل ہفوات کی تردید کے لیے افضال احمد سید نے، جو خود بھی اچھے شاعر ہیں، “بادہء دوشینہ” کے نام سے ایک انتخاب کیا ہے اور اس انتخاب میں انھیں شاعروں کے کلام سے واسطہ رکھا ہے جنھیں حقارت سے ٹھکرایا جاتا رہا ہے۔ افسوس کہ ان شعرا کو بے حیثیت سمجھنے والوں کی صف میں مرزا غالب اور شبلی نعمانی بھی شامل ہیں۔
انتخاب کا آغاز فغانی شیرازی سے ہوتا ہے جس کے کلام سے گویا “تازہ گوئی” کا آغاز ہوا۔ تازہ گوئی سے مراد استعارہ سازی، مضمون آفرینی اور نازک خیالی ہے۔ فغانی کے بعد میرزا جلال اسیر، کلیم کاشانی، غنی کاشمیری، غنیمت کنجاہی، شوکت بخاری، ناصر علی سرہندی، واقف لاہوری، مرزا محمد حسین قتیل اور شبلی نعمانی کا کلام ہے۔ پوری غزلیں شامل نہیں۔ چیدہ چیدہ اشعار کو جگہ دی گئی ہے۔ ہر شعر کے نیچے اس کا لفظی اردو ترجمہ ہے۔ بعض مشکل الفاظ کے معنی الگ سے درج ہیں۔
راقم کا ہمیشہ سے یہ خیال رہا ہے کہ فارسی شاعری پڑھنے کے خواہش مند آج بھی بڑی تعداد میں موجود ہیں۔ وہ ہچکچاہٹ اس لیے محسوس کرتے ہیں کہ فارسی میں رواں نہیں۔ اگر انھیں فارسی کلام مع لفظی ترجمہ دستیاب ہو جائے اور مشکلات کے حل کے لیے لغات سے یا استاد سے رجوع نہ کرنا پڑے تو وہ بخوشی فارسی شاعری پڑھنے کو تیار ہو جائیں گے۔ مولانا روم کی مثنوی اور حافظ کے دیوان کے ایسے دو زبانی ایڈیشن موجود ہیں اور ان سے ہزاروں قارئین نے فیض اٹھایا ہے۔
افضال احمد سید کا انتخاب بہت خوب ہے اوراسے قبولِ عام حاصل ہونا چاہیے۔ اسے پڑھ کر یہ مغالطہ ہمیشہ کے لیے دُور ہو جائے گا کہ ہندوستان کے فارسی شعرا کا کلام کم زور ہے یا قابلِ توجہ نہیں۔ یہ درست ہے کہ زبان کی بعض لطافتیں ایسی ہوتی ہیں جنھیں اہلِ زبان بسا اوقات بہتر طور پر برت سکتے ہیں۔ لیکن زبان کی خوبی کسی ایسے شعر کو عمدہ نہیں بنا سکتی جس میں کوئی پائمال مضمون باندھا گیا ہو۔
افضال احمد سید نے اپنے مختصر مقدمے میں بجا طور پر لکھا ہے کہ ہندوستان میں کی گئی فارسی شاعری کو اس نظر سے دیکھا گیا ہے جیسے وہ تصوف کے لیے مخصوص ہو اور یہ بات درست نہیں۔ تصوف کے مضامین کی گنجائش تو غزل میں نکل ہی آتی ہے۔ جو صاحبان اس انتخاب سے مستفید ہوں گے وہ آپ محسوس کریں گے کہ یہاں مجازی عشق کے بڑے باریک پہلو بھی بیان ہوئے ہیں۔ ویسے بھی سمجھ میں نہیں آتا کہ مجازی عشق کو کم تر کیوں گردانا جائے۔ یہ عالمِ وجود میں لایا گیا۔ ہم اس میں آباد ہیں اور آزمائشوں سے گزر رہے ہیں۔ یہیں پیغمبر تشریف لائے ہیں۔ یہیں کے رہنے والون کے لیے آسمانی صحیفے نازل ہوئے۔ یہ دنیا حیرت کدہ اور طلسم ہے۔ اس میں رہنے والے حیرتی ہیں۔ جو انسانوں سے عشق کرنا نہ جانے وہ کسی ماورائی منزل طے کرنے کے قابل کب ہوگا؛
مختصر یہ کہ یہ انتخاب کسی ارمغان سے کم نہیں۔ اس سے فیض یاب ہونے والے خسارے میں نہ رہیں گے۔
برائے گوش نکردم فسانہء دارم
ز گفت و گوئے دلِ بے دماغ نازک تر
(سنے نہ جانے کے لیے میرے پاس ایک افسانہ ہے
غمگین دل کی باتوں سے (بھی) زیادہ نازک)
میرزا جلال اسیر
بادہء دوشینہ: انتخاب و ترجمہ، افضال احمد سید
ناشر: عکس پبلی کیشنز، لاہور
صفحات، 288؛ چھ سو روپیے