حالات حاضرہ: ایک پاکستانی سائیکاٹرسٹ اور عراقی عالم کا مکالمہ

یہ تحریر 702 مرتبہ دیکھی گئی

نیکی بدی کی پہچان اور اچھے برے کی تمیز کر پانا انسان کے خمیر میں شامل ہے۔ ازل سے شامل ہے۔ بگ بینگ کی تھیوری مانیںیا ڈارون کا نظریہ، آدم کے جنت سے نکالے جانے پر ایمان رکھیںیا بدھ مت کی تعلیمات پڑھیں؛ انسان کے دنیا میں وجود کے ساتھ انسان کے اندر ہی اخلاقیات کے سسٹم کا موجود ہونا ثابت ہے۔ سائنس سے ثابت ہے۔ مرر نیورونز انسانی دماغ کی ساخت کا وہ حصہ ہیں جن میںیہ صفات پرنٹڈ ہیں۔ کس نے کی ہیں، کیسے کی ہیں، کب کی ہیں؛ اس بحث سے سائنس اور مذہب برسوں سے نبرد آزما ہیں۔ جب انسان کی تعداد بڑھنا شروع ہوئی اور ضرورت نے ایجادات جننے کا کام شروع کیا تو انسانیتنےمل کر زندگی گزارنے کیلئے اک کوڈ آف کنڈکٹ چاہا ۔ جس طرح ہم ڈاکٹر لوگ جب کلینک کھولتے تو دو چار چیزوں کا ضابطہ طے ہوتا، ہسپتال کھلتا تو کوڈ آف کنڈکٹ وسیع تر ہوتا جاتا۔ دنیا پھیلنے لگی، کمپیٹیشن بڑھنے لگا۔ دماغ کے حصوں میں مرر نیورانز (عقل اور احساس) پر ایمگڈلہ (جذبات) غالب آنے لگا۔ پہلے دکھتی ہوئی اور کسی حد تک قابو میں آتی ہوئی طاقتوں کو مرکز بنا کر اور ان سے ڈرا کر کوڈ آف کنڈکٹ کو نافذ کیا جانے لگا۔ زندگیوں میںیہ خوف مسلسل شامل کرکے لوگوں کی زندگی کا بڑا حصہ اور آمدن کا کچھ حصہ طاقتوں اور انکا خوف نافذ کرنے والوں کی نظر ہونے لگا۔ معاشرے کی کڑیاں بہرحال اس خوف کے گرد بنیجانے لگیں۔ بعد ازاں اس خوف میں زندگی کے بعد کی زندگی کا ڈر مل گیا اور مرکزی طاقت بھی ان دیکھیہو گئی۔ ضرورت ایجادات کے بچے جنتے جنتے سائینس کو جن بیٹھی جس نے دیکھی ہوئی اور دسترس میں موجود بہت سی طاقتوں کا عقدہ کھولنا شروع کردیا اور انکو نیوٹرلائز بھی کردیا۔ اب طاقت کا ماخذ ان دیکھا خدا ہوگیا۔ ہاں اس کے نائب اب یہاں موجود تھے، اسکا کوڈ آف کنڈکٹ نافذ کرنے کو۔ جب یہ بات ثابت ہوگئی کہ مذہب ہی زندہ رہنے کے طریقے اور اخلاقیات کو بیان کرے گا، چاہے وہ پہلے سے ہی انسانی ہارڈویر کا حصہ تو دنیا میں اور مذاہب میں بھیمقابلے بازی اور جنگ کی فضا طاری ہونے لگی۔ فطرت کے خلاف جائیں تو نتیجہ تو بھگتنا پڑتا۔ گو زندگی کا کوڈ یا اچھائی برائی کی تمیز زیادہ مذاہب میں ملتی جلتی ہی ہے۔ ابراھیمی مذاہب میں کتاب اور خدا کے پیغام رسانوں کی اہمیت مسلم ٹھہر گئی۔ نبی وہ پیغامرساں ٹھہرے جن کا ان دیکھے خدا سے رابطہ، زیادہ فرشتوں کے ذریعے۔ نبیوں پر مہر لگ گئی۔ شاید ضرورت اتنی تیزی سے سائنس کی شاخوں کع جن رہی تھی کہ مہر نہ لگتی تو ان دیکھی طاقت پہ بھی سوال اٹھتے۔ بہرحال نبیوں کے بعد آئمہ، ولی، بزرگ ہوتے رہے اور کوڈ آف کنڈکٹ کو نافذ کرنے پر زور دیتے رہے۔ تعلیم عام ہوئی تو مذہب نے بھی اڑان بھری اور علم بن گیا۔ ڈگریاں ملنے لگیں اور معتبر وہ کم ٹھہرے جو کہتے کہ خدا سے کوئی کنکشن، زیادہ وہ ٹھہرے جن کے پاس فارمل علم۔ مغرب نے گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ بڑی حد تک اخلاقیات کا معاملہ چرچ سے  مرر نیورانز پر منتقل کر ڈالا ہے اور مذہبی سکالرز اب معاشرے میں محدود حد تک ریلیونٹ رہ گئے ہیں۔ ہمارے ہاں معاملہ مختلف ہے۔ مذہب کی ریلیونس اور زور دن بدن بڑھتا بھی جارہا اور تبدیل بھی ہو رہا۔ اب بھی معاشرے میں مذہبی کردار ریلیونٹ ہیں اور ضرورت کے مطابق اس ریلیونس کو بڑھا بھی دیا جاتا ہے۔ میں چونکہ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں ذہنی مرائض کا طبیب ہوں۔ میرے بہت سے مریض بھی بالواسطہ یا بلاواسطہ اس کشمشکش سے متاثر ہوتے ہیں۔ اسی واسطے دورہ عراق میں ایک مذہبی عالم سے ملنا مناسب لگا۔

شیخ السند بطور عالم متنازعہ بھی اور مستند بھی۔ لندن سے انجینیرنگ کی تعلیم پائی اور قم سے مذہب کی۔ بحرین میں بستے تھے۔ اپنی ہی حکومت کے خلاف اقوام متحدہ کو خط لکھا کہ ریفرنڈم کراؤ۔ زیر عتاب آئے اور عراق میں پناہ لی۔ نجف اشرف جیسے علمی شہر میں سکونت اختیار کی اور درس و تدریس سے منسلک ہوگئے۔ کچھ متنازعہ فتوے بھی دئیے جنہوں نے انکی شہرت اور فالوورز میں اضافہ ہی کیا۔ امام علی کے روضے کے قریب ہی اک گلی میں شیخ کا گھر اور دفتر ہے۔ نہ کوئی پراڈو، نہ فارم ہاؤس اور نہ ہی ملاقات کیلئے نخرے۔ عصر کے وقت گھنٹی بجائی۔ اسسٹنٹ باہر نکلا۔ اگلے روز کا وقت دیا۔ میزبان نے انہیں بتایا کہ ملاقاتی سنی بھی اور ذہنی امراض کا طبیب بھی سو ملاقات جلدی طے پاگئی اور مغرب کے بعد کا وقت ملا۔

مغرب کے وقت پہنچے تو اسسٹنٹ سیدھا تہہ خانے میں لے گیا۔ باہر کمپیوٹر پر اک لڑکا بیٹھا تھا اور اندر لائبریری تھی۔ کچھ دیر بعد شیخ تشریف لائے اور پہلے نماز ادا کی۔ اس دوران میںیہ سوچتا رہا کہ عقیدہ بھی مختلف ہے اور سائینس بھی بیچ میں حائل ہے۔ کوئی اونچ نیچ ہوگئی تو اسی تہہ خانے کے نیچے کسی اور تہہ خانے کا سامنا نہ ہوجائے۔ شکر کہ مولانا کافی حلیم طبیعت کے نکلے۔ چونکہ انکی انگریزی کو زنگ لگ چکا تھا لہٰزا ویڈیو کا ارادہ ترک کرکے ملاقات پہ مضمون لکھنے کا سوچا۔ پہلے انہوں نے آڈیو کیلئے بھی منع فرمایا مگر پھر سوالوں کی نوعیتدیکھکر اجازت دے دی۔

مذہب تو ملانے آیا تھا پھر گذشتہ کئی سالوں سے تفریق کیوں پیدا کررہا؟ چھوٹتے ہی سخت سوال کیا۔ جواب آیا کہ جوڑے گا تب، جب نبی کی زندگی کے مقصد کو سمجھیں گے۔ سورہ بقرہ کا حوالہ دیا کہ اس کو پڑھیں اور فیصلہ کریں لیڈر کون ہو سکتا۔ فزکس اور میٹا فزکس کی مثال دی کہ فرشتوں پر انسان کو فضیلت اسلئے کہ فرشتے فزکس اور میٹا فزکس نہیں سمجھتے۔ خدا نے انسان کو چنا۔ انسان نے خود کا انتخاب نہیں کیا۔ انسانوں کے اچھے رہنمااک دیوار کے سامنے کھڑے ہوتے ہیں۔ سامنے تمام دنیا کے مظالم بھی اور خون بھی۔ اگر یہ لیڈر مذہب کی درست تعلیمات پر عمل کرے اور شیطان کا پیروکار نہ بنے تو یہ تفریق کے بجائے اتحاد کا سبب بنے گا۔

 اس وقت کوئی ایسا لیڈر موجود ہے؟ اگلا سوال بہت سیدھا تھا۔ جواب آیا کہ آج کے لیڈر امام علی، حسین اور مہدی سے دور ہیں۔ امام مہدی کو سب مانتے اور وہ فاطمہ سے ہیں۔ کیا امام مہدی کے آنے پر شیعہ سنی اتحاد ہو جاوے گا؟ بیچ میں روک کر نیا سوال داغا۔ بلکل، کیونکہ کوئی شیعہ سنی نہیں ہوگا اس کے بعد۔ مہدی سب کا لیڈر ہوگا۔ صرف مسلمانوں کا نہیں سب مذاہب مہدی کے تلے ہونگے۔ سورہ انسا کا حوالہ دیا۔ تمام انسان تفریق بلا کر ایک ہو جاویں گے۔ “مہدی فار آل”۔ ہم نے پھر عراق کے اندر سیاحتی تفریق کی نشاندہی کی کہ شیعہ زیارات کی حالت اچھی اور سنی زیارات کا کوئی پرسان حال نہیں۔ یہ کھلا تضاد کیوں؟ فرمایا کہ انسان جتنا خدا، رسول اور امام علی کے قریب ہوگا، اتنا ہی عافیت پائے گا۔ زیارت میں دفن شخص کی سی-وی کا سوال نہیں۔ سوال اسکے خدا، رسول اور علی سے قرب کا ہے۔ گول مول جواب دیا شیخ نے۔

حسن الللہ یاری سے متعلق سوال پر کہا کہ نام نہ لیں اور سوچ پر بات کریں۔ کئی شیعہ علما سنیوں کو اور کئی سنی علما شیعوں کو کافر سمجھتے، اسکی کیا وجہ؟ گھسا پٹا سوال تھا، مگر زبان سے ادا ہو گیا۔ معاملہ خدا اور مذہب شناسی کا۔ اس دنیا میں کسی کو بھی لڑنا نہیں چاہیے۔ مسلم ہوں یا غیر مسلم۔ حکومتیں لوگوں کے پیسے پر لڑتیں۔ عام آدمی دشمنی نہیں کرتا، حکومتیں کرتیں۔ عام آدمی دشمنی کے جواب میں دشمنی کرسکتا؛ ویسے نہیں۔ مسلم ہوں یا کرسچن جو امن سے رہے گا، اس کے ساتھ امن سے رہا جائے گا۔ سو آپ سمجھتے ہیں کہ شیعہ سنی اکھٹے رہ سکتے ہیں؟ سوال آیا۔ جواب میں انکی آواز اونچی اور لہجہ کچھ  باور کراتا ہوا سا ہو گیا۔ بلکل رہ سکتے۔ عقل سے، علم سے، گفت و شنید سے۔ حکومت اور پاور چیزیں خراب کرتیں۔

اگلے سوال سے پہلے انکو یہ جتلایا کہ یہ سوال میرے آج کے سوالنامے کا حصہ ہرگز نہ تھا مگر انکے شیعہ سنی اتحاد کو اتنا سہل بنانے پر ابھی دماغ میں آیا۔ شیعہ/سنی عالم جب بھی بیٹھتے مفاہمت سے آگے بڑھنے کی بات نہیں کرتے بلکہ ماضی کو اپنی مرضی کا رنگ دے کر دوسرے سے منوانا چاھتے۔ عائشہ افضل کہ علی، معاویہ درست یا حسن؟ ایسے تو سو سال بھی کوئی جامع اتحاد ممکن نہیں؟ ممکن ہے بلکل۔ پھر وہی جواب۔ مفاہمت سے، “باکسنگ” کئے بغیر۔ جیسے کوئی بھی سائنس ہوتی ہے۔ مگر طاقتور لوگوں کو امن پسند نہیں ہوتا۔ میں ابھی بھی وہیں پھنسا ہوا تھا کہ سب مناظروں میں ایک دوسرے کی عظیم ہستیوں کی توہین ہوتی۔ سنی اماموں کو ماننے کو تیار نہیں اور شیعہ عمر اور ابوبکر کے کردار پر انگلی اٹھاتے تو یہ معاملہ کیسے سلجھے گا؟ سلجھے گا یا اس کے ساتھ ہی امن ہوگا۔ جواب آیا کہ تسلی سے بیٹھیں اور نتیجے کا نہ سوچیں۔ نتیجہ الللہ پہ چھوڑ دیں۔ باہمی گفت و شنید سے تاریخ کو کھنگالیں۔ نتیجے کی پروا کے بغیر اور آپس میں لڑے بغیر۔ تاریخ کی حقیقت کی بات کریں۔ سائینسی بنیادوں پر بات کریں۔ پہلے نتیجہ اخذ نہ کریں۔ قران کی بات کریں، رسول کی بات کریں۔ “باکسنگ” کی بات نہ کریں۔ ماحول کو ہلکا کرنے کیلئے میں نی کہا کہ معلوم ہوتا باکسنگ آپ کی پسندیدہ گیم ہے۔ قہقہہ لگا کر بولے، نو، نو۔

ایک اور چیز جو ہمارے ملک میں قران سے دوری کے سبب ھے؛ سید شیعہ لڑکی کی غیر سید سے شادی پر پابندی۔ اگر کوئی کرلے تو باکسنگ۔ کیا عراق میں بھی ایسے ہی؟ اس پہ انکا نقطئہ نظر مانگا۔ دین میں منع نہیں۔ مگر جو بھی سید عورت سے شادی کرے، اسے معلوم ہونا چاہیئے کہ اس خاتون کا تعلق رسول سے سو اسکا احترام واجب۔ شوہر کو معلوم ہونا چاہیئے کہ اس دین کے سب سے معتبر انسان سے اس عورت کا تعلق ہے۔ اس بات پر ہمارا اعتراض تھا کہ یہ نبی کی تعلیمات کے برعکس ہے۔ احترام تو دونوں فریقین کے درمیان ہونا چاہیے۔ صرف نسبت تو احترام کا سبب نہیں ٹھہرنی چاہیئے۔

 اگلا سوال ماضی کو حال سے جوڑنے کا تھا۔ 1400 سال پہلے کربلا میں جب امتیوں نے حسین کو مارا تو مسلم امہ کا کانسیپٹ کہیں جا سویا تھا۔ اب فلسطین کی مدد کو کوئی مسلم ملک نہیں آرہا سو اب بھی مسلم امہ نام کی کوئی چیز ہے اس دنیا میں؟ “شیعہ ممالک مدد کررہے”۔ فوراَ جواب آیا۔ واقعی کررہے؟ سوال در سوال۔ جی کررہے۔ ہاں چالاکی سے کررہے۔ سیدھی مدد نہیں، چالاکی والی مدد۔ میرا سوال فطری تھا۔ اور یہ مدد واقعی کام کرہی؟ جی بالکل کر رہی۔ علی ابن طالب کا راستہ ہے یہ۔ حسین ابن علی کا راستہ ہے یہ۔ تہ خانے کا ماحول عجیب سا ہونے لگا۔ انکے جواب پر سوال کیا یہ راستہ علی و حسین کیلئے کتنی کامیابی لایا تھا؟ جواب آیا کہ باکل لایا تھا۔

آخر میں ان سے کہا کہ آج کی نسل کو شیعہ/سنی دونوں سے مطلب نہیں، وہ دین سے دور ہورہے۔ سوال ختم ہونے سے پہلے ہی انہوں نے کہنا شروع کردیا کہ مذہب شیعہ، سنی اور عیسائیوں کی طرف سے نہیں الللہ کی طرف سے ہے اور تمام انسانیت کیلئے ہے۔ مذہب کو رنگ، نسل اور فرقے سے رنگدار نہ کریں۔ یہ الللہ اور رسول کا معاملہ ہے۔ خالص مذہب کے پیچھے جائیں۔ فرقوں میں مذہب کو مت تلاش کریں۔ رسول اور آئمہ ہی اصل لیڈر۔ اس کے بعد کوئی خالص نہیں۔ عیسائیت کا معاملہ بھی ایسا ہی۔ عیسیٰ اوعیسائیت مختلف۔ موسیٰ اور ابراہیم کا بھی یہی معاملہ۔ لیڈر اور ماننے والوں میں بہت تفریق آجاتی گزرتے وقت کیساتھ۔رسول اور علی کی پیروی میں ہی عافیت۔ ٹوٹی پھوٹی انگریزی میں بات جاری رکھی۔ رسول اور علی نے کبھی لڑائی شروع نہیں کی۔ ہمیشہ امن اور گفت و شنید کی بات کی۔ رسول کو پتہ تھا کہ مکہ والے ٹھیک راستے پر نہیں مگر انہوں نے معاملہ فہمی سے کام لیا۔ معاملہ فہمی کا ذکر چلا تو ہم نے صلح حدیبیہ کی بات چھیڑی۔ شیخ فرمانے لگے، صلح حدیبیہ سے پہلے بھی کبھی رسول نے بات چیت پر لڑائی کو فوقیت نہیں دی۔ مگر آج انکے پیروکار صرف باکسنگ کو ترجیح دیتے۔ احد و حنین کا حوالہ دیا کہ رسول نے جنگ نہ چھیڑی تھی۔ ڈیفینس تھا۔ جمل میں بھی علی نے ڈیفینس کیا۔ کربلا میں حسین کا بھی یہی وطیرہ تھا۔ کلیور وے۔

آخری سوال، آج کے دور کے بچے کیوں مذہب کو اپنائیں، مذہب انہیں کیا دے گا؟ سوال کو اہم قرار دینے کے بعد کہا کہ مذہب انہیں لڑائی سے بچائے گا۔ خدا اور رسول سے تعلق زندگی میں تنظیم لائے گا، کامیابی لائے گا، امن لائے گا۔ دوسروں کو کرش کرنے سے بچائے گا۔ زندگی میں افراتفری کم کرکے روشنی لائے گا۔

روشنی، فرد اور معاشرے کی زندگی میں مذہب سے آئے گی یا مرر نیورانز کے استعمال سے؟ مذہب ہو یا سائنس، ارتقاء کرتے کرتے اگر اصل دھندھلا جائے گا تو اانسان فلاح اور روشنی سے دور ہوتا چلا جائے گا۔ فلاح اور روشنی سے دوری ہی ہمارے مطب میں آنے والوں میں سے بیشتر کے مسائل کی جڑ بھی ہوتی۔