(کلیاتِ جعفرزٹلّی)
مغل شہنشاہ، فرّخ سیر، نے 1713ء میں، شاید غیظ میں آکر، حکم دیا کہ جعفرزٹلّی نامی شاعر کو موت کی سزادی جائے۔ یقینی طور پر معلوم نہیں کہ جعفرکی گردن اُڑائی گئی یا گلا گھونٹ کر ماردیا گیا۔ فرخ سیر کے بارے میں مشہور تھا کہ اس نے کئی امرا کو تسمے سے گھونٹ کر مروادیا تھا۔
جعفر کی وجہ سے، بہرحال، فرّخ سیر کے اقتدار کو کوئی خطرہ درپیش نہ تھا۔ وہ محض شاعر تھا جس کی اصل وجہِ شہرت کج خلقی اور بدزبانی تھی، اس کی بہت سی نظمیں (اس سے کوئی غزل منسوب نہیں ہے) نہایت زہریلی اور ناشائستہ ہیں۔ لیکن جس شعر کی وجہ سے اسے موت کی سزا ملی وہ اس کے باقی کلام کی بہ نسبت قدرے شریفانہ معلوم ہوتا ہے۔ اس نے فرخ سیر کی تخت نشینی کا مذاق اُڑاتے ہوے صرف اتنا لکھا:
سکّہ زد بر گندم و موٹھ و مٹر
بادشاہِ تسمہ کش فرّخ سیر
یہ بیت شدہ شدہ شہنشاہ تک بھی پہنچی۔ اس کا مزاج اس وقت شاید بہت بگڑا ہوا ہوگا۔ شعر میں اشارہ اس طرف تھا کہ شاہی خزانہ خالی پڑا ہے۔ شہنشاہ نے شاید کہا ہو: ”اچھا، تو میں تسمہ کش ہوں! چلو یونہی سہی۔“
معمولی نوعیّت کے پھکّڑپن کی بعض اوقات بڑی بھاری قیمت چکانی پڑتی ہے۔ درحقیقت جعفر کو موت کی سزا اس وقت ملنی چاہیے تھی جب اس نے اورنگ زیب کے ایک بیٹے، شہزادہ کام بخش، کے بارے میں ایک نہایت ہی بیہودہ اور شرم ناک نظم لکھی تھی۔ جعفر غالباً کام بخش کی فوج میں کوئی معمولی افسر تھا۔ شہزادہ بظاہر منتقم مزاج نہ تھا۔ اس نے جعفرکو نوکری سے نکال دیا۔ فوجی اصطلاح میں اسے ذلّت آمیز برطرفی کا نام دیا جاسکتا ہے۔ بعد میں جعفر نے ایک نظم میں، جو خود ترحمی میں غوطے کھاتی نظر آتی ہے، پشیمان ہوکر اعتراف کیا کہ اس سے بڑی احمقانہ حرکت سرزد ہوئی تھی۔
زٹل کا لفظ فحش اور ہزلیہ کلام کے لیے زبان زد خلائق ہوگیا۔ بدنامی اتنی بڑھ چکی تھی کہ برطانوی دور میں اس کے دیوان کی اشاعت تقریباًناممکن تھی۔ چوری چھپے کسی نے چھاپ لیا ہوتو اور بات ہے۔ انگریزی راج کے تمام ہوجانے کے بعد بھی کئی عشروں تک کوئی اسے شائع کرنے کا خطرہ مول لینے کو تیار نہ ہوا۔ میرا خیال نہیں کہ اس کتاب کو پاکستان میں شائع کرنے کا کسی کو خیال آئے گا یا جرأت ہوگی۔ بھارت میں، بہرحال، اب معاشرے میں کہیں زیادہ کشادگی آچکی ہے (یاشاید منافقت کم ہوگئی ہے) اور وہاں سے جعفر کی نظم ونثر کا ایک عمدہ ایڈیشن چند سال پہلے شائع ہوا جسے رشید حسن خان نے مرتب کیا تھا۔ رشید حسن خاں کو بدلائل اُردو ادب کے بہترین اور انتہائی ذمّے دار محقّقین اور مرتّبین میں شمار کیا جاسکتا ہے۔
نثر پارے نہایت مضحک ہیں۔ ان میں سے طویل ترین شہنشاہی دربار کے روزنامچے کی پیروڈی ہیں۔ روز مرّہ پیش آنے والے واقعات فارسی میں لکھے گئے ہیں۔ ہر واقعے کے آخر میں کوئی برمحل اُردو ضرب المثل درج ہے۔ نثر کے باقی متفرقات بھی فارسی میں ہیں جن میں کہیں کہیں اُردو جملے ٹانک دیے گئے ہیں۔ جعفر کی اُردو اگرچہ آج سے تین سو برس پہلے کی ہے پھر بھی قابلِ ذکر حد تک بامحاورہ، رواں دواں اور ہنگامہ خیز ہے۔
بدیہی بات ہے کہ جو شاعر بے محابا منہ پھٹ، پھکّڑ اور کٹکھنا ہو وہ بدنام ہو کر رہے گا۔ جو بدنامی جعفر کے حصے میں آئی وہ کچھ ایسی بلاجواز نہیں۔ تاہم اس کے کلام پر اوّل تا آخر نظر ڈالی جائے تو احساس ہوتا ہے کہ اس میں ہجو، پھبتی، تیزابی طنز اور جنسی اعضا کے ذکر کے علاوہ بھی بہت کچھ ہے۔ دونظمیں، جن میں اورنگ زیب کی صفات کو سراہا گیا ہے، خاص طور پر قابلِ توجہ ہیں۔ ایسی نظمیں بھی ہیں جن میں جوانی کے خاتمے پر دکھ اور بڑھاپے کے آثار نمایاں ہونے پر غم کا اظہار کیا گیا ہے۔ کوئی نظم ایسے فرد کی روداد معلوم ہوتی ہے جس کے پاس نہ وسائل ہیں نہ روزگار۔ ان مختلف مزاج کی نظموں کو اکثر نظرانداز کردیا جاتا ہے۔ صرف اس کی غضب ناک فحاشی کی یادباقی رہ گئی ہے۔ شاعری میں بھی انداز وہی ہے جو نثر میں ہے یعنی نظمیں فارسی اور اُردو کا آمیزہ ہیں۔ لیکن چند نظمیں ایسی بھی ہیں جو تمام کی تمام یا بڑی حد تک اُردو میں ہیں۔
ہم یہ پوچھنے میں حق بجانب ہیں کہ اس کی تلخ مزاجی کا سبب کیا تھا؟ زٹل کا مطلب مہمل بات ہے لیکن یہاں اس سے وہ معنی مراد نہیں جو انگریزی ادب میں nonsense سے لیے جاتے ہیں۔ جعفر کو ایڈورڈ لیئر یا لوئیس کیرول نہ سمجھا جائے۔ ہو سکتا ہے کہ اس نے لفظ زٹل کو آڑ کے طور پر استعمال کیا ہو یعنی سامعین یا قارئین کو یہ بتانا مقصود ہو کہ جو کچھ کہا جا رہا ہے وہ تفنّن کے سوا کچھ نہیں۔ اس کے پسِ پردہ کوئی سنگین مذمّت نہیں۔ اس نے اورنگ زیب کی جو توصیف کی ہے اس کی کلیدی حیثیت ہو سکتی ہے۔ جعفر معاشرے کو مستحکم دیکھنے کا آرزومند تھا اور بلاشبہ اسے یہ احساس ہو گیا ہو گا کہ اورنگ زیب مغلیہ سلطنت کا آخری بڑا فرماں روا ہے۔ سلطنت کا شیرازہ بکھرنے کو تھا۔ جعفر کے لیے پرانے اچھے دن محض خواب و خیال بنتے جا رہے تھے۔ روزافزوں اخلاقی بے راہ روی اسے پریشان کیے رکھتی تھی۔ اپنے اردگرد نااہلی اور حرام خوری کا جو غلبہ نظر آتا تھا وہ صرف ایک ہی طرف اشارہ کرتا تھا۔ وہ یہ کہ اخلاقی زوال آس پاس منڈلا رہا ہے۔ شاید وہ خود بھی کوئی خوش مزاج آدمی نہ ہو اور اسے بڑا غصہ اس بات پر ہو گا کہ زیادہ مکّار اور کسی قسم کے اصولوں کو خاطر میں نہ لانے والے لوگوں نے اسے دھکیل کر ایک طرف کر دیا ہے۔ اس بارے میں یقین سے کچھ کہنا مشکل ہے۔ صرف اتنا فرض کیا جا سکتا ہے کہ گھٹیا لوگوں میں لوٹنے کھسوٹنے کے لیے ایک دوسرے سے آگے نکل جانے کی بازی لگی ہوئی تھی اور اس دوڑ میں جعفر بہت پیچھے رہ گیا تھا۔
اس کے کلام میں کسی گہری معنویت کی تلاش بے سود ہوگی۔ اس کے اقوال یا خیالات، جن میں کسی نوع کے اخلاقی رکھ رکھاؤ کو ملحوظ نہیں رکھا گیا، چونکاتے ضرور ہیں لیکن گالم گلوچ میں نیا کیا ہوسکتا ہے! تاہم یہ ممکن ہی نہیں کہ کوئی جعفر کو پڑھے اور اس کی لفظی چابک دستی، نئے سے نئے اور خندہ آور الفاظ گھڑنے کی مہارت اور صرف ونحوکی صحت کو بالائے طاق رکھ دینے کی جرأت پر عش عش نہ کر اُٹھے۔ جعفر کے کلام میں ہم ایک ایسی کھدبداتی لسانی کٹھالی سے دوچار ہوتے ہیں جسے طرح طرح کی آنچیں لگ رہی ہیں اور نئی نئی بناوٹیں ظہور میں آنا چاہتی ہیں۔ جعفر کی کلبیت اور ناشائستگی اپنی جگہ، لیکن اس کے ساتھ ساتھ اس نئے جان دار اور موج در موج ریلوں کی ٹکّر سہنے کے باوجود کبھی نہ ڈوبنے والے لسانی روزمرّہ پر پردہ نہیں ڈالا جاسکتا جو کسی نوزائیدہ مزاج کی طرح منظرِعام پر آدھمکنے پر تُلا بیٹھا ہے۔ کھیل کھیل میں ایک نئی زبان کے امکانات کو بڑھاوا دینے کا یہ کارنامہ ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔
ایک مدت تک جعفر کو اُردو ادب کی تاریخوں سے، ناپسندیدہ شخصیت قرار دے کر، باہر رکھا گیا۔ ایسے نام نہاد شریفانہ رویوں کو تجنا اب لازمی ہوچکا۔ ہمیں ادبی تاریخ میں جعفر کے لیے گنجائش پیدا کرنی ہوگی۔ اسے ایسے مقام پر سرفراز کرنا چاہیے جو اس کی بے مہار صلاحیت کے ساتھ انصاف کرسکے۔ آخر میں ایک مشورہ جو انتباہ کے قریب تر ہے۔ جعفر کا کلام شرافت اور متانت کے علم برداروں کے مطلب کا بالکل نہیں۔ اس سے پرہیز کرنا ان کے حق میں بہتر ہوگا۔
(پہلی اشاعت، ۲۷اگست، ۲۰۰۴ء، فرائیڈے ٹائمز) (میرا خیال غلط ثابت ہوا۔ اجمل کمال نے اپنے ادارے سے ”زٹل نامہ“ شائع کردیا ہے۔)









