اک کونے میں کچھ بے خوابیاں

یہ تحریر 2631 مرتبہ دیکھی گئی

ناصر کاظمی، احمد مشتاق اور منیر نیازی اس اعتبار سے خوش نصیب ہیں کہ وہ ہمارے تنقیدی حافظے کے مرکز میں ثوابت کی مانند روشن ہیں اور بعض دوسرے اچھے شاعروں کی طرح حاشیوں کی طرف دھکیلے نہیں جا چکے۔ احتشام علی نے جو اردو کے استاد ہیں، احمد مشتاق کی شعری دنیا پر ناقدانہ نظر ڈالنے کی جو کوشش کی ہے وہ قابلِ قدر ہے۔ اس لیے بھی قابلِ قدر ہے کہ بقول مصنف اسے کسی درسی یا تحقیقی ضرورت کے لیے نہیں لکھا گیا بلکہ یہ احمد مشتاق کے شعری کمالات سے کسی داخلی سطح پر ہم آہنگی کا ثمر ہے۔ یہ اور بات ہے کہ بالواسطہ طور پر بھی احتشام علی کی یہ مساعی مقبول ٹھیرے۔
جلا وطن یا بے وطنی کا ذکر، بالخصوص شعری مظروفات کی معنویت کو اجاگر کرنے کے لیے، اب پیش پا افتادہ سی بات ہوگئی ہے۔ یہ مہاجر تیں اور بے دخلیاں چوں کہ ظاہری سطح پر بہت نمایاں ہوتی ہیں اس وجہ سے لامحالہ نظر انھیں پرجا کر ٹکتی ہے۔ یہ کہنا تو صحیح نہ ہوگا کہ زندگی کے یہ کم و بیش اذیت ناک مرحلے شاعر کو جھنجھوڑتے نہ ہوں، نہتا نہ کردیتے ہوں لیکن اس کی شعری ذات کی گہرائیوں میں اس طرح جذب ہوجاتے ہیں کہ جب کلام میں ان کی بازیافت کی نوبت آتی ہے تو وہ اپنی پہچان بدل چکے ہوتے ہیں۔
سچ یہ ہے کہ آدمی اپنی ہی ذات میں جلاوطن ہوتا رہتا ہے۔ ماضی، تمام کا تمام، ایک کھوئی ہوئی سرزمین ہے۔ وہاں سے ہمیں بے دخل زمین، سماجی یا سیاسی حالات نہیں کرتے بلکہ یہ ستم وقت ڈھاتا ہے جو ہمارے اختیار سے قطعی طور پر باہر ہے، جو ہمیں نظر نہیں آتا ، گو ہم اسے گھڑیوں کے ذریعے سے، جو خود موت اور کال کی علامتیں ہیں، دیکھنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں، جو غیر مرئی ہے، جسے چھوا نہیں جا سکتا، جو بے نیازانہ حد تک سفاک ہے، جس سے پوری طرح محبت کی جاسکتی ہے نہ نفرت۔ ہاں، گزرے دنوں کو یاد رکھا جاسکتا ہے۔ یہ یاد کہ جو تھا نہیں ہے، سب سے بڑا المیہ ہے۔ معشوق مجازی ہے نہ حقیقی۔ معشوق وقت ہے۔ اسے شاعر طرح طرح کے پیرہن پہنا کر دیکھتا رہتا ہے۔ تسلی کبھی نہیں ہوتی۔ جو لباس آج اس پر جچتا ہے کل اوپرا معلوم ہونے لگتا ہے۔ وقت کا خندہ زیرلب ہماری مساعی پر مشفقانہ طنز ہے اور ہمیں اس کے ساتھ جینا ہے، زندگی بسر کرنی تو ہے۔
ستم یہ کہ ماضی جتنا پرانا ہوتا جاتا ہے یہ دور افتادگی اس کے حزن اور ناقابل یقین حسن کو دوبالا کرتی رہتی ہے کہ دوری ایک فریب آمیز کیفیت ہے۔ ہم کسی فرد یا شے یا مکانیت کو حافظے میں اس طرح نہیں دیکھتے جیسے وہ کوئی فوٹو ہو۔ فوٹو کی حد بندیاں ہیں جو اس کو حسین بناسکتی ہیں۔ یقین نہ ہو تو کسی جانے پہچانے منظر کو چھوٹے آئینے میں دیکھیں۔ حافظے میں جو بھی ہے اس میں پس منظر کی عمیق گہرائی کے ساتھ پیش منظر کا دائیں بائیں پھیلاﺅ شامل ہوتا ہے۔ ماضی کا ہر جمگھٹا حال کی کرنوں اور مستقبل کے ہالوں سے آراستہ دکھائی دیتا ہے۔
احمد مشتاق کی غزل کی دنیا، جہاں تک میری سمجھ میں آیا ہے، ماضی سے مسلسل، لمحہ بہ لمحہ، جلاوطنی کی روداد ہے۔ ہم سے ہر وقت کچھ نہ کچھ چھنتا رہتا ہے اور ملتا بھی رہتا ہے۔ ملتا چوں کہ بے طلب ہے اس لیے ہم اس کی اتنی قدر نہیں کرتے ۔ جو چھین لیا جاتا ہے اس کا دکھ بہت ہوتا ہے۔ شاعری کا نچوڑ یہی ہے کہ ہم سے کیا چھن گیا، کس نے چھین لیا۔ محرومی کی ان کیفیات کو، جمالیاتی حس کا رنگ دے کر، احمد مشتاق نے، جس سہولت سے، بیان کردیا ہے وہی اس کا کمال اور کلام کا استحکام ہے۔ اس سہولت تک پہنچنے کے لیے دل خون کرنا پڑتا ہے۔ کم لفظوں میں زیادہ سمجھانا مشکل کام ہے۔ غزل میں ویسے بھی دراز نفسی کی گنجائش نہیں۔ دو مصرعوں کی بساط پاس ہوتی ہے۔ غزل نظم یا مثنوی یا قصیدے کی طرح عرضی نہیں، سکوت کی آغوش میں جاتی خود کلامی ہے۔
احمد مشتاق کی غزل میں اس بات کے اشارے بھی ملتے ہیں کہ جو دنیا ہمیں ورثے میں ملی تھی اور صاف شفاف تھی اس کا حلیہ ہم نے بگاڑ کر رکھ دیا ہے۔ ہمیں نہ صاف ہوا میسر ہے نہ صاف پانی۔ وہ دن دور نہیں جب ہم دنیا کو اس قابل نہ رہنے دیں گے کہ انسان اس میں بس سکیں۔ لیکن یہ اور کہانی ہے۔
حیرت ہوتی ہے جب انتظار حسین لکھتے ہیں: “یہی تو اس شاعر کے ساتھ دقت ہے۔ پوری بات نہیں بتاتا۔ اشارے کرکے چپ ہوجاتا ہے۔” پرانی مثل ہے کہ عقل مند کو اشارہ کافی ہے۔ احمد مشتاق نے زندگی بھر کی واردات مصرع مصرع کرکے بتا تو دی ہے اور وہی بتایا ہے جو غیر کے دل کو چھو سکتا ہے۔ اس طرح کا تقاضا شمس الرحمن فاروقی صاحب نے ایک سادہ سا شعر سامنے رکھ کر کیا ہے کہ بات کھلتی نہیں، بے یقینی سی ہے۔ یہ شکایتیں سن کر غزل کہاں جائے!
کسی امریکی شاعر سے، جس کا نام یاد نہیں آرہا، ایک مداح نے پوچھا کہ بتایئے تو سہی، اس نظم میں آپ نے کیا کہنا چاہا ہے۔ شاعر نے جواب دیا کہ اگر میں یہ بات نثر میں ادا کرسکتا تو نظم لکھتا ہی کیوں۔
احتشام علی کی کتاب پڑھی جانی چاہیے۔ اگر وہ ہمت کریں تو کم سے کم دس بارہ ایسی کتابیں ان شاعروں پر بھی لکھ ڈالیں جن سے کم اعتنا کیا گیا ہے۔
دروازوں کے باہر چاندنی از ڈاکٹر احتشام علی
ناشر: عکس پبلی کیشنز، لاہور
صفحات:۱۷۶ ؛ چھ سو روپیے