غزل

یہ تحریر 118 مرتبہ دیکھی گئی

دور کتنا میں اک اجنبی کے لئے جاؤں گا
خود کو چھوڑوں تو شاید کسی کے لئے جاؤں گا

در بدر پھرنے والے اندھیرے ہیں کس کام کے
میں جدھر جاؤں گا روشنی کے لئے جاؤں گا

یونہی بے کار تو میں کہیں جانے والا نہیں
اور گیا تو بس اپنی خوشی کے لئے جاؤں گا

زندگی سے محبت کا عادی میں اس قدر
اس کو چھوڑا تو پھر دوسری کے لئے جاؤں گا

جان لو ایک اس کے سوا میں کسی کا نہیں
جاؤں گا اب کہیں تو اسی کے لئے جاؤں گا

اپنے خوابوں کو تج کر سمٹ جاؤں گا یاد میں
اپنی گزری ہوئی زندگی کے لئے جاؤں گا