وجود کے سناٹے پر ہجوم کی آڑی ترچھی بھِن بھِن سے بے معنی لکیریں کھنچتی ...

نہ تم تاروں کی چھاں مانگو اور نہ چاند پکارو سائیں نہ تم پھول کو ...

میرے گھر کو آتی، بل کھاتی پگڈنڈی کنارے کئی رنگ کے پھول کھلے ہوئے ہیں ...

بہتے دریاؤں کے ساز کی لے پہ میں پرندوں کی ڈاریں اڑایا کرتی تھی رخ ...

وجود کے سناٹے پر ہجوم کی آڑی ترچھی بھِن بھِن سے بے معنی لکیریں کھچتی ...

۔۔۔ آج شہر میونخ کی اک شاہراہ پر خلافِ توقع کبوتروں کو دیکھ کر میری ...

پچھلے برس جب رختِ سفر باندھا تھا میں نے ہرے پتوں سے لدے خوش رنگ ...

دو کمرے کے کچے گھر میں میری نانی بستی تھی لکڑی کے اک ٹکڑے سے ...

گھر کی اور گھر کی حفاظت میں کھڑی دیوار کے درمیاں میں ایک مکڑی کا ...

میں پیدائشی طور پر پرندہ صفت آوارہ تھی نہ جہانگردی میری گُھٹی میں شامل تھی ...