۱) شہر نا پُرساں۰۰۰۰۰
کہا اک داستاں گو نے
کہانی اب سنو اُس شہر نا پُرساں کی،
جس میں تم بھی رہتے تھے،
وہاں پر ہم بھی رہتے تھے-
مگر پھر کیا ہوا،
تم کھو گئے،
مٹی میں مل کےسو گئے سبھی اب اُس کہانی کو ترستے ہیں اگرچہ اس میں بستے ہیں-
——————۔۲) سمندر کا نوحہ۰۰۰۰۰
سمندر مجھ سے کہتا ہے
کہ اب تم بادباں کھولو،
ذرا کچھ منہ سے بولو—-کہ کیسے کیسے چہرےپھول جیسے، کچھ جواں،کچھ سال
خوردہ،
اب کہاں ہیں وہ؟؟؟
سمندر مجھ سے کہتا ہے
کہ اب تم بادباں کھولو،
ذرا کچھ منہ سے بولو—۔ کہ اب تو نا خدا بھی
خوف کی اک بے اماں،
بے رحم چادر پر—
یوں لمبی تان کر سوتا ہے،
جیسے چار جانب امن ہو اور آشتی ہو،کچھ نہ ہو-———————۔
۳) میرے خواب۰۰۰۰۰
میرے خواب بھی کیسے خواب ہیں کہ یہی تو مثل گلاب ہیں، وہ گلاب جن کی مہک سے ہے
مرے تن بدن کی زمیں ہری،
وہ گلاب جن کے فراق میں،
میری چشم نم ہے ہری بھری،
کبھی موسم ہجر کٹے میرا کبھی باغ دل ہو ہرا بھرا کبھی آرزو کے چمن کھلیں،
کہیں آفتاب چمک اُٹھیں،
یہی آرزویہی جستجو-
————————۴) گنجل سوچاں۰۰۰۰۰
گنجل سوچاں،ہنجو،ہاسے،
چارے پاسے-
دہشت، خوف،ہراس دی وستی،
جند اے سستی-
دھرتی رووے،امبر ہسے،
امبررووے،میں وی روواں۔
میرےاتھرُو جا جا کر دے،
پُھل جیہے کھڑدے-
————————