نزولِ عجز سے پہلے ، حصولِ خاک سے پہلے،
ملے گا کیا ہمیں ، دیکھیں ، خیالی قید خانوں میں
یہاں تدبیر کے نہلوں پہ ہیں تقدیر کے دہلے
کوئی کھڑکی نہیں کھلتی وباؤں کے فسانوں میں
بہت سے جال ہیں ، صیاد بھی آسیب ہے گویا
ہمارا جاگنا صحرا ، ہماری نیند ویرانہ
لہو کے گھونٹ پی کر آنسوؤں سے منھ کو ہے دھویا۔
پڑا ہے عمر کے ہر غم کو سو سو بار دہرانا۔
نئے دار و رسن سے ہے فضا پر تیرگی طاری۔
گلی کوچوں میں سرگرداں وہی نوحے ، وہی فاقے۔
وہی مر مر کے جینا ہے ، وہی چلنے کی تیاری۔
کسی پژمردگی کے رنگ میں کھنچتے ہوئے خاکے۔
مبارک باد ، اے مرگِ جہاں ، اے صبحِ ناداری۔
مکھوٹوں اور ماتھوں پر ہیں مہریں ثبت مقتل کی۔
نہ بہنے پائے گا خوں بھی ، یہ گجھی ضرب ہے کاری۔
خبر جب آج کی بھی نہ ہو ، کب آئے گی کل کی۔