صلاح الدین درویش کے پانچ عقیدے

یہ تحریر 143 مرتبہ دیکھی گئی

صلاح الدین درویش نے اپنے بارے میں ایک بڑا جھوٹ پھیلا رکھا ہے کہ وہ کسی مستقل فکری کھونٹے سے نہیں بندھا بلکہ اپنا خیمہ کاندھے پر اٹھائے پھرتا ہے اور جہاں دل کرتا ہے وہیں نظریاتی ڈیرے ڈال لیتا ہے۔

یہ پروپگینڈا ہے جسے اس نے گوئبلز کی طرح اتنی بار دہرایا ہے کہ سچ لگنے لگا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ جہاں تک میں اسے دس بارہ برس سے جانتا ہوں، وہ اپنے عقائد میں، جن کی تعداد پورے پانچ ہے، کسی ان پڑھ دیہاتی مولوی کی طرح کٹر ہے۔

اس کا پہلا عقیدہ پیپلز پارٹی ہے، اور اس میں کسی کو شرک کی اجازت نہیں۔ دوسرا سگریٹ ہے۔ وہ سگریٹ کو انسان کی عظیم ایجادات میں سے ایک گردانتا ہے اور اگر کوئی غلطی سے توہینِ سگریٹ کر بیٹھے تو بلاسفیمی گینگ کی طرح حرکت میں آ کر اس کا پرچہ کاٹ لیتا ہے۔

تیسرا عقیدہ اس کا یہ ہے کہ آرٹ کو آرٹیفیشل ہونا چاہیے۔ فکشن میں حقیقت کی کسی بھی قسم کی آمیزش ٹوکرے میں ایک سڑے ہوئے پھل کی طرح پورا ٹوکرا برباد کر دیتی ہے۔ اسے اس نے ’ڈی آرٹ‘ کا نام دیا ہے اور کتاب میں میں ایک طویل مضمون اس پر موجود ہے۔

پانچواں عقیدے کا آخر میں ذکر کروں گا، پہلے ذرا چوتھے سے دو دو ہاتھ ہو جائیں کہ یہی میرا آج کا مرکزی موضوع ہے۔ یہ عقیدہ ’بیانیہ‘ ہے جو اس کا اوڑھنا، بچھونا، چھتری، مفلر، چشمہ، ہیٹ، کرسی، میز، قلم، دوات، کی بورڈ، غرض سب کچھ ہے۔ درویش سے تنقید، فلسفے، آرٹ، مذہب، ثقافت، غرض کسی بھی علمی و فکری موضوع پر گفتگو کریں اور یہ پابندی لگا دیں کہ دو منٹ تک لفظ ’بیانیہ‘ استعمال نہیں کرے گا تو اس کی وہی حالت ہو جاتی ہے جیسے اناڑی غوطہ خور کی پانی میں۔ وہ اس موقعے پر کسی متبادل لفظ کی آکسیجن لے کر تیرنا شروع کر دے گا، مثلاً ڈسکورس یا نیریٹو یا نظریہ، یا تھیسس۔ اس دھوکے میں نہ آئیں اور نلکی پر پاؤں رکھ دیں۔

یہ بیانیہ کیا ہے؟ اس سوال کا جواب اس کی تازہ کتاب ’شناخت کا خاتمہ‘ میں مل جاتا ہے۔ مل کیا جاتا ہے، موبائل کی ٹارچ آن کر کے ڈھونڈنا پڑتا ہے کیوں کہ واضح تعریف کہیں بیان نہیں کی گئی۔ بہرحال، جو کچھ اخذ کیا جا سکتا ہے وہ یہ ہے کہ زبان ایک گارا ہے جس کی مدد سے انسان زندگی بھر پیش آنے والے مختلف ثقافتی مظاہر، رسم و رواج، اقدار، تاریخ، مذہب، تعلیم، آرٹ کو گوندھ کر کائنات کی ایک تفہیم تعمیر کرتا ہے۔ اس سے اس کا مقصد یہ جاننے کی کوشش کرنا ہے کہ وہ کون ہے، کیا ہے، اس کی زندگی کا مقصد کیا ہے، اسے معاشرے میں کیا کردار ادا کرنا ہے، وغیرہ۔

دنیا میں جو بھی تحریکیں چلتی ہیں، انقلاب آتے ہیں، مذاہب کے بانی اٹھ کر سماج سدھار کی مہمیں چلاتے ہیں، سیاسی اتھل پتھل ہوتی ہے، جنگیں لڑی جاتی ہیں، سرحدوں کی لکیریں کھنچتی ہیں، ان سب کے پیچھے یہی بیانیہ ہے۔

بیانیہ ذاتی بھی ہوتا ہے اور اجتماعی بھی۔ مثال کے طور پر درویش نے لکھا ہے کہ اکبر الہ آبادی اور اقبال کا اجتماعی فکری بیانیہ تو ایک تھا، مگر ذاتی شعری بیانیہ جدا جدا تھا، اس لیے جب اقبال نے اکبر کے رنگ میں شعر لکھے تو پٹ گئے۔

اب آ جاتے ہیں مہا بیانیوں پر۔ وہ کیا ہیں، فطرت، ابدیت، آفاقیت، اعلیٰ اقدار وغیرہ پر مبنی بیانیے۔ مہا اس لیے کہ یہ انسانی تہذیب کے تمام مظاہر کو لپیٹ میں لے لیتے ہیں۔ اس میں مذہب تو ہے ہی، دوسرے بڑے نظریات بھی آ جاتے ہیں، مثال کے طور پر مارکسزم، سرمایہ داری نظام، قوم پرستی، وغیرہ۔ درویش ان مہا بیانیوں کے اس لیے خلاف ہے کہ انہیں ہتھیار بنا کر دنیا میں انت مچائی گئی ہے۔

یہی نہیں بلکہ انہی مہا بیانیوں کی بنیاد پر جو آرٹ، بالخصوص ادب تخلیق کیا گیا ہے، اسی کے رد میں پوسٹ ماڈرن آرٹ وجود میں آیا ہے جو مہا بیانیوں کے بخیوں میں گندھی ہوئی عصبیتوں کو رد کرتا ہے۔

اس کے مقابلے پر درویش تکثریت کا پرچارک نظر آتا ہے، جس میں چھوٹی چھوٹی سچائیاں انفرادی معانی تو رکھتی ہیں، مگر مل کر کوئی گرینڈ نیریٹو تعمیر نہیں کرتیں۔ نہ ہی تاریخ کا سفر کسی واضح سمت یا منزل کی جانب ہے۔ جو کچھ ہے وہ حادثاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ماضی اور حال کو بنیاد بنا کر مستقبل کے بارے میں جو پیش گوئیاں کی گئی ہیں وہ اکثر و بیشتر منھ کے بل گری ہیں۔

کتاب کا سب سے دلچسپ مضمون ’شناخت کا خاتمہ‘ ہے، جس میں درویش نے انسان کی تمام تاریخ چند صفحوں میں پرو دی ہے۔ اس میں مذہب کا آغاز و ارتقا، ریاستوں کا قیام، صنعت و حرفت کے آغاز سے لے کر ٹیکنالوجی کے کرشمے اور ٹیکنالوجی کے کرشموں سے مابعد جدیدیت تک کا سفر بیان کیا گیا ہے۔

لیکن یہ سفر سیدھی لکیر میں تمام دنیا میں یکساں طریقے سے طے نہیں ہوا، بلکہ مختلف معاشرے اپنی اپنی بےڈھنگی چال چلتے رہے ہیں، چنانچہ ہم سمیت کئی ترقی پذیر معاشرے ابھی ما بعد جدید صورتِ حال تک پہنچے ہی نہیں اور کہیں ماضی میں ٹنگے ہوئے ہیں جس کو وہ اپنا حال سمجھتے ہیں۔ البتہ یہ ضرور ہے کہ بالادست معاشرے اپنے مقاصد پورے کرنے کے لیے جو اقدامات کرتے ہیں ان کا اثر تمام دنیا پر پڑتا ہے۔ (کتاب میں تو نہیں لکھا، مگر اس کی ایک عمدہ مثال ماحولیاتی تپش ہے۔ کاربن کسی نے فضا میں اپ لوڈ کی، بھگت کوئی رہا ہے۔)

یہیں سے پوسٹ ماڈرن کنڈیشن جنم لیتی ہے، جس میں ماضی میں رائج تمام شناختوں کو رد کیا جاتا ہے، چاہے وہ مذہبی ہوں، ثقافتی، قومی یا لسانی۔ دوریش فوکویاما اور ڈینیئل بیل کی پیروی کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ اب دولت اور اس کا حصول ہی اصل شناختیں ہیں، دوسری تمام شناختیں مٹ گئی ہیں یا مٹنے کے قریب ہیں۔ اب انسان اپنے مسائل ٹیکنالوجی کی مدد سے حل کرنے کی کوشش کرتا ہے، نہ کہ مہا بیانیوں کے تحت۔

تاہم درویش فوکویاما کی توجہ سرمایہ دارانہ نظام کی چیرہ دستیوں کی طرف دلاتے ہوئے اختلافی نوٹ لکھتا ہے کہ اس نے صارفی ثقافت کو جنم دیا ہے جو ترقی پذیر معاشروں کے استحصال کا ایک اور وسیلہ ہے۔

اسی دوران مصنوعی ذہانت نے انٹری کر کے ایک تھرتھلی مچا دی ہے۔ جہاں دوسرے مفکرین کو خدشہ ہے کہ سپر انٹیلی جنس انسان کی تمام شناختیں مٹا دے گی، وہیں درویش اس کا کھلے بازوؤں سے آؤ بھگت کرتا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ یہ ٹیکنالوجی بھی چونکہ انسان کی پیداوار ہے، اس لیے انسان ہی کی نمائندہ ہے، چاہے اس کی جو بھی شکل بنے۔ اور یہی ٹیکنالوجی انسان کو چھوٹے چھوٹے مقامی ڈربوں سے نکال کر عالمی سٹیج پر جوڑ رہی ہے، ندیاں، نالے، نہریں، دریا سب مل کر ایک عالمی سمندر میں گر رہے ہیں۔

یہیں سے میرا درویش سے اختلاف شروع ہو جاتا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ سائبر ٹیکنالوجی اور سوشل میڈیا انسانوں کو جوڑ نہیں رہا، بلکہ مزید چھوٹی چھوٹی کرچیوں میں توڑ رہا ہے۔ انڈیا میں وٹس ایپ پر میسج آتا ہے کہ فلاں گاؤں میں گئو ہتیا ہو گئی ہے، لوگ اندھا دھند شیئر کرنے لگتے ہیں اور گھنٹے بعد بلوائی جتھے ہلہ بول کر مسلمانوں کے محلے کا انتم سنسکار کر دیتے ہیں۔ ہمارے ہاں یہی سلوک مسیحی برادری سے توہینِ مذہب کے عنوان سے کیا جاتا ہے۔ مغربی ملکوں میں سوشل میڈیا نے معاشروں کی آرا کشی شروع کر دی ہے۔ لوگ ایکو چیمبر ایفیکٹ کے تحت اپنے ہمنواؤں میں راحت پاتے ہیں اور اپنی مرضی کا بیانیہ مشتہر کرتے ہیں، مخالف بیانیہ دھتکار دیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا بھر میں ڈیموگاگ برساتی کاشوکوموں کی طرح اگ آئے ہیں۔

وجہ؟ انسانی فطرت۔ اور یہ وہ چیز ہے جسے درویش مکمل طور پر نظر انداز کرتا ہے۔ اس کا خیال ہے کہ نومولود بچہ ایک خالی سلیٹ کی مانند ہوتا ہے، جس پر معاشرہ اپنا ’بیانیہ‘ تحریر کرتا ہے۔ مگر ہر شخص جس کے دو بچے ہیں، جانتا ہے کہ ہر بچہ اپنی الگ شخصیت لے کر پیدا ہوتا ہے اور ایک ہی گھر میں پیدا ہونے والے دو بچے بڑے ہو کر بالکل مختلف انسان بنتے ہیں۔
کارن اس کا یہ ہے کہ ہر انسان متعدد ادراکی تعصبات (cognitive biases) میں جکڑا ہوتا ہے، جن سے مکمل چھٹکارا حاصل کرنا ممکن نہیں ہے۔ ان تعصبات کا رجحان پیدائشی اور فطری ہے اور حتمی طور پر اس کی جڑیں ارتقا میں ہیں کیوں کہ لاکھوں برس کے دوران ان تعصبات نے انسان کی بقا میں مدد دی ہے۔ قصہ مختصر کہ لباس بےشک بدل جائے مگر انسانی روح وہی پرانی دھرانی ہے۔ ان چیزوں کو قالین نے نیچے دھکیل کر انسان اور انسانی معاشرے کو سمجھنے کی کوشش سمندر کو چھاننی سے ناپنے کی کوشش ہے۔

کتاب کی ایک اور بڑی خامی اہم جدید ماخذات سے بےخبری ہے۔ درویش کے تقریباً تمام حوالے نصف صدی سے زیادہ پرانے ہیں۔ وہ بلینک سلیٹ کے تصور کے لیے 17ویں صدی کے جان لاک، اور 1950 کی دہائی کے سکنر اور چومسکی کا ذکر تو کرتا ہے، مگر اس کے بعد کی تین چوتھائی صدی میں کیا ہوا، اس سے مطلق لاعلم ہے۔ وہ اس وقت دنیا کے چوٹی کے دانشور سٹیون پنکر کی 2002 کی کتاب ’دا بلینک سلیٹ‘ کا نام تک نہیں لیتا، جس نے اس بحث میں اہم اضافہ کیا ہے۔

اسی طرح آئیڈیالوجی کے خاتمے کے سلسلے میں وہ ڈینیئل بیل پر تو مفصل تنقید کرتا ہے، مگر اس موضوع پر یاشا منک کی اہم ترین کتاب ’دی آئیڈنٹٹی ٹریپ‘ سے بےخبر ہے، جس میں منک نے بیل کو مسترد کیا ہے۔ جہاں بیل نظریاتی کشمکش کا ایک حتمی اور پرسکون انجام دیکھتا ہے، وہیں منک موجودہ دور کو ایک نئے، جوش و خروش سے لبریز نظریاتی میدانِ جنگ کے طور پر پیش کرتا ہے۔ یہ کتاب اتنی اہم ہے کہ اسے اکنانومسٹ اور فائننشل ٹائمز سمیت کئی ذرائع نے 2023 کی بہترین کتاب قرار دیا تھا اور اسے گذشتہ عشرے کی بھی اہم کتاب سمجھا جاتا ہے، اور تو اور، خود فوکویاما نے اس کی تعریف کی ہے۔

خیر، تنقید بہت ہو گئی، اب درویش کے پانچویں عقیدے کا ذکر ہو جائے۔ وہ ہے میڈم نور جہاں، جن کے بارے میں اس کا یہ عظیم قول راگ باگیشری میں چاند پر لکھنے کے قابل ہے کہ اگر میڈم خدائی کا دعویٰ کرتی تو میں بےچوں و چرا اس پر ایمان لے آتا۔

افسوس کہ یہ قول اس کتاب میں نہیں لکھا ورنہ میں بھی آنکھیں بند کر کے اس کتاب پر ایمان لے آتا!