تعارف: حکایات اسپنسر

یہ تحریر 1777 مرتبہ دیکھی گئی

انگریزی ادب کے ابتدائی دور میں شیکسپیئر اور چوسر کے بعد جو نام فوراً ذہن میں آتا ہے وہ ایڈمنڈسپنسر کا ہے۔ اس کی طویل نظم “پری ملکہ” کو، جو اتفاق سے نامکمل رہ گئی، انگریزی شاعری میں ممتاز مقام حاصل ہے۔


سپنسر نے اپنے زمانے کے اعتبار سے اعلیٰ تعلیم حاصل کی تھی۔ وہ ملکی نظام کا حامی تھا۔ ملکہ ہو یا شاہی دربار، انتظامیہ ہو یا کلیسا، سب اس کی نظر میں قابلِ احترام تھے۔ شاہی انتظامیہ سے منسلک رہنے کی بنا پر اسے آئرلینڈ میں ایک قلعہ بھی عطا کیا گیا۔ اس نے “پری ملکہ” کو بارہ حصوں میں مکمل کرنے کا ڈول ڈالا تھا۔ چھ حصے تو چھپ گئے۔ باقی چھ لکھے نہ جا سکے۔ ایک خیال یہ ہے کہ بقیہ حصے بھی وہ تقریباً لکھ چکا تھا۔ اس اثنا میں آئرش باغیوں نے، جو انگریزی تسلط کے خلاف تھے، اس قلعے پر دھاوا بول دیا جو سپنسر کی ملکیت قرار پایا تھا۔ سپنسر کو جان بچانے کی غرض سے اچانک فرار ہونا پڑا۔ مکمل یا نامکمل مسودہ وہیں قلعے میں رہ گیا۔
“پری ملکہ” الیگری یا تمثیل ہے اور اس کا گہرا تعلق اپنے عہد کی شخصیات، واقعات اور تصورات سے ہے۔ آج پانچ سو سال بعد ہم اس الیگری سے پوری طرح لطف اندوز نہیں ہو سکتے۔ پہلے حصے میں جو نائٹ اونا کے والدین کو بچانے نکلا ہے اس کا آر چی ماگونامی جادوگر سے واسط پڑتا ہے۔ نائٹ ایک سطح پر پروٹیسٹینٹ فرقے کی نمائندگی کرتا ہے جو روم یعنی پاپائیت کی پھیلائی ہوئی افترا انگریزی سے نبرد آزما ہے۔ اس طرح کی علامتی کیفیات نظم میں شامل دوسری کہانیوں میں بھی تلاش کی جا سکتی ہیں۔ اگر یہ طویل نظم خالی الیگری کے دائرے میں محصور رہتی تو اسے دوام حاصل نہ ہوتا۔ لیکن سپنسر بڑا شاعر ہے۔ اسے بیان پر قدرت حاصل ہے، نظم کے آہنگ سے پُرکاری عیاں ہے، شاعرانہ حسن میں شاہانہ تجمل ہے اور جو قصے پڑھنے کو ملتے ہیں، انھیں الیگری کے تکلفات پر غور کیے بغیر بھی، دل چسپی سے پڑھا جا سکتا ہے۔
ٹی ایس ایلیٹ نے کہا ہے کہ چند ایک عالموں اور محققوں کے سوا اب شاذ ہی کوئی “پری ملکہ” کو اول تا آخر پڑھتا ہو۔ یہ خیال درست ہے کیوں کہ زبان کی قدامت رکاوٹ بن کر رہتی ہے۔ خود چوسر سے بھی، جس کی شعری صلاحیت سپنسر سے بڑھ کر ہے، فی زمانہ بیشتر لوگ جدید ترجمے کی صورت ہی میں لطف اندوز ہوتے ہیں۔
اسی دقت کو مدِنظر رکھ کر صوفیہ میک لی ہوز نے “پری ملکہ” کی چند کہانیوں کو اختصار سے نثر میں قلم بند کر دیا ہے۔ یہ تلخیص طالب علموں اور عام قارئین کے شوق کودوچند کرنے کے لیے ہے اور اسے پڑھ کر پوری نظم کی معنی آفرینی اور دل فریبی کا نقشہ سامنے آ جاتا ہے۔ نثر سلیس ہے اور طیبہ تحسین اسے اردو میں اتنی ہی سلاست سے منتقل کرنے میں کامیاب رہی ہے۔