چھپی ہے اس میں جو ہو شیاری سمجھ رہا ہوں
میں تیرا اندازِ غم گساری سمجھ رہا ہوں
جو دیکھا جائے یہ سارے مضمون لازمی ییں
میں اپنے اعمال اختیاری سمجھ رہا ہوں
ورق ورق مجھ پہ کھل رہے ہیں یہ دو صحیفے
میں دو جہانوں کو باری باری سمجھ رہا ہوں
مرے سمجھنے پہ ٹھیک تم نے گرفت کی ہے
رکے ہوئے کام کو بھی جاری سمجھ رہا ہوں
کہاں کی حکمت ہے سوچ کی لہر چھوڑ دینا
یہ میٹھا چشمہ ہے جس کو کھاری سجھ ریا ہوں
وہ دھیمے لہجے میں اور ہی چال چل رہا ہے
میں اس تکبر کو خاکساری سمجھ رہا ہوں
دکھا رہا ہوں بڑے سلیقے سے بے نیازی
میں دل کے اندر کی ہو شیاری سمجھ رہا ہوں