دور سے ہم کو لگا تھا بے زباں آ بِ رواں اگلے ہی پل تھا ...

یوں تخیل میں مرے ہے اک نگر سویا ہوا بیج میں ہو جس طرح کوئی ...

ایک آواز، دور کی آواز میری تنہائی سے لپٹتی ہے میرے خوابوں میں سرسراتی ہے ...

اے سمندری پرندو انہی سبز ساحلوں سے کبھی تم آڑے سفر پر کبھی ہم سفر ...

دل وسوسوں میں اِس طرح اُلجھا ہوا لگا یہ آئینہ غبار میں لپٹا ہوا لگا ...

یوں تھا سفر کی دھن میں دیوانہ پن ہمارا کاندھے ہی پہ دھرا تھا ہر ...

طوفان سہی تیز مگر جانا ہے اُس پار اے طبعِ خطر جُو تجھے بہلانا ہے ...

ہوا تھم گئی چلتے چلتے شاخ ساکن ہوئی ہلتے ہلتے بھورے بادل ٹھر ہی گئے ...

ایک کمرہ، جھاڑ فانوس، میزیں کرسیاں، میز پر کافی کے پیالے، گوشوارے، پنسلیں، اور گفتگو ...

یہ بجا ہے بسیں گی نئی بستیاں اور اُن میں نئے لوگ بھی آئیں گے ...