غزل

یہ تحریر 311 مرتبہ دیکھی گئی

بجا ہے اس کی شکایت جو جا نہیں پایا
وہاں پہ جا کے بھی سب نے خدا نہیں پایا

کوئی تو بات ہوئی رات کے اندھیرے میں
چراغ چاند سے نظریں ملا نہیں پایا

جمال عکس کا جب آئنے پہ بھاری پڑا
کوئی بھی اپنا سراپا بچا نہیں پایا

میں خاک بھی نہ رہا خواب کی شکست کے بعد
کہ خواب کھل کے کسی کو سنا نہیں پایا

کبھی کبھی تو وہ خود سے چھپانے لگتا ہے
کہ اس نے خود میں کوئی دوسرا نہیں پایا

تلاش کرنا سہاروں کا اور کھو دینا
وہ حوصلہ بھی جو بندہ جُٹا نہیں ہوتا

کوئی زمیں ہو مگر شعر تیرا اپنا نہیں
کہ تُو تو جھوٹ سے دامن چھڑا نہیں پایا

میں راستے میں کھڑا منتظر ہوں کب آئے
وہ قافلہ جسے رستہ تھکا نہیں پایا

فصیلِ شہر ترا فیض ہے یہ حبس یہ خوف
کہ کوئی گھر میں دیا تک جلا نہیں پایا

ہمارے دل میں جگہ تھی مگر کسے دیتے
کہ ہم نے تجھ سا کوئی دوسرا نہیں پایا

کوئی بھی چیز نہ تھے، جب تلک نہ تھے منسوب
پھر ایک نام کی نسبت سے کیا نہیں پایا

میں پہلے دن سے اسی کشمکش میں تھا زاہد
میں کیا کروں گا جو اس کو بھلا نہیں پایا