تری فرقت کے صدمے

یہ تحریر 970 مرتبہ دیکھی گئی

ستر برس یا اس سے بھی کچھ پہلے کسی رسالے میں قدوس صہبائی صاحب کا نام نظر سے گزرا تھا؛ یا شاید افسانوی مجموعہ دیکھنے کو ملا تھا۔ اس وقت جو پڑھا تھا، اپنی سمجھ کے مطابق، بھلا لگا تھا۔ دھندلی، آدھی بھولی بسری یاد۔ جب سمجھ کر پڑھنے لکھنے کا موقع ملا تو ادبی دنیا قدوس صہبائی کو بھلا چکی تھی، بعینہ جیسے مدھو سو دن کو بھلا دیا گیا۔
اب جو ان کی آپ بیتی بلکہ آپ بیتی کا ایک حصہ پڑھنے کو ملا تو حیرت ہوئی۔ کیسے کیسے لکھنے والے تھے جن کو ہم فراموش کر چکے ہیں۔ یہ تو شاہین صہبائی صاحب کی سعادت مندی ہے کہ انھوں نے ایک گم شدہ جواہر ریزے کو ڈھونڈ نکالا اور چھپوا دیا۔ آپ بیتی کا مسودہ سچ مچ گم ہو چکا تھا اور تقریباً چالیس سال تک کسی کو پتا نہ تھا کہ کہاں ہے۔ موجود بھی ہے یا ضائع ہو چکا۔ کچھ داد رؤف کلاسرا صاحب کو بھی ملنی چاہیے (جو میرے ایک کرم فرما، محمد اقبال دیوان، کے دوستوں میں ہیں) کہ انھوں نے کتاب کی اشاعت کی ذمے داری اٹھائی اور مسودے کو تمیز دار ناشر تک پہنچا دیا۔
قدوس صہبائی نے “میری رانی میری کہانی” میں جو کچھ بیان کیا ہے اسے آپ بیتی قرار دیا ہے۔ ویسے تو آپ بیتی اور فکشن کے درمیان جو لکیر حدِ فاصل کا کام کرتی ہے وہ عام طور پر زیادہ واضح نہیں ہوتی اور کہیں کہیں تو مٹ بھی جاتی ہے۔ چناں چہ آپ بیتی پر فکشن کا اور فکشن پر آپ بیتی کا گمان گزرتا ہے۔ لیکن کتاب کا انجام ایسا ہے جس میں بناوٹ نظر نہیں آتی ۔ پھر جب مصنف خود تاکید سے اسے آپ بیتی کا نام دے رہا ہو تو شک کی گنجائش کہاں رہتی ہے۔ بے شک ڈی ایچ لارنس کا قول ہے کہ “کہانی پر بھروسا کرو، کہانی کہنے والے پر مت کرو” لیکن “میری رانی میری کہانی” کے سیاق و سباق میں اس قول کو وزنی قرار نہیں دیا جا سکتا۔
قدوس صہبائی (1910 ۔ 1985) فکشن نگار اور صحافی تھے۔ کل وقتی صحافی سیاست اور سیاست دانوں سے لاتعلق نہیں رہ سکتا۔ کہا جا سکتا ہے کہ اگر وہ اپنی صحافیانہ زندگی کے حوالے سے آپ بیتی لکھتے تو وہ کم دل چسپ نہ ہوتی۔ سیاسی اعتبار سے ان کا جھکاؤ بائیں بازو کی طرف تھا۔ لکھتے ہیں: “میں کارل مارکس کے فلسفہء معاشیات کا پیروکار ہوں اور کمیونزم کو ساری دنیا کی نجات کا ذریعہ سمجھتا ہوں لیکن کمیونسٹ پارٹی کا ممبر نہیں ہوں۔ کئی دفعہ جیل جا چکا ہوں۔” معلوم نہیں اگر وہ دس پندرہ سال اور زندہ رہتے تو کمیونزم کو کس نظر سے دیکھتے۔ یہ بات البتہ درست ہے کہ دنیا کی تاریخ کو معاشیاتی معاملات کو سامنے رکھے بغیر سمجھا نہیں جا سکتا۔
قدوس صاحب کا خاندان فوجی تھا اور قندھار سے ہجرت کرکے ہندوستان آیا تھا۔ اہلِ خاندان یہی توقع رکھتے تھے کہ وہ بھی فوجی ملازمت پسند کریں گے۔ لیکن انھیں نہ فوجی نوکری سے رغبت تھی اور نہ وہ اس سخت مذہبی تعلیم کو پسند کرتے تھے جو ان پ جبراً مسلط کی گئی تھی۔ بالآخر خاندان کے لوگوں کو ان کی آزادانہ روش سے سمجھوتا کیے ہی بنی۔
وہ 1936ء میں ایک اخبار میں کام کر رہے تھے کہ دل لبھانے والی ایک پیش کش ان کے سامنے آئی۔ رشتے کے ایک بزرگ نے انھیں لکھا کہ اگر وہ ان کی صاحب زادی سے شادی کرنے پر تیار ہوں تو انھیں دو ہزار ایکڑ زمین، ایک گانؤ کی مستاجری، دیہات میں دو ایک عمدہ بنگلے اور ڈھیر سارا روپیہ دیں گے۔ قدوس صاحب بلاتامل مان گئے اور اخبار سے مستعفی ہو کر بھوپال جا پہنچے۔ نسبت پختہ ہو گئی اور شادی یقینی معلوم ہونے لگی۔
مجھے نہیں معلوم کہ ہماری زندگیوں کا احوال کون کہاں اور کیوں ترتیب دیتا ہے لیکن اس میں جس طرح کے اتار چڑھاؤ آتے رہتے ہیں ان کی پیش گوئی آسان نہیں۔ بھوپال پہنچ کر قدوس صاحب ٹائیفائڈ میں مبتلا ہو گئے۔ بیماری سے نجات ملی تو ان کے اقربا نے سوچا کہ مکمل صحت یابی کی خاطر انھیں کچھ مدت کے لیے کسی پُرفضا مقام پر بھیج دیا جائے۔ چناں چہ چھتیس گڑھ کی ایک ریاست اس مقصد کے لیے چنی گئی جہاں قدوس صاحب کی ہمشیرہ اور ان کے شوہر، بطور دیوان، پہلے ہی سے موجود تھے۔
وہاں پہنچنے کی دیر تھی کہ ان کی زندگی ایسے انقلاب سے دوچار ہو گئی جس کے بارے میں انھوں نے پہلے خواب میں بھی نہ سوچا ہوگا۔ اس پہاڑی ریاست میں ہر طرف گھنے جنگل، چشمے، آبشار اور سرسبز وادیاں تھیں۔ شکار کی کمی نہ تھی۔ زیادہ آبادی تو آدی باسیوں کی تھی جنھیں برصغیر کے قدیم ترین باشندے سمجھنا چاہیے اور جو شاید چالیس پچاس ہزار سال پہلے افریقہ سے چل کر ہندوستان پہنچے تھے اور یہاں سے آگے بڑھ کر آسٹریلیا میں جا بسے تھے۔
ریاست میں دو مہارانیاں تھیں۔ دوسری اور نسبتاً کم سن مہارانی کو نوجوان مہاراجا نے خود پسند کیا تھا اور بیاہ کے لایا تھا۔ محبت پر مبنی اس شادی کا انجام الم ناک ہوا۔ شادی کے سولہ سترہ مہینے بعد مہاراجا موٹر چلاتے ہوئے ایک حادثے میں ہلاک ہو گیا۔ پرانا زمانہ ہوتا تو مہارانیوں کو، خوشی سے یا ناخوشی سے، ستی ہونا پڑتا۔ انگریزی حکومت میں یہ ممکن نہ رہا تھا۔ کوئی عام عورت ستی ہوتی تو شاید اس کا نوٹس نہ لیا جاتا۔ لیکن کسی ریاست کی مہارانیوں کو شوہر کے ساتھ جل مرنے کی اجازت کیسے مل سکتی تھی!
بائیس تئیس سالہ مہارانی، وجے روپ، کی زندگی بے معنی سی ہو کر رہ گئی۔ بیوہ ہونے کے بعد وہ ہمیشہ، سفید لباس پہن کر، اپنی کار میں تنہا گھومتی رہتی۔ آدی باسی قبائل کے لوگ اسے کوئی آسمانی ہستی سمجھتے۔
زمانے میں عجیب و غریب اتفاقات ہوتے رہتے ہیں۔ ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ مہارانی اور قدوس صاحب کو ایک دوسرے سے عشق ہو گیا۔ قدوس صاحب کا مہارانی پر فریفتہ ہونا سمجھ میں آتا ہے کہ وہ نوجوان اور بلا کی حسین تھی۔ یہ واضح نہیں ہوتا کہ مہارانی کس وجہ سے قدوس صاحب پر مر مٹی۔ شاید مردانہ وجاہت کے سبب یا کسی اور دلکشی نے کام دکھایا۔ عام خیال ہے کہ عاشق صرف حسینوں پر ہوا جا سکتا ہے۔ یہ خیال غلط ہے۔ انسانی نفسیات اتنی پیچ در پیچ اور تہ دار ہے کہ بسا اوقات عاشق اور معشوق کو بھی ٹھیک طرح علم نہیں ہوتا کہ کون سا مقناطیسی عنصر انھیں ایک دوسرے کی طرف کھینچ رہا ہے۔ اس میں حسن سے زیادہ سحر انگیز کشش کا دخل ہے اور اس کشش کو لفظوں میں سمیٹا نہیں جا سکتا۔
معاشقے کی اصلیت اور شدت اپنی جگہ، بڑا مسئلہ یہ تھا کہ شادی کیسے کی جائے۔ ایک طرف مہارانی، لاکھوں میں کھیلنے والی، ناز و نعم میں پلی ہوئی۔ مستزاد یہ کہ راجپوت اور ہندو۔ قدوس صاحب کے پاس کچھ بھی نہ تھا۔ زیادہ سے زیادہ کسی اخبار کے مدیر یا نائب مدیر بن سکتے تھے۔ اس پر طرہ یہ کہ مسلمان۔ سول میرج ایک ممکنہ حل تھا لیکن اس کے نتیجے میں دونوں کی زندگی خطرے میں پڑ سکتی تھی۔ یہ بے جوڑ سا رشتہ تھا۔ لیکن محبت میں مبتلا ہونے والوں کو ان باتوں کا ہوش کب رہتا ہے۔
مزید نباہ ممکن نہ تھا۔ قدوس پہلے بھوپال چلے آئے اور وہاں سے کلکتہ جا کر ایک روزنامے میں ملازم ہو گئے۔ کچھ عرصے تک وجے روپ کو پتا نہ چل سکا کہ قدوس ہیں کہاں۔ جب پتا چل گیا تو اپنے ماتا پتا کے ساتھ ان سے ملنے آئی۔ جو مسئلہ درپیش تھا اس کا حل کسی کے پاس نہ تھا۔ وجے روپ کے والد چاہتے تھے کہ وجے اور قدوس دوست بن کر رہیں۔ دوستی اور والہانہ عشق میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ دوستی کی بعض جہات عشق سے میل نہیں کھاتیں۔ دوسری طرف عشق کی دیوانگی اور مستی ایک ماورائی کیفیت ہے۔ قدوس صاحب نے اپنا وہ کباڑخانے جیسا کمرا بھی دکھایا جہاں وہ مقیم تھے اور جسے دیکھ کر وجے روپ سہم گئی۔ ایک رات، قدوس صاحب، جو پہلے ہی بہت پی چکے تھے، اپنے کمرے میں جا کر، تقریباً غفلت کے عالم میں، پوری بوتل وسکی کی، سوڈا ملائے بغیر، جھٹ پٹ پی گئے اور مرتے مرتے بچے۔
یہ ایسی محبت کی روداد ہے جس کا کوئی راحت بخش خاتمہ نہیں۔ وجے روپ الگ ہو گئی۔ قدوس صاحب نے ایک سادہ سی لڑکی سے شادی کر لی۔ وجے اور اس کے والدین یورپ کی سیر کو نکلے اور دوسری عالمی جنگ کی وجہ سے وہیں پھنس کر رہ گئے۔
جب 1946ء میں وجے بمبئی آ کر قدوس صاحب اور ان کی بیوی سے ملی تو وہ طوفانی شورش، جس نے دونوں پریمیوں کو بے بسی اور موت کے کنارے تک پہنچا دیا تھا، فرو ہو چکی تھی اور ایک ایسی صبح کا سا سکون تھا جو صرف محرومیوں اور ناکامیوں کی تاب لانے کےبعد نصیب ہوتا ہے۔ قدوس پاکستان چلے آئے۔ بعد میں وجے روپ پر کیا گزری، اس کا ذکر نہیں۔ شاید اس سے خود مصنف کو بھی آگاہی نہ ہو۔
یہ سپاٹ سا خلاصہ بیانیے کی خوبیوں کی طرف صرف توجہ دلا سکتا ہے۔ اس تقریباً ناقابل یقین کہانی سے محظوظ ہونے کے لیے کتاب سے رجوع کرنا ضروری ہے۔ نثر شستہ ہے۔ ایک دو مقامات پر مکالمے کچھ زیادہ ادبی معلوم ہوئے۔ سچ یہ ہے کہ یہ آپ بیتی بہت سے ناولوں سے زیادہ خواندنی اور حیرت ناک دکھائی دی۔ حقیقت سے قریب ہونے کی بنا پر اس کا رنگ چوکھا ہو گیا ہے۔ طباعت نہایت عمدہ ہے۔ امید رکھنی چاہیے کہ شاہین صہبائی اپنے والد کے افسانوں کو بھی یکجا کرکے چھپوا دیں گے۔
میری رانی میری کہانی از قدوس صہبائی
ناشر: بک کارنر، جہلم
صفحات: 294؛ آٹھ سو روپیے