غزل

یہ تحریر 77 مرتبہ دیکھی گئی

دور کتنا میں اک اجنبی کے لئے جاؤں گا
خود کو چھوڑوں تو شاید کسی کے لئے جاؤں گا

در بدر پھرنے والے اندھیرے ہیں کس کام کے
میں جدھر جاؤں گا روشنی کے لئے جاؤں گا

یونہی بے کار تو میں کہیں جانے والا نہیں
اور گیا تو بس اپنی خوشی کے لئے جاؤں گا

زندگی سے محبت کا عادی میں اس قدر
اس کو چھوڑا تو پھر دوسری کے لئے جاؤں گا

جان لو ایک اس کے سوا میں کسی کا نہیں
جاؤں گا اب کہیں تو اسی کے لئے جاؤں گا

اپنے خوابوں کو تج کر سمٹ جاؤں گا یاد میں
اپنی گزری ہوئی زندگی کے لئے جاؤں گا