اردو کا پہلا ناول جس پر فحاشی کے الزام میں پابندی لگی

یہ تحریر 820 مرتبہ دیکھی گئی

آپ نے فلموں میں دیکھا ہو گا کہ بلندی پر اڑتے جہاز کا دروازہ یا کھڑکی کسی حادثے سے کھل جاتی ہے اور جہاز کے اندر ایک تلاطم برپا ہو جاتا ہے۔ ہر سے بگولوں کی زد میں آ جاتی ہے، سامان، لباس اور خود مسافر اس جھکڑ میں کاغذ کی کترنوں کی طرح اڑتے پھرتے ہیں اور ہیرو یا اس کے حواری بمشکل سیٹ یا کسی دیوار کو مضبوطی سے تھام کر خود کو خلا کا نوالہ بننے سے بچاتے ہیں۔

اکرام اللہ کے ناول ’گرگِ شب‘ پڑھتے وقت میرے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہوا۔ جیسے کتاب کے ورق نہیں کھولے، غلطی سے 40 ہزار فٹ کی بلندی پر اڑتے جیٹ کا دروازہ کھول لیا ہے۔ پھر جو جھکڑ چلے انہوں نے ’گرگِ شب‘ کے بارے میں پہلے سے پڑھی سنی باتیں، محمد خالد اختر اور محمد سلیم الرحمٰن (دونوں پسندیدہ ادیب) کے اسی ناول کے شروع میں دیے گئے دیباچے، اردو ناول کے اسالیب کے بارے میں نظریات، اردو نثر کے امکانات کے بارے تصورات سبھی دماغ کے اندر ادھر ادھر پھڑپھڑانے لگے۔
یہ ناول نہیں ہے، فورس آف نیچر ہے، کوئی وبائے بےدرماں ہے، کوئی کلاؤڈ برسٹ ہے، آتش فشاں کے دہانے سے چھلکتا لاوا ہے جو ہر شے کو لپیٹ میں لے لیتا ہے۔ بلکہ یہ استعارے ناکافی ہیں، ’گرگِ شب‘ کی شدت اور حدت کو اسی کی ایک ڈیوائس کی مدد سے بیان کیا جا سکتا ہے۔ ناول کے مرکز میں چند کابوس ہیں، جو ہر رات اندھیرا پھیلتے ہی مرکزی کردار شفیع کو دبوچ لیتے ہیں اور اسے زندگی گزارنے جوگا نہیں چھوڑتے (ناول کا نام ’گرگِ شب‘ غالباً اسی وجہ سے رکھا گیا ہے)۔ بالکل ایسے ہی یہ ناول بھی ایک کابوس ہے جو قاری کے حواس پر سوار ہو جاتا ہے اور کتاب ختم ہونے کے بہت عرصے بعد بھی اپنے چنگل سے نکلنے نہیں دیتا۔
اکرام اللہ کے اس ناول کا ذکر ادھر ادھر سننے کو ملتا تھا، ساتھ میں یہ بھی حاشیہ بھی کہ اس پر پابندی لگا دی گئی تھی۔ کس واسطے کہ اس کے مواد پر جنس کا غلبہ تھا۔ لیکن اس کے علاوہ نہ تو ’گرگِ شب‘ کا ذکر اردو ناول نگاری پر کسی تنقیدی کتاب میں آتا ہے نہ ہی اکرام اللہ پر کوئی نصف سنجیدہ تنقیدی مضمون پڑھنے کو ملا۔
’گرگِ شب‘ شروع کیا تو ایک نشست کے بعد دوسری نشست کا انتظار کرنا سوہان ہو گیا۔ ختم کر کے کتاب بند کی تو کان بھی ساتھ ہی یوں بند ہو گئے جیسے بم دھماکے کے بعد قوتِ سماعت کچھ دیر کو مختل ہو جاتی ہے۔ جب حواس بحال ہوئے تو اسے اردو ناول کی تاریخ میں الگ کھڑا پایا۔
ہمارے ہاں بڑا بڑا ناول لکھا گیا ہے، تاریخی ناول، سماجی ناول، نفسیاتی ناول، رومانوی ناول، دہشت ناک ناول، فلسفیانہ ناول، وغیرہ۔ لیکن ’نفسیاتی دہشت ناک‘ (psychological horror) ناول کی شاید یہ پہلی مثال ہے۔
لیکن ایسا بھی نہیں کہ ناول صرف نفسیات کی سطح پر تیرتا رہتا ہے۔ اس کی جڑیں اصل زندگی میں بھی دور تک پیوست ہیں، اور شاید یہی وجہ ہے کہ جب ناول اچانک حقیقت سے اٹھ کر نفسیاتی دہشت کی دنیا میں داخل ہوتا ہے اور اس کی کاٹ دونی ہو جاتی ہے۔
مرکزی کردار کے بچپن کے واقعات، سگی اور سوتیلی ماؤں کی آویزش، باپ اور بھائیوں بھابھیوں کے ساتھ مشترکہ گھر میں گزرا بچپن، دوستوں اور حمیدہ نامی لڑکی کے ساتھ اولین رومانس کے چھینٹے، کلب کی بوریت گزیدہ زندگی، اپر کلاس کا کھوکھلا پن اور منافقت، یہ سبھی جھلکیاں حقیقی دنیا کی عکاس ہیں۔ لیکن ان کے دوران دفعتاً، بعض اوقات ایک ہی فقرے کے اندر، ماضی حال میں اور خارج داخل میں گھل جاتا ہے۔ فکشن رائٹنگ کی کلاسوں میں ایسی چیزوں کی حوصلہ شکنی کی جاتی ہے اور ہدایت کی جاتی ہے کہ ہر حصے کو الگ رکھا جائے، مگر اکرام اللہ ایسی کسی ادبی چھوت چھات کے قائل نہیں اور اپنے قلم کے زوم لینس کی ایک ہی جنبش سے فوکس ذات سے بدل کر کائنات پر مرکوز کر لیتے ہیں، اور پھر اتنی ہی سہولت سے واپس زمین کو گرفت میں لے لیتے ہیں۔
لیکن میرے لیے سب سے چونکا دینے والی چیز یہ تھی کہ ناول نے جس نثری اسلوب کو ناول کی کہانی کے اندر بن دیا ہے اس کی کوئی مثال کم از کم اردو میں ڈھونڈے سے نہیں ملتی۔ اردو قاری (اور کم سواد نقاد) اکثر ناول کے اندر منظرکشی ڈھونڈتا رہتا ہے، یہ سوچے بغیر کہ منظر کشی اگر کردار کی نفسیات سے ہم آہنگ نہیں ہے اور پلاٹ کو آگے نہیں بڑھاتی تو اس کی حیثیت ان بھدی آرائشی پٹیوں سے زیادہ نہیں جو کسی تہوار کے موقعے پر سڑک کے کنارے لگے شیشم کے کسی ’ساونت‘ درخت پر لگا دی جاتی ہیں اور ہوا کے تھپیڑوں کے ساتھ بےمقصد پھڑپھڑاتی رہتی ہیں۔
فکشن بنیادی طور پر کردار نگاری کا آرٹ ہے۔ تگڑا کردار تخلیق کر دیں، وہ اگر چھینک بھی مارے تو وہی پلاٹ ہے۔ تگڑا کردار جو اپنے اردگرد دیکھتا ہے، جو محسوس کرتا ہے، وہی منظرکشی ہے۔ منظرکشی کچھ اور نہیں، کردار پر گزری ہوئی واردات ہے۔ ان گھڑ مصنف کہانی کو ڈوبتے سورج، دریا کی اٹکھیلیاں کرتی موجوں، گھاس پر اوس کے قطروں کے بدمزہ شیرے میں لتھیڑ دیتا ہے، کردار کونے میں کھڑا انتظار کرتا رہ جاتا ہے کہ پہلے مصنف صاحب منظرنگاری کا شوق پورا فرما لیں تو آگے بڑھیں۔ اصیل مصنف کردار کی ہڈبیتی کو منظر بنا دیتا ہے۔
یہی کمال اکرام اللہ نے ’گرگِ شب‘ میں کیا ہے۔ یہاں منظرکشی موجود ہے، جس میں ساحلِ سمندر پر سر پٹکتی موجوں، آسمان پر چمکتے تاروں، شہر کی تاریک اور ویران سڑکوں، اور عورت کے عریاں بدن کی ’بدنامِ زمانہ‘ جزئیات تک شامل ہیں (جن کی بنیاد پر کسی بدذوق بابو نے ناول پر پابندی لگا دی، جس کا ذکر بعد میں)۔ مگر یہ بیان کردار کی ذاتی واردات، کہانی کی نفسیات اور وقوعے کے تار و پود کے ساتھ یوں آمیخت ہے کہ ایک کو دوسرے سے الگ کرنا ممکن نہیں۔ ہم نے سوچا کہ اس بات کو کسی مثال سے واضح کریں مگر ناول ہی سے تشبیہ مل گئی: ’وہ مجھ سے ایسے چمٹی ہوئی تھی جیسے میں سمندر میں بہتا ہوا تختہ ہوں اور وہ تباہ شدہ جہاز کی مسافر۔‘
چلیں، ذکر آ ہی گیا ہے تو ’گرگِ شب‘ میں سے منظرکشی کی ایک ماسٹر کلاس دیکھیے:
’سامنے جفتی کی لذت سے کراہتا ہوا سیاہ سمندر اور اسی لذت میں ڈوبی ہوئی مدہوش کالی رات باہم دگر لپٹے ہوئے پڑے تھے۔ آسمان اپنی لاکھوں چمکدار آنکھیں پوری شدت سے پھاڑے حسرت سے دیکھ رہا تھا کہ کاش اگر میں اپنی بلندیوں سے پیچھا چھڑا سکتا تو میرا محبوب آج مجھ سے یوں مایوس ہو کر رقیب سے تسکین کا جویا نہ ہوتا۔‘
یہ وہ موقع ہے جب ناول کا مرکزی کردار شفیع ریحانہ نامی ایک عورت، جو اس کے دوست کی بیوی مگر اس پر ملتفت ہے، کو ساتھ لے کر ساحل پر آیا ہوا ہے، لیکن شفیع کی روح کے بگولے ہمہ وقت اس کے قدم اکھیڑے رہتے ہیں۔ بلا نوشی کی لت، دانستہ بےخوابی اور اپنے گھر سے اندھیروں کو جلاوطن کرنے کی کوشش کے ساتھ ساتھ ریحانہ کی طرف التفات بھی ان بگولوں سے جان چھڑانے کے بہانے ہیں۔ مگر سمندر کے تاریک ساحل پر خودسپردگی سے چور ریحانہ اس سے اتنی ہی دور ہے جتنا آسمان سے سمندر۔ آسمان تو پھر بھی ایک فاصلے پر جا کر سمندر سے ہم آغوش ہو ہی جاتا ہے، مگر شفیع سمندر کے کنارے بھی پیاسے کا پیاسا رہتا ہے۔
’گرگِ شب‘ بیک وقت کئی سطحوں پر چلتا ہے اور یوں تہہ داری اس کے کاغذی پیرہن کے اندر کسی جاپانی اوریگامی کی طرح موجود ہے۔ ایک اور اہم عنصر ابہام ہے، کہ ناول بہت سی چیزوں پر پردہ ڈالے رکھتا ہے، حتیٰ کہ ناول کے مرکزے میں موجود طعنے کے بارے میں بھی آخر تک معلوم نہیں ہوتا کہ اس کی حقیقت کیا ہے اور نہ ہی ناول کو حقیقت معلوم کرنے اور قاری کو ہر شے ’کھول کھول کر بتانے‘ میں کوئی دلچسپی ہے۔ اسے غرض ہے تو بس اس سے کہ یہ نفسیاتی گتھی مرکزی کردار کی شخصیت کو کیسے چرمرا دیتی ہے۔
’گرگِ شب‘ کے بارے میں سوچتے ہوئے منٹو کے افسانے ’ٹھنڈا گوشت‘ کا خیال آنا لازمی ہے۔ ایک تو کہانی کسی حد تک ملتی جلتی ہے، دوسرے دونوں پر فحاشی کے الزام میں پابندی لگی۔ پابندی کا ذکر تھوڑی دیر بعد میں، پہلے مماثلت کا ذکر ہو جائے۔
’ٹھنڈا گوشت‘ میں ناول کا مرکزی کردار ایشر سنگھ تقسیمِ ہند کے دوران پیش آنے والے ایک واقعے کے باعث منجمد ہو جاتا ہے۔ ’گرگِ شب‘ میں ایک طعنے کا گرز مرکزی کردار شفیع کو چاروں شانے چت کر دیتا ہے۔
لیکن ’ٹھنڈا گوشت‘ سیدھا سیدھا افسانہ ہے، اس میں جو کچھ ہے سطح پر ہے۔ فیض نے اس پر چلنے والے فحاشی کے مقدمے کے دوران عدالت میں کہا تھا کہ ’اس افسانے میں مصنف نے فحش نگاری نہیں کی لیکن ادب کے اعلیٰ تقاضوں کو بھی پورا نہیں کیا۔ کیونکہ اس میں زندگی کے بنیادی مسائل کا تسلی بخش تجزیہ نہیں۔‘
’زندگی کے بنیادی مسائل کے تجزیہ‘ تو شاید ترقی پسند چورن بیچنے سے ’تسلی بخش‘ طریقے ہو جاتا، البتہ اس میں منٹو کا افسانہ یقیناً حلال ہو جاتا، اس لیے افسانہ یک رخا ہی سہی مگر موضوع کے تیکھے پن، مکالموں کی تیز دھار اور تکنیک کی چابک دستی کی وجہ سے پڑھنے والے کی یاد کے پردے پر نقش ہو جاتا ہے۔ کم ہی کوئی فراموش کار قاری ہو گا جس نے یہ افسانہ پڑھا ہو اور اسے بھول گیا ہو۔
’گرگِ شب‘ پر فحاشی کے الزام میں پابندی ضرور لگی، مگر مقدمہ نہیں چلا۔ اس کی وجہ مصنف نے راقم کو یہ بتائی کہ منٹو اور عصمت وغیرہ پر انگریزی دور کے قوانین کے تحت مقدمے چلائے گئے تھے، مگر بعد میں مملکتِ خداداد میں یہ قوانین بدل دیے گئے، اور اب حکومت مصنف کو اٹھوانے کی بجائے صرف کتاب اٹھانے پر اکتفا کرتی ہے (البتہ صحافیوں کے لیے یہ سہولت حسبِ سابق اور حسبِ ضرورت اب بھی جوں کی توں موجود ہے)۔
’ٹھنڈا گوشت‘ پر چلنے والے مقدمے کی کارروائی کے دوران یہ نکتہ بارہا زیرِ بحث آیا کہ فحش اور مخرب الاخلاق کیا ہے، مگر کوئی تسلی بخش تعریف سامنے نہ آ سکی۔ یہ تو خیر ہمارے ملک کی ایک عام سی عدالت تھی، 1964 میں خود انکل سام کی سپریم کورٹ کے سامنے بھی فحش کی تعریف کا معاملہ پیش ہوا تھا، تس پر ایک جج پاٹر سٹیورٹ نے زچ ہو کر کہا تھا، “I know it when I see it.” انگریزی زبان میں یہ فقرہ اب محاورے کا درجہ اختیار کر گیا ہے۔
اس معاملے پر خود گھوڑے کے منہ سے بھی سن لیجیے: منٹو ایک مضمون میں لکھتے ہیں، ’افسانہ ٹھنڈا گوشت پڑھ کر اگر کسی صاحب کے جذبات برانگیختہ ہوں تو انہیں کسی ذہنی معالج سے رجوع کرنا چاہیے۔۔۔ ایک بیمار ذہن ہی ایسا غلط اثر لے سکتا ہے۔ جو لوگ روحانی، ذہنی اور جسمانی لحاظ سے تندرست ہیں، اصل میں انہی کے لیے شاعر شعر کہتا ہے، افسانہ نگار افسانہ لکھتا ہے اور مصور تصویر بناتا ہے۔ میرے افسانے تندرست اور صحت مند لوگوں کے لیے ہیں۔‘
ایسے ہی ایک تندرست صاحب اور استغاثے کے گواہ ایم ڈی تاثیر (پنجاب کے مقتول گورنر سلمان تاثیر کے والد) نے جرح کے دوران ایک دلچسپ بات کہی۔ انہوں نے کہا کہ اس افسانے کو پڑھ کر جنسی کراہت تو محسوس ہو سکتی ہے، جنسی ترغیب نہیں۔
یہ بات ’گرگِ شب‘ پر بھی صادق آتی ہے کہ اس ناول کی دنیا میں جنس کو پہلے تو ایک گھناؤنی سماجی چال کے طور پر برتا جاتا ہے، جو آگے چل کے ایک لایعنی حیاتیاتی ذمہ داری بن جاتی ہے۔
اکرام اللہ صاحب مقدمے سے بچ گئے، لیکن اگر مقدمہ چلتا، اور فیض صاحب بھی موجود ہوتے (کتاب 1979 میں، یعنی ضیاء الحق کے دور میں چھپی اور اٹھوائی گئی تھی اور فیض صاحب اس وقت یقیناً موجود تھے) تو شاید وہی رائے دیتے کیوں کہ ناول میں سماجی مسائل کا ’تسلی بخش‘ تو کیا ’مولابخش‘ تجزیہ بھی نہیں ہے، لیکن اگر روح کی تاریک ترین گہرائیوں کی گنجل گتھیوں کو روشنی میں لے آنا اور ایسا کرتے ہوئے اردو نثر کے امکانات کو پوری طرح سے نچوڑ کر رکھ دینا کوئی آرٹ ہے تو اس سے ناول یوں لبالب ہے جیسے۔۔۔ تشبیہ کے لیے ناول ہی پڑھ لیجیے۔