فکر تونسوی اردو ادب میں تعارف کے محتاج نہیں۔ وہ تقسیم سے پہلے مکتبہ اردو اور “سویرا” سے منسلک رہے۔ ان کا شعری مجموعہ “ہیولے” لاہور ہی سے شائع ہوا تھا۔ (مدیر)

مارچ 1981ء کی بات ہے، میرے طنزیہ و مزاحیہ مضامین کا پہلا مجموعہ ‘بلاعنوان’ مہاراشٹر اردو اکیڈمی کے جزوی مالی تعاون سے شائع ہونے جا رہا تھا۔ میں نے تیرہ مضامین فکر تونسوی صاحب کو اس درخواست کے ساتھ پوسٹ کر دیے کہ فلیپ کے لیے تاثرات سے نوازیں اور بھول گیا۔ مجھے قطعی امید نہیں تھی کہ کوئی Response ملے گا کیوں کہ وہ عہد ساز طنزنگار تھے اور میں 1972ء میں اس میدان میں آیا تھا۔ اس کے علاوہ میرے تیرہ مضامین میں سے صرف پانچ مضامین مطبوعہ تھے باقی سب غیرمطبوعہ لیکن چند دن گزرے تھے کہ فکر صاحب کی تاثراتی تحریر مجھے موصول ہوئی اور حیرت اور مسرت کے ملے جلے جذبات سے میرا دل بھر آیا۔ انھوں نے لکھا تھا کہ: “آپ اپنی ظرافت کی آڑ میں راست گفتاری کرتے ہیں۔ لوگوں کو ہنسنے کے باوجود دروغ گوئی لگتی ہے، شیخ ساحب اگر آپ نکتوں پر لوگ صرف ہنس دیں چوٹ کو سہلانے سے کترائیں تو آپ کی سنجیدگی پر کوئی حرف نہیں آئے گا آپ مسلسل چوٹیں لگاتے رہیے چاہے لوگ اس سے صرف گدگدی سمجھ کر بظاہر لطف اندوز ہوتے رہیں مگر بباطن۔۔۔؟
میں آپ کے مضامین کی مدح سرائی کروں گا تو لوگ سمجھیں گے شیخ چوں کہ فکر کے ظریف کنبے کا فرد ہے، اس لیے کنبہ پروری کر رہا ہے مگر اتنا ضرور کہوں گا کہ قاری چاہے آپ کے مضمون کی ایک سطر چھوڑ دے، دوسری سطر پڑھنے لگے تو ہنسنے سے بچ نہیں جائے گا کیوں کہ آپ کی ہر سطر میں ایک نہ ایک مزاحیہ نکتہ ضرور مل جاتا ہے جو اس قاری کو بھی چھیڑ دیتا ہے جو طنز و مزاح کو ادبِ عالیہ ماننے سے گریز کرتا ہے ۔۔۔”۔
میں نے فوراً شکریے کا خط لکھا اور دل ہی دل میں مصمم ارادہ کر لیا کہ انشاء اللہ موقع ملتے ہی بالمشافہ شکریہ ادا کروں گا۔ بہ فضلِ تعالیٰ وہ گھڑی بھی آ ہی گئی اور میں 12 جون 1981ء کو دہلی پہنچا، 13 جون کو شام چار بجے میں گلمہر پارک کے علاقے میں فکر تونسوی صاحب کا مکان تلاش کر رہا تھا۔ ایک راہ گیر سے ان کے بارے میں پوچھا تو کچھ دور ساتھ چل کر اس نے ایک فلیٹ کی طرف اشارہ کیا اور تیزی سے ایک طرف چل دیا۔ فلیٹ شاندار تھا۔ کال بیل کا بٹن دبانے پر اندر سے بھاری بھرکم آواز آئی “دروازہ ہمیشہ کی طرح کھلا ہے اندر آ جائیے”۔ اندر داخل ہوا تو دیکھا کہ سامنے صوفے پر فکر صاحب بیٹھے ہوئے ہیں۔ میں ان کی تصاویر رسائل میں دیکھ چکا تھا، اس لیے پہچاننے میں کوئی دقت نہیں ہوئی، فکر صاحب دیکھنے میں اسٹیج اور فلم اداکار سہراب مودی کی True Copy تھے، ان کا ٹھاٹ باٹ دیکھ کر مجھے خوشی ہوئی کہ اردو کا ایک ادیب اس قدر خوش حال ہے۔ میں نے فلیپ کے لیے تاثرات بھیجنے کا شکریہ ادا کیا تو بولے “آپ خواہ مخواہ ممنون ہو رہے ہیں آپ کے مضامین پڑھ کر لطف آیا، اس لیے تاثرات لکھ بھیجے، نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی ہونی ہی چاہیے۔ آپ اپنے شہر کا نام استعمال کرتے ہیں، اپنے شہر کا نام لکھیے لیکن اپنے فن کو اپنے علاقے تک محدود نہ کیجیے گا، اسے ہر جگہ پہنچانے کی کوشش کیجیے گا۔ پٹنہ کے ایک صاحب ہیں، اچھی مزاحیہ شاعری کر رہے ہیں، کیا نام ہے ان کا؟ وہ حافظے پر زور دینے لگے تو میں نے لقمہ دیا ‘رضا نقوی واہی صاحب’۔ کہنے لگے ‘ہاں ہاں وہی’۔ فکر صاحب نے پوچھا ‘دہلی میں آپ کا کوئی شناسا ہے؟ کہاں ٹھہرے ہوئے ہیں’؟ میں نے انھیں بتایا کہ ڈاکٹر مظفر حنفی صاحب کے ہاں ٹھہرا ہوا ہوں تو بولے ‘مظفر حنفی شریف آدمی ہیں، اسے میرا سلام کہیے گا۔ جامعہ میں شریف آدمی اب کم رہے گئے’۔ گفتگو جاری تھی کہ بیگم فکر نے ہمیں شربتِ روح افزا پیش کیا۔ شربت کے گلاس فکر صاحب کی پنجابیت کا اعلان کر رہے تھے، ہم شربت سپ کرتے رہے، کمرے میں خاموشی بولتی رہی۔ شربت ختم کر چکے تو اپنا خالی گلاس میز پر رکھتے ہوئے فکر صاحب کہنے لگے “دہلی میں کون کون سی چیزیں دیکھنے کا ارادہ ہے؟” میں نے کہا کہ میری فہرست میں تو پہلا نام آپ ہی کا تھا۔ بولے “کیا آپ سچ کہہ رہے ہیں، ایمان سے”۔ ‘ایمان سے’ انھوں نے اتنی معصومیت سے کہا کہ میں بے اختیار ہنس پڑا۔ مجھے ہنستا دیکھ کر فکر صاحب بھی مسکرا دیے پھر بولے مجھے دیکھ کر دور کے ڈھول سہانے والی کہاوت پر ایمان لے آئے ہوں گے آپ”۔ اتنے میں بیگم فکر کا گزر ادھر سے ہوا تو انھوں نے دوسری مرتبہ ہمارے گلاس شربتِ روح افزا سے بھر دیے۔ میں نے انکار کیا تو فکر صاحب کہنے لگے: “تکلف نہ کیجیے روح افزا کے تو چند قطرے ہیں، باقی سب پانی ہے آپ بھی یہ فارمولا اپنایا کیجیے تھوڑے سے روح افزا میں سیروں پانی ملا کر بہتت سے مہمانوں کو آؤٹ کیا جا سکتا ہے، وہ بھی کلین آؤٹ”۔ کافی وقت ہو گیا تھا اس لیے میں نے فکر صاحب سے اجازت چاہی۔ فکر صاحب دروازے تک چھوڑنے آئے۔
خبریں آ رہی تھیں کہ فکر صاحب بیمار ہیں، نروس بریک ڈاؤن کا شکار ہو گئے ہیں۔ میں نے خط لکھ کر ان کی مزاج پرسی کی، ان کا جواب آیا:
“بھائی جان!
خط ملا، میری صحت اب نسبتاً بہتر ہے۔ شاید آپ ایسے ہی (خیر) خواہوں کی دعاؤں کا اثر ہے۔ آپ کی صحبت میں لطف آیا اور خلوصِ نیت شاملِ حال رہا اسی کے سبب سے یہ ملاقات حسین اور موثر رہی۔ مجھے افسوس صرف یہ ہے کہ زحمت آپ نے کی، لطف میں نے حاصل کیا۔ حالاں کہ زحمت بھی میری طرف سے ہونی چاہیے تھی۔ ‘آجکل’ میں بوڑھوں والا طنزیہ چھپ چکا ہے شاید آپ کی نظر سے نہیں گزرا۔ نہ چھپا ہوتا تو لوگ مجھے اس کے بارے میں اپنے تاثرات کیوں بھیجتے۔ فکر تونسوی (1/7/1981)”
1985ء میں میرے طنزیہ و مزاحیہ مضامین کا دوسرا مجموعہ ‘الف سے قطب مینار’ شائع ہوا تو میں نے یہ کتاب فکر صاحب کی خدمت میں روانہ کی اور آنجناب سے درخواست کی کہ اگر زحمت نہ ہو تو ماہنامہ ‘آجکل’ دہلی میں تبصرہ کر دیں۔ انھوں نے میری درخواست کو شرفِ قبولیت بخشنا اور “آجکل” میں تبصرہ کیا۔
“میری رائے میں ‘الف سے قطب مینار’ تک شیخ رحمٰن اکولوی سے میں یہ خلافِ توقع قسم کی توقع نہیں رکھتا تھا کہ وہ اردو طنز و مزاح کو نیا روپ دینے کے لیے اتنی عجلت سے کام لیں گے اور تین چار سال میں ہی ایک کے بعد دوسرا مجموعہ شائع کر دیں گے۔ یقینِ محکم کے لیے بھی جو رحمٰن صاحب کی جبلت میں پایا جاتا ہے یہ تیز رفتاری کچھ اتنی بے ضرر نہیں ہوئی۔ شیخ رحمٰن اکولوی سے (جس میں اب ڈاکٹر لفظ کا بھی اضافہ ہو گیا ہے، طبعی نہیں ادبی ڈاکٹر) میری دو طرح کی ملاقاتیں ہیں، ایک زبانی، ایک تحریری ملاقات۔ زبانی ملاقات میں تو وہ بھلے مانس سے محسوس ہوئے لیکن تحریری ملاقات میں سادگی کے ساتھ پُرکاری بھی شامل دیکھی تو یوں لگا کہ ہر بھلے مانس کو صرف بھلامانس نہیں سمجھنا چاہیے کہ بھلے مانس کے باطن میں قطب مینار ہونا ہے صرف ابھرنے کی شہ ملنے پر بلند پھر بلند تر اور آخر میں بلند ترین بن جاتا ہے۔ گردو پیش کی زندگی شیخ رحمٰن اکولوی کے لیے ایک شہ بنی اور اب اسے قطب مینار بنانے کے درپے ہیں۔
مزاح سے مجھے کوئی خطرہ نہیں، کیوں کہ بقولِ غالب:
دل کے بہلانے کو غالب یہ مزاح اچھا ہے
لیکن ‘الف سے قطب مینار’ کے چند مضامین پڑھ کر مجھے یہ خدشہ پیدا ہو گیا کہ شیخ رحمٰن کی فکر میں طنز کا تیکھا پن بھی شامل ہوتا جا رہا ہے اور طنز ایک خوفناک وادی ہے، اس میں داخل ہونے کے لیے قلم کو بہت سی اشیا سے جنگ کرنا پڑتی ہے بلکہ جنگ ایک لازمہ بن جاتی ہے۔ جو مسلح تربیت یافتہ ہوتی ہے لہٰذا قلم کار کو بھی سماجی ادراک اور بصیرت کا ہتھیار لے کر دشمن کو پیٹھ دکھانا پڑتی ہے، مزاح کی شگفتگی کو ساتھ رکھا جائے تاکہ طنز کی دھار ایک قاتل کی دھار معلوم نہ ہو بلکہ ایک مہربان آرٹسٹ کا لگایا ہوا ایک کٹ معلوم ہے ۔۔۔۔ کٹ اور غلیظ مضحکہ خیزی باہر مریض کو راحت۔
میرا خیال ہے کہ شیخ رحمٰن اکولوی کا مشاہدہ معاشرے کے اس حصے سے زیادہ ہے جو استحصال کا شکار ہے اور انہی استحصال زدہ کیفیتوں نے ان کے قلم اور سوچ میں طنزیہ زاویے ابھارنے شروع کیے ہیں، لیکن یہ زاویے دو آتشہ تب بنیں گے جب شیخ رحمٰن اکولوی کے اندر سے آہستہ آہستہ جھانکنے والا طنز نگار اپنے آپ سے بھی یہ کہنےلگے کہ پھر بقولِ غالب:
کچھ اور چاہیے وسعت مرے بیاں کے لیے
میں نے فکر صاحب کا انٹرویو کیا تھا۔ اس انٹرویو کے چند سوالات اور جوابات نقل کر رہا ہوں، ملاحظہ فرمائیں:
سوال: آپ کے خیال میں سیاست بازی نے ادب پر کیا اثرات مرتب کیے ہیں؟
جواب: ادبی سیاست بازی کی بدولت یہاں اس کو عیاری بنا دیا گیا ہے، ہر ادیب اپنا بھانڈار ریشمی لباس میں چھپائے پھرتا ہے شام کو گھر آ کر بھانڈے کی نقدی گنتا ہے تو ساہتیہ اکیڈمی کو لکھ دیتا ہے کہ اس بھانڈے کی آواز سن اور مجھے رکگنائز کر۔
سوال: ایوارڈ کے بارے میں کیا کہتے ہیں؟
جواب: اردو اکادمیاں لاکھوں روپے بانٹتی ہیں۔ ادیب کی بھوک یہ تو کم از کم مجھے اداس کیے جاتی ہے ۔۔۔ حصولِ زر کے لیے آج کل جو ادب پیدا کیا جا رہا ہے اسے ایوارڈ کہا جاتا ہے۔۔۔۔ سرکار ہمیں ہمیشہ اس وقت ایوارڈ دیتی ہے کہ پہلے معلوم کر لیتی ہے ایوارڈ یافتہ کا جنازہ کب اٹھنے والا ہے۔
سوال: آج کل زیادہ نہیں لکھ رہے ہیں؟
جواب: اب تو ادب تخلیق کرنے میں بھی کوئی لطف نہیں آتا ہے نہ ضرورت محسوس ہوتی ہے ۔۔۔۔ لوگ کہتے ہیں کچھ لکھو مگر وہ بکواس کرتے ہیں کہ سماج کو تمھاری تحریریں چاہییں، مگر کیا لکھوں؟ سماج پر تو میں عمر بھر لکھتا رہا، سماج کو تفریح طبع چاہیے ستم گربیوروکریٹس کی نگاہ میں رائٹر کی اہمیت صفر بھی نہیں۔ وہ اسے مراثی سے زیادہ وقعت نہیں دیتے۔۔۔۔ کئی آشناؤں کا یہ فقرہ کتنا سستا، بازاری کسی گلے سڑے کے جیسا لگتا ہے۔ “فکر صاحب! نہیں نہیں نہیں! ابھی قوم کو آپ کی ضرورت ہے”۔
کون سی قوم؟ کیسی قوم؟ جسے اتنی بھی آگاہی نہیں کہ جینے کے ڈھنگ میں خوب صورتی اور لطافت بھی ہوتی ہے وہ کیسی ہوتی ہے یہ بھی نہیں جانتے۔ پیٹ بھرا ہوا ہونا چاہیے باقی ہر چیز خالی ہو جائے؟ آہ خالی ہونے کا احساس تک مر چکا ہے اور اس کی مجموعی موت ہی ہماری اور تمھاری انفرادی موت ہے۔
فکر صاحب سے دوسری اور آخری ملاقات 24 مئی 1987ء کو ہوئی۔ بہت دنوں سے خبریں مل رہی تھیں کہ وہ بیمار ہیں، پھر خبر ملی کہ ان کے پیر میں فریکچر ہو گیا ہے۔ میں چھوٹے موٹے کاموں کا بہانہ بنا کر ان کی عیادت کے لیے دہلی روانہ ہوا۔ دیکھتے ہی فرطِ شفقت سے گلے لگا لیا۔ پہلی ملاقات کے بعد سے ان سے ربط پیدا ہو گیا تھا۔ خط و کتابت بھی ہونے لگی تھی، اس لیے بے تکلفی سے گفتگو ہونے لگی۔ ان کا چہرہ ہمیشہ کی طرح تر و تازہ و شگفتہ تھا، کسی قسم کی فکر، پریشانی یا الجھن ان کے چہرے سے عیاں نہیں تھی، لیکن بات چیت کے دوران ان کے اندر کا آدمی باہر آیا تو اندازہ ہوا کہ وہ بہت دُکھی ہیں۔ فرقہ وارانہ فسادات اور ان سے پیدا شدہ سماجی انتشار سے وہ بہت دل برداشتہ تھے، کہنے لگے “مذہبی رہنما بھی آج کل گندی اور گھناؤنی سیاست کے آلہ کار بنے ہوئے ہیں کیا ضرورت ہے ان کو سیاسی نعرے لگانے کی؟ عبادت گاہوں کو سیاسی پلیٹ فارم بنانے کی۔ مذہب کے نام پر کتنے بے گناہ اور معصوم انسانوں کو انھوں نے قتل کروا دیا اور کتنی جانیں لیں گے؟ مذہب کو سیاست سے جوڑنے پر کیوں تلے ہوئے ہیں یہ لوگ؟” آخری فقرہ ادا کرتے ادا کرتے کرتے ان کی آواز رندھ گئی۔ چند لمحے خاموشی سے رینگ گئے۔ وہ پھر گویا ہوئے “میں ساری زندگی سماجی ناہمواریوں کے خلاف جنگ کرتا رہا، میں ایک ‘ازم’ کو لے کر چلا تھا لیکن افسوس میری محنت رائیگاں گئی۔ خیر میرے بس میں جو تھا میں کر چلا”۔ پھر میری طرف دیکھ کر کہا “آگے کی ذمہ داری آپ لوگوں کی ہے، اس جنگ کو جاری رکھنا۔ قلم سے تلوار کا کام لینا ہانجی”۔ (بات بات میں ‘ہانجی’ یعنی ‘ہاں جی’ کہنا ان کی عادت تھی) پھر وہ یکلخت خاموش ہو گئے، کچھ دیر کے لیے ایسا لگا جیسے وقت بھی سانس لینا بھول گیا ہے۔ میں بھی دم بخود تھا، اس بات پر کہ ان کا پیر بری طرح فریکچر ہوا تھا۔ ہڈی جوڑنے کے لیے پنڈلی میں لوہے کی سلاخ ڈالی گئی تھی۔ انھیں اپنے پیروں پر کھڑا ہونا بھی محال تھا لیکن اس حالت میں بھی انھیں اپنی کوئی پروا نہیں تھی، ان کا دل ساری دنیا کے انسانوں کے لیے، ساری انسانیت کے لیے خون کے آنسو رو رہا تھا۔ آج فکر صاحب کا جسم ہمارے درمیان نہیں لیکن ان کے احساسات وجذبات ان کی تحریروں میں محفوظ ہو گئے ہیں۔ ہم ان کی تحریروں کو سیڑھی بنا کر ان کی روح کی گہرائیوں میں اتر سکتے ہیں، ان کے احساسات و جذبات کو سمجھ سکتے ہیں۔ مجھے امید ہے کہ ان کے بعد کے طنز نگار ان تحریروں کی روشنی میں فکر صاحب کے مشن کو آگے بڑھائیں گے۔ ایک دن آئے گا جب فرقہ پرستی، تشدد اور تخریب کاری کی ہار اور انسانیت کی جیت ہوگی اس دن دور خلاؤں میں فکر صاحب کی روح مسکرائے گی اور کہے گی: ‘ہانجی اب کچھ بات بنی’۔
ڈاکٹر شیخ رحمٰن اکولوی
دیپک چوک، اکولہ۔6 مہاراشٹر