ادھ کھلی کھڑکیاں

یہ تحریر 1725 مرتبہ دیکھی گئی

نثری نظم کے بارے میں عام قاری کے دل میں جو میل آیا ہوا ہے وہ ابھی پوری طرح دور نہیں ہوا۔ بہت سے لوگ سمجھتے ہیں کہ نثری نظم لکھنا بہت آسان ہے۔ ان کا یہ خیال ایک پہلو سے درست ہے۔ بری نثری نظم لکھنا واقعی بہت آسان ہے۔ تخلیقی عمل کی باریکیوں سے ناواقف ہونے کی بنا پر جس بات کو وہ سہل تصور کرتے ہیں وہ درحقیقت بہت دشوار ہے۔ مقررہ ہیئتوں میں لکھنا ایسا ہی ہے جیسے کسی جانی پہچانی جگہ میں رہنا۔ پتا ہوتا ہے کہ دروازے کہاں ہیں، کھڑکیاں کہاں ہیں، کمرے کون کون سے ہیں، بالائی منزل پر جانےیا تہ خانے میں اترنے کی سیڑھیاں کتنی ہیں وغیرہ وغیرہ۔ رہنے میں سہولت ہوتی ہے۔ اس کے برعکس نثری نظم کی بے پایاں اور بے مہار آزادی لکھنے والے کی مددگار بننے کے بجائے اسے ایسی جگہ پہنچا دیتی ہے جہاں کوئی حدیں نہیں، کوئی طے شدہ مقامات نہیں، جہاں آدمی آسانی سے کھو سکتا ہے، بھٹک سکتا ہے۔ اس لامحدود آزادی میں اپنے مطلب کی بات تلاش کرنا کوئی کھیل نہیں۔

ایک اعتراض یہ بھی ہے کہ نثری نظمیں وہ حضرات لکھتے ہیں جو موزوں طبع نہیں ہوتے۔ بعض استثنائی صورتوں یہ الزام حقیقت پر مبنی ہو سکتا ہے، لیکن ہمیشہ نہیں۔ مثلاً تنویر انجم نے اپنے سات شعری مجموعوں میں سے نظمیں چن کر جو انتخاب “نئی زبان کے حروف” کے عنوان سے شائع کیا ہے اس میں معتدبہ تعداد نثری نظموں کی ہے۔ چند ایک نظمیں وزن میں ہیں۔ تنویر انجم پر موزوں طبع نہ ہونے کا الزام چست نہیں کیا جاسکتا کیوں کہ ان کی غزلوں کا مجموعہ بھی شائع ہو چکا ہے۔

کبھی سمجھ میں نہیں آیا کہ شاعری بلکہ کسی بھی فن میں مرد اور عورت کی تخصیص کیوں روا رکھی جاتی ہے۔ انسانیت کا شرف دونوں کو حاصل ہے۔ دماغی ساخت میں بھی کوئی فرق نہیں۔ رہا مزاج یا طبیعت کا اختلاف تو وہ مردوں میں بھی اسی تناسب سے موجود ہوتا ہے جتنا عورتوں میں۔ جس دنیا میں مرد بستے ہیں اس میں عورتیں آباد ہیں۔ شاعر تو شاعر ہی ہوتا ہے، مذکر یا مونث نہیں۔

تنویر انجم کا پہلا شعری مجموعہ 1982ء میں شائع ہوا تھا۔ اس لحاظ سے، تخلیقی سطح پر، دنیا کو سمجھتے اور لفظوں کی مدد سے دیدہ و نادیدہ کو سمجھاتے ہوئے انھیں چالیس برس سے کچھ زیادہ ہو چکے ہیں۔ پہلے مجموعے کو پڑھتے ہوئے ناپختگی کا احساس نہیں ہوتا۔ ابتدائی نظموں میں جا بجا رومانیت کی تلچھٹ ہے۔ آگے چل کر اس رومانیت کو تنویر انجم نے جھاڑ کر الگ کر دیا ہے اور لفظیات یا مضامین میں کسی طرح کی رو رعایت نہیں برتی۔ ان کا یہ شعور پختہ سے پختہ تر ہوتا گیا ہے کہ بات کس طرح کہنی ہے اور کتنی کہنی ہے اور کتنی ان کہی چھوڑ دینی ہے۔ نظموں میں یہی کھانچے، یہی خالی جگہیں، ابہام اور لطف پیدا کرتی ہیں اور قاری کو موقع ملتا ہے کہ جو کہا گیا اور جو نہیں کہا گیا اسے اپنے ذہن میں نئے سرے سے ترتیب دے سکے، کسی نئی تعبیر سے ہم آہنگ کر سکے۔ وہ نظم ہی کیا جو کم از کم دو تین تہوں میں خود کو عیاں یا نہاں نہ رکھتی ہو۔

تنویر انجم کی نظموں کو ایسے افسانوں کی طرح بھی پڑھا جا سکتا ہے جن میں افسانوی جوہر کو الگ کرکے پیش کیا گیا ہو، ایک طرح کا نچوڑ جس میں رس موجود ہو اور پھوک ندارد۔ اس کا عمدہ نمونہ “انٹرویو” میں دیکھا جا سکتا ہے جہاں بربادی کے متوازی ایک کڑی حقیقت بھی ہے۔ نظم ایسے جملے پر ختم ہوتی ہے جسے بے حسی یا طنز سمجھنے میں ہرج نہیں۔ بہرحال، یہ نظمیں افسانوں کا تاثر تو دے سکتی ہیں البتہ اپنے در و بست کے اعتبار سے نظموں کے سوا کچھ معلوم نہیں ہوتیں۔  ان کے علاوہ بہت سی نظموں کو سوانح کے طور پر بھی پڑھا جا سکتا ہے لیکن یہ سوانح ایسے ہیں جنھیں پازیٹیو کے بجائے نیگٹیو کی مدد سے دیکھا گیا ہے اور تاریکیوں میں مدغم روشنیوں کے سہارے سمجھنے کی کوشش کرنی پڑتی ہے۔ ان باتوں کی جھلک “فاطمہ گل، تمھاری کہانی” یا “نازنین صادق اپنے نام کی لاج رکھیں” میں نظر آ سکتی ہے۔

یہ تسلیم کرنے میں مضائقہ نہیں کہ جو “میں کہتی ہوں” (جس میں ڈرم کی سی تھاپ ہے) اور “تتلیوں کے پروں کی پھڑپھڑاہٹ” جیسی نظمیں کہنے پر قادر ہو یا “جب بارش نہیں ہوتی” میں آخر کے تین لفظوں کی مدد سے نظم کی کایا پلٹ سکتی ہو، فن پر اس کی گرفت شبہے سے بالاتر ہے۔ البتہ غزل گوئی سے کنارہ کشی اختیار کرکے تنویر انجم نے اپنی طبع کے اس پہلو کے ساتھ زیادتی کی ہے جسے ایک بہت پرانی اور پختہ شعری روایت کی پشت پناہی حاصل تھی اور ہے اور رہے گی۔ کھڑکیاں پوری کھول دیں۔

نئی زبان کے حروف اور تنویر انجم

ناشر: آج کی کتابیں، کراچی

صفحات، 424؛ سات سو روپیے