کربلا کی چار دیواری میں

یہ تحریر 2437 مرتبہ دیکھی گئی

کربلا کی چار دیواری میں آیات بکهری ہوئی ہیں
جو ازل اور ابد کے نقش بناتے ہوئے
دل پر دستک دے رہی ہیں
محرم کی چمک شہروں میں پهیل رہی ہے
دن یا حسین کی پکار کے ساته کون ومکاں کی دہلیز پار کر رہے ہیں
میں زمین کے خیمےمیں درد کی چادر اوڑه کر
کسی اسیر کی طرح نکلا ہوا ہوں
میں نے صحرا میں فرات کی طرح بہتے ہوئے
پیاس کے تسلسل کے مظاہر دیکهے
لفظوں کے بیابانوں میں آنکهیں بوئیں
تقدیر کے بکهرے ہوئے تاروپود سائبان بن کر پهیل گئے
میں کوفہ و بغداد کی گلیوں میں حسین کے لشکر کے ساته
لا الہ الا اللہ کے ورق پڑهتا ہوں
اور فرات کے کنارے جاتا ہوں
اے کربلا ! نامختتم صحرا میں دن گزرتے جا ریے ہیں
میں تیری ریت سے لب تر کرتا ہوں
آنکهوں میں شہیدوں کے لہو سے چراغاں ہے
میں تیرے نئے آثار پا کر سجدہ کرتا ہوں
لب التجا کی نمی میں ڈوبے ہوئے ہیں!