کوتاہیاں

یہ تحریر 439 مرتبہ دیکھی گئی

اپنی کوتاہیوں میں ملبوس ہم اِدھر اُدھر تکتے ہیں۔ روشنیاں اور سایے آس پاس گردش کرتے ہیں۔ ایک زندگی کا خیال جو ہم نے گزاری بھی نہیں اور گزار بھی چکے۔ شاید جو دیکھا اسے سمجھا نہیں، جو سمجھا اسے کبھی دیکھ نہیں سکے۔ اَدھوری محبّتوں اور اَدھوری محنتوں کا حاصل کیا؟ ایک بے ثمر زندگی جو دیوار کی طرح ساتھ ساتھ چلتی ہے۔ دن رات کے ردّوں پر ردّے جن میں کہیں کسی دروازے، دریچے، دراڑ، رخنے کے آثار نہیں۔ گزرا ہوا وقت اُس طرف ہے جدھر ہم نہیں۔ آنے والا وقت اُس طرف ہے جدھر تم نہیں۔ راستہ سمجھنے میں کوئی بھول، موڑ مُڑنے میں کوئی چُوک، بالآخرہمیں تنہا کر دیتی ہے۔ جس راستے پر چلتے چلتے قدم قدم پر اپنی بے معنویت سے دوچار ہوتے ہیں وہاں روکنے ٹوکنے والا کوئی نہیں۔ زمین گول ہے یا چوکور، کائنات کا مرکز ہے یا کبریائی بے کرانی میں ایک ذرّہ؟ ہم زمین کا مرکز ہیں یا ہزاروں آئی گئی نسلوں میں درجہ بدرجہ بلند تَریا پست تَر ہوتا نُطفہ؟ بس اتنا جانتے ہیں کہ ہم نے زمین سے سرسبز مکالمے کا موقع گنوا دیا اور دھبّوں کی طرح پھیلتی کوتاہیوں کے بعد بھوک پیاس کا لباس پہننے کے لیے خود کو تیار کر رہے ہیں۔ ایک آخری عروسی، جس کے حُجلے میں گھونگھٹ کی اَوٹ میں ڈھانچ کے سوا کچھ نہیں!
۲۰۱۵ء