تاریخ بدل گئی مگر 9جون 2023کی شام اپنی فکری اور حسی روشنیوں کے ساتھ وجود میں اتر آئی۔میں نے دہلی میں بہت سی ادبی محفلیں دیکھی ہیں مگر ”نئے نقاد کے نام خطوط“پر مذاکر ہ بہت مختلف تھا۔مختلف ہونے کی دو بڑی وجہیں ہیں۔پہلی وجہ تو کتاب ہے۔جس کے فکری اور نظریاتی مسائل بہت پھیلے ہوئے ہیں۔اس پھلاؤ میں مشرق ومغرب کے بعض اہم متون اور افکار نے حصہ لیاہے۔یہ وہ حصہ داری ہے جو خود ناصرعباس نیر کی ذمہ داری، ذہانت اور مطالعے کی وسعت کاپتہ دیتی ہے۔دوسری وجہ مقررین کی خطوط سے آشنائی ہے۔اس آشنائی کے بغیر ادبی مذاکرہ رسمی اور رواجی بن جاتاہے۔چند باتوں پر تمام مقررین کااتفاق تھالیکن کچھ ایسے حقائق بھی سامنے آئے جو کتاب کی فکری دنیاکی وسعت کی جانب اشارہ کرتے ہیں۔مذاکرے کی تیاری کے لیے زیادہ وقت بھی نہیں ملا۔لیکن جو وقت ملاوہ بہت سے گزرے ہوئے وقت یاآنے والے دنوں میں وقت کی فراوانی کو آئینہ دکھاتارہے گا۔شاعری اور فکشن کی کتاب پر مذاکرہ عموما، معمول کاحصہ ہے۔لوگ فراخ دلی اور ذہنی کشادگی کااظہار کرتے ہیں۔کسی تنقیدی کتاب کو اس طرح پڑھنااور اس پر ساڑھے تین گھنٹے تک گفتگو کاجاری رہناایک واقعہ ہے۔
خطوط لاہور میں لکھے گئے اور وہ فوراپوسٹ نہیں کیے جاسکے۔کوئی لفاف ہوتااس پر پتہ درج ہوتا۔جوخط پوسٹ نہیں کیے جاسکے یاجن پر ڈاک خانے کی مہر نہیں لگی۔ان کاہماری تہذیبی اور علمی دنیاپر گہرااثر ہوا۔کل مجھے محسوس ہواکہ لاہور سے لکھے گئے خطوط دہلی بھی آگئے اور ان کے آنے کاایک وقت بھی مقرر تھا۔انہیں سرحد بھی عبور کرناتھااور اپنے ساتھ ان خوشبوؤں کوبھی ساتھ لاناتھاجن سے ہماری علمی اور تہذیبی دنیاکچھ برسوں سے محروم ہے۔پھر بھی خوشبوؤں کو کون روک سکتاہے۔یہ خیال بھی آتارہاکہ ”نئے نقاد کے نام خطوط“کی معنویت کا ان سطحوں پرروشن ہونادہلی کی ایک شام کے ساتھ قدرت نے مخصوص کر دیاتھا۔
کل دہلی کاموسم بہت سخت تھا۔جامعہ سے غالب انسٹی ٹیوٹ کے لیے جب روانہ ہواتودھوپ کارنگ سیاہ تھا۔نئے نقاد کے نام خطوط کی جلد بھی سیاہ ہے۔جس دن مجھے کتاب ملی تھی وہ دن ابر آلود تھا۔اس دن کی سیاہی ابر کی وجہ سے تھی۔کل کی سیاہی کاسبب دھوپ کی شدت تھی۔دھوپ کو سیاہ کہنے یامائل بہ سیاہ سمجھنے کی روایت کب سے شروع ہوئی معلوم نہیں۔انیس کاشعر توزبانوں پرہے۔
وہ لو وہ آفتاب کی حدت وہ تاب وتب
کالاتھارنگ دھوپ سے دن کامثال شب
یہ شعر باہر کی دنیاکایوں تو پتہ دیتاہے مگر اس کارخ داخل کی طرف بھی ہے۔نئے نقاد کے نام خطوط کامتن فکر واحساس کی سطح پر جن کیفیات کاحامل ہے اس کی شدت اور حرارت کومحسوس کرنے کے لیے ذمہ دارانہ قرأت کی ضرورت ہے۔شاید آپ کویقین آئے گاکہ ایک دھوپ جو باہر تھی اور جس کی شدت نے انسانی وجود کو جھلسادیاتھا، ایک اور دھوپ نئے نقاد کے نام خطوط میں موجود تھی۔بظاہر کاغذ تو جھلس نہیں رہاتھا لیکن اس کی قرأت ہر اس قاری کو جلنے اور جھلسنے کااحساس دلاتی ہے جو ذہنی طور پر تعصب سے خالی ہےاور جس کی نظر میں علم واحساس کی طاقت ادبی دنیاکی سب سے بڑی طاقت ہے۔کل اختر شیرانی کاشعریادآتارہا۔
مری جانب سے کہہ دیناصبالاہور والوں کو
کہ اس موسم میں دہلی کی ہواکچھ اور کہتی ہے
مذاکرے میں ابھی چند منٹوں کی تاخیر تھی مگر جامعہ سے غالب انسٹی ٹیوٹ کے لیے روانہ ہوتے ہوئے بہت سے خیالات نے گھیر لیاتھا۔چند کتابیں اور شخصیات یاد آئیں۔انتظار حسین کاخیال آیا۔عبداللہ حسین کاخیال آیا۔قرۃ العین حیدر اور بلراج مین رایاد آئے۔سریندر پرکاش،انورعظیم، اسلم پرویز اور شمیم حنفی صاحب کاخیال آیا۔کس کس کے نام لوں ایک کہکشاں تھی جو غالب انسٹی ٹیوٹ کے ادبی جلسوں میں دکھائی دیتی۔یہ وقت ہے اور شاید وقت ہی ہے۔ایک تاریخی شام کی طرف ہم بڑھ رہے تھے اور نگاہیں ان شخصیات کو دیکھناچاہتی تھیں۔نئے نقاد کے نام خطوط کے موضوعات اور مسائل اتنے پھیلے ہوئے ہیں کہ اردو کی تمام اہم بڑی شخصیات کاخیال آتاہے۔یہ کہناشاید غلط نہ ہو کہ ان خطوط میں اس عہد کی اہم شخصیات کی کتابوں کے مطالعہ نے خاموشی کے ساتھ اپناایک کردا ر اداکیاہے۔یہ خطوط اس بات کابھی پتہ دیتے ہیں کہ ہمارے یہاں تنقید کیسی لکھی گئی۔خود نقاد نے اپنے اسلوب سے تنقید کو کتنافائدہ یانقصان پہنچایا۔تنقید سے بیزاری کاسبب تنقید نہیں بلکہ نقاد ہیں۔دوسری اصناف کی طرح ہم تنقید کو بھی اچھی اور خراب تنقید کہہ سکتے ہیں۔بذات خود تنقید خراب کیسے ہو سکتی ہے۔ناصر عباس کے خیالات ان خطوط کی شکل میں جس علمی اور مکالماتی ٹھہراؤ کاپتہ دیتے ہیں اسے بھی واقعہ کے طور پر دیکھناچاہیے۔ وہ کہیں بھی مشتعل نہیں ہوتے۔ان کے پیش نظرکوئی ایساچہرانہیں ہوتاجو اشتعال کاسبب بنے۔کہیں بھی اپنی بات کو منوانے اور حتمی سمجھنے کارویہ نہیں ہے۔افہام وتفہیم کی اتنی صورتیں اسی کسی کتاب میں اس سطح پر دکھائی نہیں دیتیں۔دہلی کی ہواکچھ اور کہتی ہے اس کو دیکھنے اور سمجھنے کے لیے ابھی تھوڑااور وقت درکار تھا۔اسی درمیان استاذ محترم پروفیسر صدیق الرحمن قدوائی آگئے۔تھوڑ ی دیر بعد جلسے کاآغاز ہو گیا۔ ڈاکٹر ادریس احمد سے میں نے کہااس جلسے کی نظامت نوجوان اسکالر فیضان الحق کو کرنی چاہیے۔کہنے لگے کتاب بھی اسی بات کاتقاضاکرتی ہے۔ابتدا میں ڈاکٹر ادریس احمد نے ایک مختصر سی تحریر پیش کی جو استقبالیہ تھی اور اسی کے ساتھ کتاب کامختصر تعارف بھی شامل تھا۔فیضان الحق سے کہاگیاکہ کتاب بطور خاص آپ لوگوں کے لیے لکھی گئی ہے۔بلکہ یہ بات نوشاد منظر،عبد السمیع او ر محضر رضاسے بھی کہی گئی کہ آپ جس طرح چاہیں اپنے خیالات کااظہار کریں۔فیضان الحق نے نظامت کے دوران کتاب کے بارے میں اظہار خیال کیا۔ڈاکٹر امتیاز علیمی نے کتاب سے دواقتباسات پڑھ کر سنائے۔ان اقتباسات کی قرأت اس بات کی علامت تھی کہ مذاکرے کے مرکز میں کتاب کامتن ہے۔ ڈاکٹر نوشاد منظر سے باضابطہ مذاکرے کاآغاز ہوا۔نوشاد منظرنے تقریر نہیں کی بلکہ ان کے پیش نظرتحریر تھی لہذایہ مختصر سی تحریر نوجوان اسکالر کی ذمہ داری کاپتہ دے رہی تھی۔ڈاکٹر عبد السمیع نے بھی باضابطہ مقالہ پڑھا۔انہوں نے اس بات پر زور دیاکہ ان خطوط کو ناصر عباس نیرکی دوسری کتابوں اور تحریروں کو پڑھے بغیربہتر طور پر نہیں سمجھاجاسکتا۔ڈاکٹر محضر رضا نے زبانی گفتگو کی اور قاری کی حیثیت سے جس طرح کتاب کو دیکھااور جن نکات کی جانب اشارے کیے وہ بھی اس تاریخی شام کااہم ترین حوالہ ہیں۔ڈاکٹر معید الرحمن نے بھی مقالہ پڑھابعض اصطلاحوں کی روشنی میں ناصر عباس نیر کے خطوط کو نہ صرف دیکھابلکہ ان کاتجزیہ بھی کیا۔ڈاکٹر معراج رعناکے سامنے کچھ نوٹس تھے مگر انہوں نے گفتگو کی۔ان کی گفتگو کاتناظر خاصا پھیلاہواتھا۔انہوں نے خطوط کی اصل ساخت تک پہنچنے کی کوشش کی اور گفتگو کادائرہ خاصاپھیلادیا۔مجھے بھی اظہار خیال کے لیے بلایاگیاشاید میں نے کچھ زیادہ وقت لیا۔ایسامیراخیال ہے۔میرے سامنے کتاب تھی اور وہ شخصیات اور اذہان جن کی موجودگی اس قدر حوصلہ افزاتھی۔اب یاد نہیں کہ گفتگو کاآغاز کس طرح کیاتھااور کیاکیاباتیں ذہن میں آتی رہیں۔بس اتنایاد ہے کہ تنقید سے بیزاری کے اسباب پر ناصر عباس نیر کے ایک خط کی روشنی میں کچھ کہاتھا۔اور مظفر علی سید کے ایک مضمون کاذکر آگیا۔تنقید ہماری کس ضرورت کوپورا کرتی ہے۔1955میں یہ مضمون شائع ہواتھا۔انہیں بھی شکایت تھی کہ ادبی معاشرہ تنقید سے بیزار ہے۔ناصر عباس نیر نے کئی خطوط میں تنقید کے فرائض پر روشنی ڈالی ہے۔انہیں پڑھ کر کوئی بھی سنجیدہ قاری تنقید کو ایک ادبی سرگرمی کے طورپر دیکھ سکتاہے۔میں نے یہ بھی کہاتھاکہ وہی لوگ تنقیدی اصطلاحوں اور تنقید کے نظریاتی پہلوؤں سے گھبراتے ہیں جنہیں ادب کی دنیامیں ذہنی طور پر محفوظ مقام حاصل ہے۔آسودہ ذہن ہونابہت بڑی دولت ہے۔مگر یہ کیسی آسودگی ہے جو علمیاتی پہلو سے خوف کھاتی ہے۔میں نے فراق کاشعر بھی سنایاتھااس حوالے کے ساتھ کہ شمیم حنفی صاحب اس کاذکر بہت کرتے تھے۔
مٹاہے کوئی عقیدہ توخون تھوکاہے
نئے خیال کی تکلیف اٹھی ہے مشکل سے
نئے نقاد کے نام خطوط میں خیال نیاہے یاپرانااس کی تصدیق کرنے کے بجائے اولایہ سوچناچاہیے کہ خط لکھنے والے نے فکروخیال کی سطح پر کتنابوجھ اٹھایاہے۔اس نے کتناسوچاہے۔کئی دہائیوں کے مطالعہ کو مکالماتی انداز میں ڈھالنے کے لیے کتنی مشقت کی ہوگی۔کتنی راتیں اس نے سیاہ کی ہوں گی۔سب سے بڑی بات یہ ہے کہ تنقید اور تخلیق کے رشتے کی وضاحت کے لیے اس نے کتنی مثالیں جمع کی ہیں۔مثالوں کو کس طرح نظریاتی مباحث کے ساتھ رکھابھی ہے اور انہیں الگ بھی کیاہے۔مثالوں میں مشرق اور مغرب کو ایک دوسرے کے ساتھ اس طرح پیش کیاہے کہ جیسے یہ گلے مل رہے ہوں۔میں نے یہ بھی کہاتھاکہ جن خطوط کی کتابوں کے حوالے دیے جارہے ہیں وہ بہت اہم ہیں لیکن نئے نقاد کے نام خطوط کاتناظر خاصاپھیلاہواہے۔لہذامثالیں ضرور دیجیے لیکن یہ بھی دیکھیے کہ اس کتاب کی رینج کیاہے۔اس جلسے میں پروفیسر خالد جاوید نے مقالہ پیش کیا۔ان کی موجودگی یوں بھی اہم تھی اور ان کی تحریر اور تقریر نے کتاب کے ورلڈ ویو کی نشان دہی میں بہت کردار اداکیا۔وہ ہمارے عہد کے بہت اہم اور منفرد تخلیق کار ہیں۔ان کی گفتگو یہ بتاتی ہے کہ تخلیق کار ہونے کامطلب دنیاکی اچھی اور بڑی علمی اور تخلیقی کتابوں سے غافل ہو جانانہیں ہے۔اور یہ کہ کسی تخلیق کار کے فکر وخیال کی وسعت میں اس کے مطالعے کی وسعت کابھی اہم حصہ ہوتاہے۔پروفیسر عاصم صدیقی جن کاتعلق انگریزی ادب سے ہے،انہوں نے بھی دنیاکی چند اچھی تحریروں کی روشنی میں ناصر عباس نیر کی کتاب کو دیکھا۔ان کی یہ بات بھی توجہ طلب تھی کہ ناصر عباس نیر ادبی سرگرمیوں کو طاقت کے سیاق میں دیکھتے ہیں۔طاقت قوت کابدل بھی بن جاتی ہے۔ان کایہ بھی خیال تھاکہ بعض تحریرں جن ذکر بہت ہوتاہے،انہیں پڑھیے تو مایوسی ہوتی ہے۔تو سوال یہ ہے کہ ہم کیوں نہ اپنی اس مایوسی کااظہار کریں۔ناصر عباس نیر کی کتاب تنقید کے مختلف درجات اور اس کی منزلوں کی جانب اشارہ کرتی ہے۔لیکن تنقید کاایک جو آئیڈیل تصور ہے وہ دھیرے دھیرے اس کی طرف اپنے قارئین کو لے آتے ہیں۔ فیضان الحق نے صدارتی تقریر سے پہلے پروفیسر شافع قدوائی صاحب کو دعوت دی اور ان کے بارے میں بجاطور پر یہ کہاکہ نئے تصور لسان اور نئے تصور معانی پر ان کی گہری نظرہے۔شافع قدوائی صاحب نے نئے نقاد کے نام خطوط کو تنقید کاایک ایسازاویہ قرار دیاجو مختلف زاویوں سے گزر کر اپنی معنویت پر اصرار کرتا ہے۔اس ضمن میں انہوں نے کچھ اور کتابوں کاحوالہ دیا۔ان کاخیال تھاکہ اگر لکھنے والے کافکری تناظر بڑانہ ہوتو تحریر بھی سمٹ جاتی ہے۔ناصر عباس نیر کامطالعہ بہت وسیع ہے اور اس وسعت کو ان خطوط میں دیکھاجاسکتاہے۔کتاب کے مصنف ناصر عباس نیر نے مذاکرے میں آن لائن شرکت کی۔ان سے بھی اظہار خیال کی درخواست کی گئی۔ناصر عباس نیر نے اس موقع پر کتاب کے وجود میں آنے اور کتاب پر ہونے والی گفتگوؤں کے تعلق سے بہت فکر انگیز گفتگو کی۔انہیں دیکھ کر اور سن کر کتاب اور صاحب کتاب کی موجودگی کاایک دوسرااحساس ہوا۔ پروفیسر صدیق الرحمن قدوائی نوے سال کے ہیں۔ان کی دلچسپی کایہ عالم تھاکہ پروگرام میں شروع سے آخرتک موجود رہے۔انہوں نے صدارتی تقریر میں اس بات پر زوردیاکہ ہم کسی بھی لمحے بیزار نہیں ہوئے۔کسی تنقیدی کتاب کے بارے میں اتناطویل مذاکرہ اور ایسی دلچسپی ایک واقعہ ہے۔ناصر عباس نیر کئی بار یہاں آچکے ہیں۔حالات بہتر ہوں توانہیں پھر بلائیں۔اس کتاب نے ہماری علمی اور تہذیبی زندگی کو بڑی معنویت بخشی ہے اور ہم اس کتاب کی وجہ سے آج یہاں جمع ہوگئے۔
10/06/2023
دہلی کی ایک شام
یہ تحریر 587 مرتبہ دیکھی گئی
