جانی پہچانی دنیا

یہ تحریر 1376 مرتبہ دیکھی گئی

بھیشم ساہنی (1915ء-2003ء) اور بلراج ساہنی راولپنڈی کے رہنے والے تھے۔ 1947ء میں ہندوستان کی تقسیم کے بعد انھیں بھارت جانا پڑا۔ وہاں بلراج ساہنی نے فلمی شخصیت کے طور پر شہرت حاصل کی۔ اداکاری اور ہدایت کاری کی صلاحیت بھیشم ساہنی میں بھی تھی لیکن کسی وجہ سے فلمی دنیا میں کامیاب نہ ہو سکے۔ کامیابی میں اتفاق کا دخل بہت ہوتا ہے۔ اہلیت کوئی خاص کام نہیں آتی۔ بھارتی فلموں سے دلچسپی نہ ہونے کی وجہ سے میرے لیے یہ کہنا مشکل ہے کہ دونوں بھائیوں میں کس میں صلاحیت زیادہ تھی۔ جب دیکھا کہ فلمی دنیا میں قدم جمانے مشکل ہیں تو معلمی کا پیشہ اختیار کیا۔ کئی سال روس میں بھی گزارے۔ واپس آ کر دوبارہ اپنے لیے معلمی کو پسند کیا۔ کمیونسٹ پارٹی کے رکن بھی تھے۔
صلاحیت کی بہرحال کمی نہ تھی۔ فلم میں نام نہ کما سکے تو ادب کے میدان میں اپنے جوہر دکھائے۔ ہندی میں کئی ناول لکھے جن میں “تمس” بجا طور پر مشہور ہے۔ سو سے زیادہ افسانے بھی ہیں۔ آپ بیتی بھی قلم بند کی۔ “امرتسر آ گیا ہے” کے عنوان کے تحت ان کے تئیس افسانے یکجا کر دیے گئے ہیں۔ اسی طرح اردو قارئین کو ان کے افسانوی ہنر سے محظوظ ہونے کا موقع مل گیا ہے۔
جب یہ پتا چلتا ہے کہ وہ کمیونسٹ پارٹی کے رکن بھی تھے تو ان کی ادبی ترجیحات کا اندازہ لگانا مشکل نہیں رہتا۔ حقیقت پسندی ان کے افسانوں کا مضبوط عنصر ہے۔ ممکن ہے انھوں نے تجرباتی فکشن بھی لکھا ہو۔ وہ زیرِ نظر انتخاب میں شامل نہیں۔ حقیقت پسندی کا یہ تقاضا ہوتا ہے کہ مصنف انھیں معاملات کے بارے میں لکھے جو اس کے مشاہدے میں آتے رہے ہوں۔ چناں چہ ان افسانوں کا پس منظر شہری ہے اور ان میں متوسط یا غریب شہری طبقوں کے مسائل پر نظر رکھی گئی ہے اور استحصالی پہلوؤں کا جائزہ بھی لیا ہے۔ استحصال دانستہ بھی ہے اور بعض اوقات نادانستہ بھی یعنی استحصال کرنے والے کو یہ شعور ہی نہیں ہوتا کہ وہ کوئی غلط کام کر رہا ہے۔ وہ اپنے قول و فعل کو زندگی کے مسلمات میں شمار کرتا ہے۔
“پالی” ایک بچے کی کہانی ہے جو 1947 میں اپنے والدین سے بچھڑ گیا تھا۔ اسے ایک مسلمان جوڑے نے اپنا بیٹا بنا لیا۔ بعد میں اس کے باپ کو اس کا سراغ مل گیا اور وہ اسے بھارت لے جانے میں کامیاب ہو گیا۔ دونوں ملکوں کی حکومتوں کو عام آدمیوں کے دکھ سکھ سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ وہ بیشتر کام مشینی انداز میں انجام دیتی ہیں۔ بچہ جو مسلمان کے طور پر پلا بڑھا تھا، بھارت لے جا کر ہندو بنا لیا گیا۔ بچے کے اصل ماں باپ اور اسے پالنے والے مسلمان جوڑے کے دلوں میں انسانیت کی لَو روشن ہے۔ لیکن یہ بات افسانے میں موجود مولوی یا ہندو چودھری کے بارے میں نہیں کہی جا سکتی۔ دونوں سمجھتے ہیں کہ من مانے فیصلے کرنے کا حق بس انھیں کو حاصل ہے۔
“امر تسر آ گیا ہے” اس کہاوت کی افسانوی شکل ہے کہ اپنی گلی میں کتا بھی شیر ہوتا ہے۔ ایک ٹرین تقسیم کے دنوں میں یا تقسیم سے ذرا پہلے وزیرآباد اور لاہور سے ہو کر امرتسر جا رہی ہے۔ ٹرین کے ایک ڈبے میں پٹھان بھی ہیں اور سکھ اور ہندو بھی۔ ایک چھریرے بدن کا بابو بھی ہے جس کا پٹھان مذاق اڑاتے رہتے ہیں۔ بابو سہما سہما رہتا ہے مگر جونہی ٹرین امرتسر پہنچتی ہے وہ شیر ہو جاتا ہے اور سٹیشن پر اتر کر لوہے کی سلاخ لے کر پلٹتا ہے۔ اس اثنا میں پٹھان کسی اور ڈبے میں جا بیٹھے ہیں۔ بابو پوری طرح اپنے ہوش میں نہیں اور کسی کو مارنا چاہتا ہے۔ آخر وہ ایک مسلمان کو مار ڈالتا ہے جو ٹرین پر سوار ہونے کی کوشش کر رہا تھا۔ بعد میں اس کی سمجھ میں نہیں آتا کہ اس نے کیا حرکت کی ہے اور کیوں کی ہے۔
لیکن یہ دونوں افسانے بھیشم ساہنی کے فن کی پوری طرح نمائندگی نہیں کرتے۔ “جھومر” اور “آوازیں” کہیں بہتر ہیں۔ شہری متوسط طبقے کی الجھنوں کی یہ اچھی تصویر کشی ہیں۔ اجتماعی زندگی سے نتھی کشمکشوں سے نمٹنے کا ہنر بھیشم ساہنی کو خوب آتا ہے۔ “جھومر” میں دکھایا گیا ہے کہ سیاست داں کس طرح اپنے عام عقیدت مندوں کی سادہ لوحی سے فائدہ اٹھاتے ہیں اور آزادی کے بعد اقتدار پر فائز ہوتے ہی ان عقیدت مندوں کو بھول جاتے ہیں اور نئی نسل کے نوجوانوں کو پرانے سیاسی کارکن مضحکہ خیز معلوم ہوتے ہیں۔ افسانے کا اختتام ذرا تصنع آمیز ہے اور افسانے کی کلیت کو مجروح کرتا ہے۔ اس کے مقابلے میں “آوازیں” زیادہ گتھا ہوا افسانہ ہے اور عمدگی سے تکمیل تک پہنچایا گیا ہے۔
“وانگ چو” ایک چینی کی کہانی ہے جو بھارت آ کر بدھ مت کے قدیم متون کے بارے میں تحقیق میں مصروف ہے۔ اچانک جوشامت آئی تو کچھ مدت کے لیے واپس چین چلا گیا جہاں کمیونسٹ حکام نے اسے شک کی نظر سے دیکھا۔ بھارت لوٹنا مشکل ہو گیا۔ بڑے جتن کرکے دو سال بعد واپس آیا تو اس وقت چین اور بھارت کے تعلقات میں بگاڑ آ چکا تھا اور بالآخر نوبت جنگ کی آ پہنچی۔ نتیجہ یہ کہ وانگ چو کو بھارت میں بھی شک کی نظر سے دیکھا جانے لگا اور پولیس نے اس سیدھے سادے، بے ضرر، آدمی کا جینا حرام کر دیا۔
ان افسانوں کا ترجمہ انعام ندیم نے کیا ہے۔ وہ اچھے شاعر ہیں اور اب انھوں نے اپنے آپ کو بطور مترجم بھی منوا لیا ہے۔ وہ بنگالی ناول نگار، ربی سنکر بال، کے ناول “دوزخ نامہ” کا ترجمہ کر چکے ہیں جسے بالعموم سراہا گیا ہے۔ بھیشم ساہنی کے افسانوں کا ترجمہ بھی انھوں نے بڑے سلیقے سے کیا ہے۔
امرتسر آ گیا ہے از بھیشم ساہنی: ترجمہ، انعام ندیم
ناشر : عکس پبلی کیشنز، لاہور
صفحات: 312؛ چھ سو روپیے