اشاروں اشاروں میں

یہ تحریر 1328 مرتبہ دیکھی گئی

ناصر عباس نیر کی نثر میں ایک عجیب روکھی سی وحدت نظر آتی ہے جو شاید بعض بے پروائی سے پڑھنے والوں کو لطف سے خالی معلوم ہو لیکن نثر کا یہی غیرآراستہ انداز ان کے افسانوں کو قوت بخشتا ہے۔ یہ انداز انھوں نے اپنی تنقید سے اخذ کیا ہے جس میں اس طرح کی رنگینی، جذباتیت اور بے محابا مدح سرائی کا گزر نہیں جس کا بہت سے نقاد اور فلیپ نگار سہارا لیتے ہیں۔ اپنی تنقید میں ناصر عباس نیر لفاظی نہیں برتتے بلکہ کفایت کو بروئے کار لاتے ہیں تاکہ جو کہنا مقصود ہو وہ لفظوں کا انبار لگائے بغیر سلاست سے ادا ہو جائے۔ ان کے افسانوں کے چار مجموعے سامنے آ چکے ہیں۔ اردو فکشن میں جس طرح کی نثر کا بالعموم چلن ہے اس کے مقابلے میں ناصر عباس نیر کا بیانیہ بہت مختلف معلوم ہوتا ہے۔ نہ گھن گرج نہ شوخی نہ بے تکے استعارے۔ ایک سادہ سا پیرایہ ہے جو افسانے کے مرکزی خیال سے ذرا بھی ادھر ادھر نہیں ہوتا۔ یہ پہلو اہم ہے اور ایک نامانوس سی سادگی سے افسانے میں کشش پیدا کر دیتا ہے۔ آپ کسی پیراگراف کو نثر کا عمدہ نمونہ کہہ کر الگ سے پیش نہیں کر سکتے۔ یہ سادگی افسانوں میں خون کی گردش کے مانند ہے۔ کسی حصے کو الگ کرکے دیکھنے سے افسانے کی جامعیت میں فرق آ جاتا ہے۔ یہ اور بات ہے کہ جو کچھ بیان کیا گیا ہے وہ ہمارے گرد و پیش کے سماجی یا سیاسی پس منظر میں کتنا بامعنی یا برمحل ہے۔ اس کا فیصلہ بالآخر خود وقت کر دے گا۔


چند ایک افسانوں پر نظر ڈال لی جائے۔ کوئی کلام نہیں کہ “ہر آدمی ہر کام کر سکتا ہے” سب سے ہیبت ناک یا ہول ناک ہے، جس بے لاگ، لاتعلق انداز میں اسے بیان کیا گیا ہے اس نے ہول ناکی کو دو چند کر دیا ہے۔ یہ ہول ناک اس لیے ہے کہ، ایک طرح سے، ان معاملات کی عکاسی کرتا ہے جو چپکے چپکے کہیں نہ کہیں جاری رہتے ہیں۔ جس خفیہ تنظیم کا یہاں ذکر ہے اس جیسی اب دنیا میں کئی بلاشبہ مصروف عمل ہیں۔ یہ خاصی بے رحمانہ ہیں اور وہی لوگ ان کے لیے کام کرنے پر آمادہ ہو جاتے ہیں جنھیں کوئی اور معقول ملازمت نہیں ملتی یا جو سمجھتے ہیں کہ ایسی تنظیم کا حصہ بن کر اپنے سادیت پسند رجحانات سے لطف اندوز ہونے کا موقع مل جائے گا یا وہ ملازم ہونے کے بعد بے رحمانہ رویہ اختیار کرنے کے سوا کچھ نہیں کر سکتے۔ بلیک واٹر اسی طرح کی تنظیم تھی اور اس جیسی اور بھی ہوں گی۔ مشہور مصنف، نیومی کلائن، نے اپنی کتاب The Shock Doctrine میں لکھا ہے کہ برازیل میں ملٹی نیشنل کمپنیوں نے اپنے خفیہ قاتل دستے بنا رکھے تھے اور ان کے ذمے یہ کام تھا کہ جو کوئی ان کمپنیوں کی استحصالی یا ضرر رساں پالیسیوں کے خلاف کچھ زیادہ احتجاج کرے اسے مار ڈالا جائے۔ ان کمپنیوں کا کچھ نہ بگڑتا تھا کہ وہ پولیس، ججوں اور سیاست دانوں کو خرید سکتی تھیں۔ سو یہ اکیسویں صدی کی تازہ ترین فن کاری ہے۔
ہلاک کرتے ہیں ہم اب بڑے سلیقے سے
نہیں ہیں خون کے دھبے ہمارے دامن پہ
“تمھارا قانون ۔۔۔” میں دکھایا گیا ہے کہ ان ملکوں میں، جہاں کرپٹ اور آمرانہ حکومتیں آتی جاتی رہتی ہیں، وہاں قانون اور انصاف کی بالادستی کی خاطر جدوجہد کرنے والوں پر کیا گزرتی ہے۔ یہ حکومتیں اپنی لاقانونیت کے لیے کسی کے سامنے جواب دہ نہیں ہوتیں۔ نئی حکومتیں پرانی حکومتوں کی مدتِ اختیار میں شہید ہونے والوں کے نام چھپاتی تو نہیں لیکن ان کی ایک حد سے زیادہ تشہیر بھی نہیں کرتیں۔ غلط مثال قائم کرنے والوں کو سرکاری سطح پر کون سراہتا ہے۔
“خوابِ سگاں” کی فضا خوں چکاں نہیں۔ اس میں راوی کا، جو واحد متکلم کے طور پر موجود ہے، ایک ایسے شخص سے واسطہ پڑتا ہے جس کی کلبیت اور انانیت بات چیت سے ظاہر ہے۔ یہ تاثر بھی ملتا ہے کہ وہ کسی ملک کے لیے جاسوسی کرتا ہے۔ راوی کے ذمے یہ کام لگایا جاتا ہے کہ وہ چند اعلیٰ نسل کے کتوں کے ساتھ دن رات رہے اور اس قربت کے نتیجے میں جو خواب دکھائی دیں انھیں قلم بند کرتا جائے۔ گویا کتوں کے نزدیک سونے سے اس کے خواب بڑی معنویت کے حامل ہو جائیں گے۔ راوی ان خوابوں کو قلم بند کرتا جاتا ہے۔ سو صفحے ہو جاتے ہیں تو وہ اس سے لے لیے جاتے ہیں۔ وہ اپنی تحریر کی نقل مانگتا ہے جو اسے نہیں دی جاتی۔ افسانے کے ماحول میں انوکھا پن رچا ہوا ہے۔ وہ باتیں کھٹکتی ہیں۔ راوی ان خوابوں کی ایک نقل خفیہ طور پر اپنے پاس بھی رکھ سکتا تھا۔ شاید خیال نہ آیا ہو کہ اس کی تحریر ضبط کر لی جائے گی۔ اس کے علاوہ حیرت اس بات پر ہے کہ جن صاحب کے ایما پر یہ کام انجام دیا گیا انھیں یہ بھی پتا نہیں کہ کتے بھی خواب دیکھتے ہیں۔ سائنسی طور پر ثابت ہے کہ کتوں اور بلیوں کو خواب نظر آتے ہیں۔ وہ خواب میں کیا دیکھتے ہیں، یہ معلوم نہیں۔ شاید پندرہ بیس سال بعد انسانوں اور کتوں بلیوں کے دماغ میں کوئی ریکارڈنگ چپ لگا دی جائے۔ اس وقت ہمیں پتا چل جائے گا کہ کتے کیا خواب دیکھتے ہیں۔
“غارت گر” میں کچھ الجھن ہوتی ہے کہ راوی کون ہے لیکن آخر میں یہ جملہ “کیا مجھے یہ بتانے کی ضرورت ہے کہ میں وقت ہوں” معاملے کو سلجھا دیتا ہے۔ “کتابوں کا قبرستان” آدھا طنز ہے اور آدھا سیاہ مزاح۔ دکھائی یہی دیتا ہے کہ یہ بات کا، غلط یا صحیح، جواز فراہم کرنا ممکن ہے۔
حیرت ہے کہ ناصر عباس نیر نے اب تک ناول کیوں نہیں لکھا۔
ایک زمانہ ختم ہوا ہے از ناصر عباس نیر
ناشر: سنگِ میل پبلی کیشنز، لاہور
صفحات: 151؛ نو سو روپیے