منیر نیازی کی کتاب ‘ دشمنوں کے درمیان شام ‘ کا تعارف

یہ تحریر 59 مرتبہ دیکھی گئی

منیر نیازی کی کتاب ‘ دشمنوں کے درمیان شام ‘ کا تعارف
محمد سلیم الرحمٰن کے قلم سے
۔۔۔

ایسا لگتا ہے کہ ہم سب ایک مہیب جھٹپٹے کی دھند،خاموشی اور اجاڑ پن میں گھرے ہوئے اپنا راستہ پہچاننے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ہمیں پتہ نہیں کہ مشرق کدھر ہے اور مغرب کدھر، اور یہ بھی نہیں معلوم کہ یہ جھٹپٹا صبح کا ہے یا شام کا، تھوڑی دیر بعد نیا دن ہمارے لیے نئے عزائم اور صعوبتیں لے کر آئے گا یا رات کسی عذاب کی طرح ہم پر نازل ہو گی۔ سیاہ رات جس میں ہم شاید رستوں کے ساتھ ساتھ اپنے وجود کی سرحدوں کو بھی بھول جائیں گے ‘ کون جانے؟
تذبذب کی اس فضا میں ہر منزل، گردو پیش کا سارا منظر، غرضیکہ زمین اور آسمان نادیدہ اور نامعلوم خطروں سے بھرے ہوئے معلوم ہوتے ہیں۔ دوسرے آدمیوں کی دھند میں مٹی مٹی شکلیں اتنی پراسرار اور غیر حقیقی ہیں کہ ان سے خوف آتا ہے اور دشمنی کی بو۔
” آج کل ہر آدمی دوسرے کو ایک خطرہ سمجھتا ہے۔ یہ ایک عجیب سی بات ہے لیکن آدمی جتنا زیادہ ذہنی اور مثالیت پسند ہو گا اتنا ہی زیادہ دوسرے کی جسمانی موجودگی کوایک ایسا خطرہ سمجھے گا جو گویا اس کی جان کے درپے ہے۔“
بات یہ کسی گیانی نے کہی ہے، نام اس کا لینے سے کیا حاصل! یہی اس صدی کی کڑوی سچائی ہے اور یہی پچھڑے ہوئے تمدن کی سرد مہر خونی شام ہے۔
یہ جھٹپٹا شام ہی کا ہو گا ،جب آنکھ رکھنے والا ایک شاعر یہ کہتا ہے اور فضا میں پھیلی ہوئی دشمنی کی بو اور تنہائی کی سائیں سائیں کو اپنی نظموں کے ذریعے مستقل وجود بخشا جاتا ہے تو اسے جھٹلانا مشکل ہے۔ بے شک ہم پٹے ہوئے مہرے ہیں۔ شام کو دم گھونٹنے والے،چائے خانوں کی میزوں پر بیٹھے ہوئے دوست نما دشمن، بسوں میں ایک دوسرے کی جگہ چھیننے پر تلے ہوئے مسافر‘ دفتر سے لوٹ کر بیوی بچوں پر برسنے والے محرر، غلک سے چمٹے ہوئے حریص توندل بیوپاری اور شام کی لال کرنوں یا شام کے فوراً بعد نیل پیلی نیون روشنیوں میں لتھڑے ہوئے بے کیف چہرے، بابل اور نینوا کی شام! غداری اور دشمنی کی شام!
لیکن ہمارے دلوں کو ڈھارس دینے اور خود اپنے ذہن کو اجالنے کی خاطر تضاد کو نمایاں کرنے کے لیے منیرنیازی ہمیں اس صبح کی جھلکیاں بھی دکھاتا رہتا ہے۔ جو ہمارا بچپن تھی، جب رنگ زندہ، ہوا تازہ اور آنکھیں روشن تھیں، اور اس خوبصورتی اور صداقت کی جھلکیاں بھی جو بڑھتی ہوئی کمینگی اور بے حسی کے باوجود اب بھی کہیں کہیں دلوں میں، چہروں پر، باتوں میں اور فطرت کے مظاہر میں باقی ہیں۔
میرا یقین ہے کہ جہاں جہاں بھی انسان کے قدم پہنچے ہیں، وہ اپنی خوشبو اور آہٹ پیچھے چھوڑ گیا ہے۔ یہی وہ ورثہ ہے جو فطرت کو انسان سے ملا ہے، ایک اداس کرنے والی خوشبو جو کھنڈروں، پرانی جگہوں، بے چراغ موضعوں اور بھلائی ہوئی گزرگاہوں سے پھوٹتی رہتی ہے، دل کی دھڑکن تیز کرنے والی آہٹ جو اجاڑ بیابان میں آدمی کو پیچھے مڑ کر دیکھنے پر اکساتی ہے۔ اس خوشبو اور آہٹ میں عبرتوں اور ہجرتوں کا فسانہ ہے، اسی لیے اداسی بھی ۔اور منیر ان کا کھوجی ہے، ان کے سراغ میں چلتا ہوا وہ جھٹپٹے سے آگے نکل گیا ہے، وہ ماضی کی راہ سے مستقبل کو پہنچا ہے اور ہوا اس کی راہ نما ہے ،کیونکہ ہوا ہی خوشبوؤں اور سروں کو پھیلاتی اور مٹاتی ہے اور ہوا میں نوحے اور اور زخم خوردگی کی ایسی کیفیت ہے جو تمام انسانی دکھوں سے ماورا معلوم ہوتی ہے، اور وہ ہوا جو اندھیری شام کو چلے اور وہ جو آدھی رات کو خوشبو کے ہار پروکر ”کسی راز کی طرح پھوٹ پھوٹ کر روتی ہے“۔۔۔ ان سے زیادہ دل دکھانے والا کون ہے؟
منیر نیازی کی شاعری کے تین بڑے سمبل ہیں ہوا ، شام،اور موت !
دشمن آدمی کے اندر بھی ہوتے ہیں، باہر بھی۔ شام دل میں بھی ہوتی ہے اور آسمان پر بھی۔ اندھیرا جھک آنے پر روشنی کی موت کا سوگ ہوا یا شاعر کے سوا کون منا سکتا ہے۔ کہتے ہیں عالم بالا میں ایک بہت پھیلاو¿ والا گھنا درخت ہے جس پر ہمیشہ ایک ہی وقت میں خزاں اور بہار چھائی رہتی ہے جب تیز ہوا کے جھونکے آتے ہیں تو کچھ پیلی مرجھائی پتیاں ٹوٹ کر گر جاتی ہیں اور اسی طرح نیچے دنیا میں جہاں فنا کو قیام ہے، فانی انسان مرتے رہتے ہیں یوں مجھے تو ہوا کی آواز میں موت کی ندا سنائی دیتی ہے جو عالم بالا میں پکار پکار کر ہمارے ناموں کے پتے گراتی رہتی ہے”ٹوٹا پتا ڈال سے لے گئی پون اڑا۔“میں سمجھتا ہوں کہ تمام جدائیوں اور محبتوں اور شکستوں میں ہوا کا ہاتھ ہے۔ ہوا کا سدا بول بالا رہے۔
منیر مسافر بھی تو ہے شام کا مسافر۔ کہتے ہیں سفر وسیلۂ ظفر ہے ۔ہو گا منیر کے ہاں تو سفر وسیلۂ خبر ہے۔ نامعلوم کی خبر۔ دراصل یہ سفر ہے ہی ایسی چیز، ایک دفعہ آدمی چل کھڑا ہو تو پھر لوٹتا نہیں۔ تم ان سیمنٹ کے خولوں سے بڑے بڑے جھڑوس شہروں سے باہر نکلو تاکہ خود کو پا سکو۔ خواہشات اور علائق کے ”دشت بلا“ کو جس نے پار کر لیا سمجھو نروان پا لیا۔ صبح ہو یا شام ،منیر کے ہاں سفر کا ذکر چھڑا رہتا ہے اور مصرعے پرندوں کی طرح پر تولتے رہتے ہیں۔ منیرشمالی یورپ کے دیوتا Odin کی طرح ہے جس کے ساتھ ساتھ ہمیشہ دو کوے اڑتے رہتے تھے، اور کوا تمہیں پتہ ہے مستقبل کی خبر دیتا ہے کہ کون یا کیا آنے والا ہے۔ کیا آنے والا ہے؟ اس کی خبر یا جھلک تو منیر کی نظموں ہی میں مل سکتی ہے میں تو یہ بتا سکتا ہوں کہ جانے والا کون ہے۔
صبح کاذب کی ہوا میں درد تھا کتنا منیر
ریل کی سیٹی بجی تو دل لہو سے بھر گیا
ریل کی سیٹی سے بڑا اب سفر کا سمبل کیا ہو گا؟ رختِ سفر باندھ لو۔۔۔ میں چلا۔