خوب گزرے گی

یہ تحریر 1573 مرتبہ دیکھی گئی

ناول پڑھتے ہوئے یہ خواہش دل میں پیدا ہوئی کہ کاش یہ کسی اردو ادیب کے تخیل کا کارنامہ ہوتا۔ ناول کے مرکزی کردار، غالب اور منٹو، اردو ادب کی تاریخ کے بڑے نام ہیں۔ ایک کو فوت ہوئے ڈیڑھ سو برس اور دوسرے کو فوت ہوئے پینسٹھ سال ہو جائیں گے لیکن ان کی شہرت میں روزبروز اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ بھارت کی کوئی بڑی زبان ایسی نہیں جس میں منٹو کے افسانوں کا ترجمہ نہ ہوا ہو اور ترجمے کے بعد ان کے فن کو سراہا نہ گیا ہو۔ معلوم نہیں غالب کا ترجمہ کتنی زبانوں میں ہوا۔ کئی برس پہلے سننے میں آیا تھا کہ غالب کا تامل میں ترجمہ ہو چکا ہے۔ حیرت ہوتی ہے کہ تامل جاننے والوں نے غالب کو کس نظر سے پڑھا، سمجھا اور سراہا ہوگا۔

قصہ مختصر، غالب اور منٹو کے بارے میں یہ ناول کسی اردو ادیب نے نہیں لکھا بلکہ یہ ایک بنگالی ادیب، ربی سنکربال، کے زورِ قلم کا نتیجہ ہے۔ اس ناول کا انگریزی میں ترجمہ ہوا۔ انگریزی ترجمے سے معروف شاعر، انعام ندیم، نے اسے اردو میں منتقل کیا۔ یہ کہنا مشکل ہے کہ بنگلہ میں اصل متن کی کیا شان ہے۔ البتہ یہ دعویٰ کیا جا سکتا ہے کہ انگریزی ترجمے کے مقابلے میں اردو ترجمہ نہ صرف زیادہ جان دار ہے بلکہ موضوع کو مدِنظر رکھا جائے تو ترجمہ معلوم ہی نہیں ہوتا۔

ربی سنکربال 1962ء میں پیدا ہوئے۔ انھوں نے طویل عمر نہیں پائی۔ ابھی پچپن برس کے ہوئے تھے کہ فوت ہو گئے۔ تخلیقی  وفور کا یہ عالم تھا کہ اس عمرِ مختصر میں پندرہ ناول لکھ ڈالے۔ افسانوں کے پانچ مجموعے اس پر مستزاد ہیں۔ شاعری بھی کی، ادبی مضامین بھی لکھے۔ ان کا ایک ناول رومی کے بارے میں بھی ہے۔ انعام ندیم ربی سنکربال کے ایک اور ناول کا ترجمہ بھی کر رہے ہیں۔ عجب نہیں کہ یہ وہی ناول ہو جو مولانا روم کے متعلق ہے۔

ربی سنکربال کے تخیل کی زرخیزی اور قلم کی روانی دیکھ کر ڈی ایچ لارنس یاد آتا ہے جو صرف پینتالیس سال جیا۔ اس نے ناول اور ناولٹ بھی لکھے، افسانے، نظمیں، تنقیدی مضامین اور سفرنامے بھی لکھے۔ ترجمے بھی کیے، تصویریں بھی بنائیں۔ ڈھیروں ڈھیر خط ان کے علاوہ ہیں۔ اور یہ سب اس عالم میں کہ نہ صحت مندی نصیب ہوئی نہ تمول۔ جو زندگی ملی وہ جوں توں گزار دی۔ جو لکھا وہ ناشروں کی طرف سے سینسر ہو کر چھپا۔ اب اس کے فکشن کے اصل متن کیمبرج یونیورسٹی شائع کر رہی ہے۔

ناول کو اگرچہ “دوزخ نامہ” کا نام دیا گیا ہے لیکن یہ سمجھنا شاید صحیح ہوگا کہ ہمارے یہ دونوں بزرگانِ ادب دراصل برزخ میں ہیں جہاں انھیں باری باری ایک دوسرے کو اپنے دکھڑے سنانے کا موقع مل گیا ہے۔ غالب کے بارے میں منٹو کو بہت کچھ معلوم ہوگا۔ غالب نے منٹو کی باتوں کو حیرت سے سنا ہوگا۔

دونوں میں بہت سی قدر ہائے مشترک ہیں۔ غالب آگرے میں پیدا ہوئے اور دہلی چلے آئے۔  ایک دفعہ بہ امرِ مجبوری لکھنؤ، بنارس اور کلکتے کا سفر کیا جو ان دنوں برطانوی ایسٹ انڈیا کمپنی کا دارالحکومت تھا۔ جس غرض سے یہ طویل سفر کیا تھا وہ پوری نہ ہوئی۔دہلی واپس آ گئے۔ شراب کے شائق تھے۔ زیرِ بار رہتے تھے۔ آمدنی بڑھانے کے لیے گھر پر جوا کرانے لگے۔ پکڑے گئے اور چند ماہ جیل کی ہوا کھائی۔ 1857 کی معرکہ آرائی دیکھی۔ شکست کے بعد دہلی کی بربادی کے چشم دید گواہ بنے۔ زندگی میں کبھی ویسا آرام نصیب نہ ہوا جس کے متمنی تھے۔

منٹو امرتسر میں پیدا ہوئے اور لاہور چلے آئے۔ پھر دہلی گئے۔ آخر بمبئی کا رخ کیا جہاں فلمی دنیا میں پانؤ جمانے کی کوشش کی۔ سوچا ہوگا کہ بمبئی میں زندگی اچھی گزر جائے گی۔ اتنے میں ملک تقسیم ہو گیا۔ پنجاب میں بڑی خوں ریزی ہوئی۔ امرتسر جانا ممکن نہ رہا تھا کہ وہ بھارت کے حصے میں آیا تھا۔ بمبئی سے دل اچاٹ ہوا تو لاہور چلے آئے۔ غالب کی طرح شراب کے شائق تھے۔ اگرچہ اپنے ادبی کیریر کے دوران میں انھوں نے کمال کے افسانے لکھے مگر کبھی آرام کی زندگی بسر نہ کر سکے۔ فحش نگار سمجھے گئے اور کئی افسانوں کی وجہ سے مقدمات کا سامنا کرنا پڑا۔

غالب اور منٹو کی زندگیوں کو آمنے سامنے رکھ کر دیکھا جائے تو بہت سے پہلو ایک جیسے نظر آئیں گے۔ لیکن یہ دونوں ایسے آئینے ہیں جن میں عکس ذرا چھوٹے بڑے یا ٹیڑھے میڑھے ہو کر سامنے آتے ہیں اور دیکھنے والے کو شبہہ رہتا ہے کہ عکس تو میرا ہی ہے لیکن اس میں کچھ اجنبیت در آئی ہے۔

دونوں کو ملک میں لہولہان خلفشار سے واسطہ پڑا۔ منٹو خوش قسمت تھے کہ فسادات کی زد میں نہ آئے۔ لیکن اس بے جا اور بے محابا قتل و غارت نے انھیں دل کی گہرائیوں تک جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ غالب بیچ بھنور میں تھے۔ انگریزوں کے خلاف لڑنے والوں کو شکست ہوئی تو دہلی میں انگریزی فوج آ دھمکی اور اس نے قتل و غارت کا بازار گرم کر دیا۔ غالب کی خوش قسمتی دیکھیے کہ اس دار و گیر کے دور میں بھی سلامت رہے۔ گورے فوجیوں نے جہاں ہزاروں کو موت کے گھاٹ اتار دیا تو ان  سے کیا بعید تھا کہ غالب کو بھی مار ڈالتے۔ ان کی نظر میں غالب تھے بھی کیا۔ محض ایک ہندوستانی شریف زادے یا باغنی مسلمان۔ “شہرِ دہلی کا ذرہ ذرہء خاک / تشنہء خوں ہے ہر مسلماں کا۔”

غالب اور منٹو میں اشتراک کا ایک پہلو اور بھی تھا۔ دونوں غضب کے انا پرست تھے۔ غالب اپنے سامنے کسی کو شاعر نہیں گردانتے تھے۔ اپنی فارسی شاعری پر اتنا غرور تھا کہ ہندوستان کے فارسی شعرا اور فارسی عالموں کو ہیچ پوچ سمجھتے تھے اور ان سے چومکھی لڑتے رہے۔ انھیں اپنے فارسی کلام پر لاکھ ناز سہی لیکن سچ یہ ہے کہ ان کا نام اردو شاعری کی وجہ سے زندہ ہے۔

منٹو بھی سمجھتے تھے کہ افسانہ نگاری کے میدان میں ان کا کوئی ثانی نہیں۔ ان کا خیال غلط ثابت نہیں ہوا۔ جو شہرت بعد از مرگ ان کے حصے میں آئی اس کے پیشِ نظر کسی اور اردو افسانہ نگار کو اس بلند مقام پر فائز نہیں کیا جا سکتا۔

کوئی کہے گا کہ دونوں انا کے مارے ہوئے تھے۔ لیکن اناپرست تو لاکھوں گزرے ہیں اور آج بھی ہیں جو ہمچومن دیگرے نیست کے دعوے دار ہیں۔ خالی انا پرستی سے کام نہیں بنتا۔ انا کے علاوہ تخیل، صلاحیت، مافی الضمیر کو لفظوں میں مہارت سے ادا کرنے کی قدرت، فنی تقاضوں سے گہری آشنائی اور ہم دردی یا ہم دلی بھی درکار ہے۔ ان تمام عناصر کی یک جائی کے بغیر اناپرستی ہمیشہ کھوکھلی کی کھوکھلی رہتی ہے۔ منٹو اور غالب کی ذات میں یہ خوبیاں یکجا ہو گئی ہیں۔

انعام ندیم کا ترجمہ نہایت عمدہ ہے۔ یہ کہا جا سکتا ہے کہ بنگلہ میں لکھے جانے اور انگریزی سے ترجمہ ہونے کے باوجود اسے اردو ناول سمجھ لیا جائے تو مضائقہ نہیں۔ آخر “گئودان” بھی تو پریم چند نے اردو میں نہیں لکھا تھا اور اس کی وجہ یہ ہے کہ انھیں اسے اردو کا روپ دینے کا موقع ہی نہیں ملا۔ ان کی وفات کے بعد ناول کو ہندی سے اردو میں ترجمہ کیا گیا۔

ربی سنکربال نے غالب اور منٹو کو آج کی دنیا کے زاویہء نظر سے دیکھا ہے اور بعض مقامات پر تخیل سے یا یوں کہیے کہ مصنف کے حقِ واقعہ بافی سے کام لیا ہے۔ لیکن یہ زاویہء نظر ایسا ہے جو ہمارے ادب کی دو عظمتوں کی محبوبیت میں اضافہ ہی کرتا ہے۔

دوزخ نامہ از ربی سنکر بال

انگریزی سے ترجمہ: انعام ندیم

ناشر: عکس پبلی کیشنز، لاہور

صفحات: 521؛ آٹھ سو روپے