نصیر بلوچ سب سے مختلف تھا. سب کا مرشد تھا، اپنی وضع کا درویشِ بے ریا. معاملاتِ دنیا میں طاق لیکن ان سے بے زار، تعلقات میں وضع اور رعایت کا دامن نہ چھوڑنے والا، دوستوں کی مجلس ہو یا محفلِ مشاعرہ فتح کرنے اور چھا جانے والا، ہم سب اور ہمارے پیچھے آنے والی نسل نصیر بلوچ کی مفتوح ہے. اور یہ فتوحات بلوچ صاحب اکثر مشاعروں کی محافل میں اپنی تیغّ سخن کی آب آزمائی سے کرتے ہیں. محفل مشاعرہ جہاں کی بھی ہو، اگر نصیر بلوچ مدعو ہیں تو ان کے نام ہے. پھر ان کی پڑھنت، ایک یلغار ہوتی تھی، مجمع بے بس ہوتا تھا نصیر بلوچ کا ساتھ دینے میں، مجمع کی نفسیات اس کی مٹھی میں ہوتی تھیں. ہماری معلومات کی حدتک یہ کبھی نہیں ہوا کہ محفل خراب کرنے والے عناصر دورانِ مشاعرہ کبھی بلوچ صاحب کے سامنے ٹھیر سکے ہوں. شعر اتنا پختہ اور نیا نکالتے تھے کہ سامع اپنا آپ بھول جاتا تھا. کمزور یا بھرتی کا شعر نصیر بلوچ سے کبھی سرزد ہی نہیں ہوتا تھا. شعر کا خیال شعر کا پیرایہ کہنے کا اسلوب سب نصیر بلوچ کا اپنا ہوتا تھا. نصیر بلوچ چونکا دینے والا شعر کہتے تھے.شعر ابلاغ کے سوا کیا ہے، نصیر بلوچ کا ابلاغ اس کی طاقت بن جاتا اور وہ اپنے کی طاقت سے تسخیر کرتے چلے جاتے.
ادبی تنظیم وجدان نے بہت سے یادگار پروگرام کیے. یہ پروگرام نصیر بلوچ کی شرکت سے بہت زیادہ بامعنی ہو جاتے. لکھا ہوا پڑھتے، نقطہ رسی ایسی کہ دوست بعد میں ان کے کہے پر مشغول ہو جاتے. لیکن ادبی تنظیم وجدان ان سے غایت درجہ محبت رکھنے اور بہت شدید آرزو اور کوشش بسیار کے باوجود نصیر بلوچ کے ساتھ کوئی مجلس برپا نہیں کر سکی. یہ نصیر صاحب کی بے نفسی کا ایک بڑا ثبوت ہے. ہماری بات ٹالتے نہیں تھے. مگر اس بابت انہوں نے کبھی پیروں پر پانی نہیں آنے دیا. ادبی تنظیم وجدان اسے ایک بڑی محرومی سمجھتی ہے. اے بسا آرزو کہ……..
یاروں کے یار، ادبی تنظیم وجدان کے بانیان اور سرپرستوں میں سرِ فہرست اور یہ رشتہ نیاز آج ان کے آخری سانس لینے کی گھڑی تک ان کے ساتھ ایسے ہی قائم رہا، جو آج سے مریدانہ عقیدت میں بدل گیا ہے. دل بہت دکھی ہے اور طبیعت ناساز.
وہ جانتے تھے جو پہلو بدل رہے تھے مرے
میں مر چکا تھا مگر سانس چل رہے تھے مرے
جہاں جہاں پہ ترے تیر لگ رہے تھے مجھے
وہاں وہاں سے نئے پر نکل رہے تھے مرے