غزل

یہ تحریر 2428 مرتبہ دیکھی گئی

محمد مصطفیٰ حسین بسمل لکھنوی (1893_1957)

بتائیں جو یہ کہتے ہیں خدا کیا
اُنھیں کا خود وجودِ خود نما کیا
سحر کے وقت تارے کی ضیا کیا
چراغِ زندگی بجھتا ہوا کیا
ملے جو کچھ ہمیں دستِ کرم سے
غنیمت ہے وہی کم کیا سوا کیا
نشیمن ہے الٰہی یا قفس یہ
بنانا چاہتے تھے کیا بنا کیا
تماشا ہے چراغِ زندگانی
سرِ محفل جلا کیا اور بجھا کیا
گرفتارانِ دنیا خاک سمجھیں
کہ ہے ناکامیوں کا مدعا کیا
جب اپنی زندگی ہے چند روزہ
تو پھر یہ درد کیا اس کی دوا کیا
پڑی کیوں کر بنائے بے ثباتی
ازل کے روز آخر یہ ہوا کیا
دلِ بسمل پہ گزری کیا لحد میں
عزیزانِ جہاں سے واسطہ کیا