شام و سحر کے ساتھ بھی چلیے شام و سحر سے آگے بھی
(عظیم آباد سے گزرتے ہوئے)
عظیم آباد سے گزرتے ہوئے اور عظیم آباد سے نکلتے ہوئے محسوس ہوتا ہے کہ جیسے راستہ ٹھہر گیا ہے یا قدموں کے تلے کوئی شے ہے جو آگے بڑھنے نہیں دیتی۔ یہ احساس پہلے اتنا شدید نہیں تھا جب کہ اس شہر میں کلیم عاجز، لطف الرحمن، شفیع جاوید، وہاب اشرفی اور سلطان اختر موجود تھے۔ احساس کی نئی نئی دنیا ان دنیاو¿ں کے رخصت ہوجانے کا نتیجہ ہے جو ان شخصیات نے بنائی تھیں۔ شاید شدت احساس کا سفر غیاب کے احساس سے شروع ہوتا ہے۔ نہ وقت ٹھہرا ہے اور نہ راستہ ٹھہرا ہوا ہے، وقت اور راستہ میرے لیے بھی ٹھہرا ہوا کہاں ہے وہ تو بھاگتا جاتا ہے اور میں ہوں گزرے ہوئے وقت کو گزرتے ہوئے لمحات میں تلاش کررہا ہوں یا ان لمحات میں گزرے ہوئے وقت کو شامل کرنا چاہتا ہوں۔ وقت کی رفتار اتنی تیز بھی شاید نہیں ہے کہ یہ کہا جائے:
وہی گلشن ہے لیکن وقت کی رفتار تو دیکھو
کوئی طائر نہیں پچھلے برس کے آشیانوں میں
’آگے سمندر ہے‘ کے پہلے صفحے پر یہ شعر تاریخ کے جس سیلاب یا بہاو¿ کی جانب اشارا کرتا ہے اس کی زد میں یہ علاقہ بھی آیا تھا اور ’آگے سمندر ہے‘ کی معاشرتی زندگی میں یہاں کی آبادی بھی شریک تھی، یہ بھی تاریخ کا عجیب کرشمہ ہے۔ یہ باتیں قلم بند کررہا ہوں اور محمود الحسن صاحب کی ایک پوسٹ نگاہ کے سامنے ہے جس میں ’صورتحال‘ سید علی محمد شاد عظیم آبادی، مرتبہ: محمد نعیم کا سرورق ہے۔ کتاب محمد سلیم الرحمن کے نام معنون کی گئی ہے۔ تو عظیم نے کچھ اس طرح بھی گھیرا ہوا ہے۔ یہ تو نہیں کہہ سکتا ہے کہ شاد کا وقت ہمارے وقت کے ساتھ ہوگیا ہے۔ ناصر کاظمی کو تو اندوہ ناک واقعہ کی وجہ سے اپنے اور میر کے زمانے کی رات کا خیال آیا تھا اور ان کی نگاہ میں قافلے کے قافلے اس رات میں گم ہوگئے تھے، شاد نے میر کے بارے میں کچھ لکھا نہیں بلکہ غالب کے بارے میں بھی کچھ نہیں لکھا۔ اپنی کتاب ’یادگار وطن‘ میں البتہ لکھنو¿ میں راسخ عظیم آبادی کی میر سے ملاقات کا ذکر کیا ہے۔ شاد نے’صورة الخیال‘ کے نام سے ناول لکھا اور وہ خود کو اردو کا پہلا ناول نگار سمجھتے تھے۔ آصف فرخی کی خواہش تھی کہ صورة الخیال کی نئی اشاعت عمل میں آنی چاہیے۔ آصف فرخی کا لاجواب مضمون ’حیرتی ہے آئینہ‘ اس سلسلے میں دیکھا جاسکتا ہے۔ محمود الحسن صاحب کے پوسٹ نے وقت کے ٹھہرے ہوئے احساس کو کچھ رواں کردیا ہے یا ٹھہرے ہوئے وقت کو مزید کچھ وقت کے لیے میرے لیے محاسبے کا عمل بنا دیا ہے۔
میں اس وقت جہاں سے گزر رہا ہوں، اختر اورینوی کی بستی اڑین زیادہ دور نہیں ہے۔ جتنی خوبصورت شخصیت اختر اورینوی کی تھی اتنا ہی خوبصورت خاکہ شمیم حنفی نے لکھا۔ شمیم حنفی الہ آباد یونیورسٹی میں جب بی اے کے طالب علم تھے، ان کی پہلی ملاقات اختر اورینوی سے ہوئی۔ شمیم صاحب کی درخواست پر وہ ان کے ہاسٹل آئے تھے۔ شمیم حنفی صاحب اس واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے یہ بھی کہتے کہ میں اس وقت بی اے کا طالب علم تھا میری درخواست پر اختر صاحب ہاسٹل آگئے۔ سراج عظیم آباد کی طرف سے اور اڑین مجھ سے دور ہوتا جارہا ہے۔ مگر جس ٹرین سے میرا سفر جاری ہے وہ اڑین کے قریب سے ہوکر گزرتی ہے اور پٹنہ کی طرف آتی ہے۔ 2011 میں اختر اورینوی کی چار کہانیوں کا تجزیہ کیا تھا۔ 1911 میں وہ پیدا ہوئے تھے۔ کہانیوں کی یہ قرا¿ت ابتدائی تھی اور آج بھی قرا¿ت کی وہ ابتدا، ابتدا ہی معلوم ہوتی ہے۔ بلراج مین را ان کا ذکر بہت محبت سے کرتے تھے، ان کی رائے تھی اردو کہانی میں ’ہاسپٹل‘ کی زندگی پہلی مرتبہ داخل ہوئی۔
میں نے کچھ اور سوچا تھا اور کسی اور علاقے کی طرف نکل آیا۔ ٹرین اڑین کی طرف سے آئی تھی اور میرا رخ عظیم آباد کی طرف تھا۔ معلوم نہیں کیوں اس جاری و ساری سفر کو ’ہے‘ کے بجائے تھا لکھ رہا ہوں کہ ’ہے‘ کو ’تھا‘ بننے میں وقت بھی کہاں لگتا ہے۔ جسے ہم ’ہے‘ سمجھتے ہیں وہ ’تھا‘ ہی ہوتا ہے۔ ٹرین پر سوار ہونے سے پہلے جس زمین نے پاو¿ں کو روک لیا تھا یاقدم اپنی رفتار سے آگے نہیں بڑھ رہے تھے، وہ گزرے ہوئے وقت کا کوئی لمحہ تھا، گزرے ہوئے وقت کا کوئی لمحہ صدی یا نصف صدی سے نکل آتا ہے یا محض چند برسوں سے۔ ماضی قریب کے جس وقت سے ہمیں قربت محسوس ہوتی ہے وہ ماضی بعید کا بھی ہوسکتا ہے۔ گذشتہ سفر میں بیدل عظیم آبادی کا مدرسہ، مدرسہ بیدل کی سرزمین پر حاضر ہوا تھا، باقیات میں صرف زمین باقی ہے اور اس سے متصل مسجد ہے اور ایک حوض، حوض سوکھا پڑاہے، دو آبے کی طرح میر نے کس کیفیت میں شعر کہا ہوگا:
وہ دن گئے کہ آنکھیں دریا سی بہتیاں تھیں
سوکھا پڑا ہے اب تو مدت سے یہ دو آبا
کہاں آنکھوں کو دو آبا کہتے ہوئے اس کی خشکی اور کہاں حوض کا سوکھا پڑا ہونا، مگر اسے تاریخی حوض کو دیکھتے ہوئے خشک آنکھوں کا خیال نہ آتا توکیا آتا۔ حوض کی شکل پہلی نظر میں آنکھیں جیسی تھیں اور اس میں اتنا کوڑا کرکٹ جمع تھا جیسے آنکھوں کو لہولہان کردیا گیا ہو۔
ٹھہرے ہوئے وقت کو کس نے ٹھیک سے دیکھا اور پہچانا ہے۔ ایک پل میں ایک صدی کے گزرنے کا احساس بھی دراصل ٹھہرے ہوئے وقت کی طرف سفر کرتا ہے یا تیز تر گزرتا ہوا وقت دراصل ٹھہرا ہوا وقت ہوتا ہے جو ہمیں اپنا وقت معلوم ہوتا ہے۔
عظیم آباد اب دھیرے دھیرے پیچھے چھوٹتا جارہاہے اور زمین پر بچھی پٹری ٹرین کو وقت کے گزرنے یا وقت کے پیچھے چھوٹ جانے کا مفہوم سمجھا جارہا ہے۔ مگر ٹرین کو دیکھنے اور اس پر سوار ہونے والے ہر لمحہ پٹری کے ٹوٹتے او رلہولہان ہوتے ہوئے کلیجے کو کہاں محسوس کرتے اور دیکھتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ لوہے سے وہ چنگاری بھی کہاں نکلتی ہوئی دکھاتی ہے جو پتھر میں پوشیدہ ہوتی ہے۔ لوہے کے لیے ہمارے دل میں کوئی نرم گوشہ نہیں ہے۔ بچپن میں ایک مرتبہ ٹرین کے گزر جانے کے بعد کان کو پٹری سے لگا دیا تھاآج بھی وہ آواز کان میںآتی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔ اس آواز میں بھی کوئی وقت تھا جو میرا تھا اور وہ کسی اور صورت میں آج بھی میرے ساتھ ہے:
وقت کے در پہ بھی ہے بہت کچھ وقت کے در سے آگے بھی
شام و سحر کے ساتھ بھی چلیے شام و سحر سے آگے بھی
کلیم عاجز
عظیم آباد سے گزرتے ہوئے
١٢ مارچ ٢٠٢٣ء