تیرے بعد تیری بتیاں

یہ تحریر 2492 مرتبہ دیکھی گئی

انتظار حسین چل بسا۔ سن کر افسوس ہوا۔ اب یار لوگ مجھ سے کہہ رہے ہیں کہ تم اسے جانتے تھے۔ اس کے بارے میں کچھ کہو۔ میں کیا کہوں۔ یہ لوگ اسے کہانی کار سمجھتے ہیں۔ میں دل ہی دل میں ہنستا ہوں کہ اللہ تیری قدرت، وہ کیا تھا لیکن لوگ اسے کیا سمجھتے ہیں۔ اگر ہاپوڑ سے نہ نکلتا تو پاپڑ بیچتا۔ ڈبائی میں رہتا تو چلمیں بناتا۔ ہاپوڑ اور ڈبائی کے نام میں نے اس لیے لیے کہ وہ ان دو بستیوں سے ہی اپنا ناتا جوڑتا تھا۔ ڈبائی کو اپنی جنم بھومی بتاتا تھا۔ ہاپوڑ میں آ کر چھوٹے سے بڑا ہوا۔ مگر ان دو بستیوں سے اس نے سیکھا کیا۔ ڈبائی کے کمہار جتنی نفیس چلمیں بناتے ہیں اتنی ہی کڈھب اس نے کہانیاں لکھیں اور ہاپوڑ کے پاپڑ جتنے خستہ ہوتے ہیں اتنی ہی کرخت اس نے زبان لکھی۔ ڈبائی کے کمہاروں کا اس پر پرچھانواں بھی پڑ جاتا تو اس کی کہانیوں کی کایا بدل جاتی۔ اصل اور سچی بات یہ ہے کہ وہ بھاگوان تھا۔ بلّی کے بھاگوں چھینکا ٹوٹا۔ اس نے ہوش سنبھالا تھا اور قلم بس ہاتھ میں پکڑنے لگا تھا کہ ہندوستان کا بٹوارا ہو گیا۔ ایک الگ ملک پاکستان بن گیا۔ اس نے آودیکھا نہ تاو، اسپیشل ٹرین میں بیٹھا اور لاہور جا اُترا۔ ڈبائی کا روڑا لاہور جا کر ہیرا بن گیا۔ نقلی ہیرا۔ ڈبائی کے گلی کوچوں کا حال لکھ لکھ کر سنانے لگا اور چھپوانے لگا، اس دعوے کے ساتھ کہ یہ کہانیاں ہیں۔ ان دنوں جو ہندوستان سے لٹ پٹ کر پاکستان پہنچتا تھا، اس کے ساتھ مروّت برتی جاتی تھی۔ اس مروّت میں لاہور والوں نے اسے کہانی کار مان لیا مگر مہاجر اس کی اوقات کو سمجھتے تھے۔ وہاں کافی ہاوس میں ایک دن اس کی مڈبھیڑ ایک ویٹر سے ہو گئی جو رامپور کا تھا۔ یہ سمجھا کہ ویٹ ہی تو ہے، میں اپنی کہانیوں کا حوالہ دوں گا تو مرعوب ہو جائے گا۔ وہ تھا رام پور کا چھنٹا ہوا۔ اس نے کہیں ان حضرت کی ایک دو کہانیاں پڑھ لی تھیں اور جان لیا تھا کہ یہ کتنے پانی میں ہے۔ کہنے لگا کہ ”انتظار صاحب، آپ نے اپنی کہانیوں میں جو زبان لکھی ہے وہ ہمارے رامپور میں کُنجڑیاں بولا کرتی ہیں۔ کبھی شریف زادیوں کی زبان اور اشراف کا محاورا لکھ کر دکھائیے۔“ رامپور ویٹر کی بات سن کر انتظار حسین اپنا سا منھ لے کر رہ گیا پھر اس نے دلّی اور لکھنو کا محاورہ لکھنے کے لیے بہت زور مارا مگر کہاں دلّی اور لکھنو کے اشراف کہاں ڈبائی کا روڑا۔ اس نے جلد ہی اپنی حیثیت کو پہنچانا اور پینترا بدل لیا۔ دلّی والوں کو اپنی کوثر میں دُھلی ہوئی اردو پر ناز تھا۔ اس نے کہنا شروع کیا کہ میں تو گنگا میں دُھلی ہوئی اردو لکھتا ہوں۔ کسی نے پوچھ لیا کہ ”یہ اُردو تم نے سیکھی کس سے ہے؟“ جواب دیا۔ ”سنت کبیر سے“ پوچھنے والا اس کا منھ تکنے لگا اور بولا۔ ”اُردو کا کبیر سے کیا واسطہ؟“ انتظار حسین نے ڈھیٹ بن کر جواب دیا کہ ”کبیر اُردو کا سب سے بڑا شاعر ہے۔“ بس ایسی ہی باتیں کر کے وہ اپنی جہالت کو چھُپاتا تھا۔ جس زمانے میں اس نے کہانیاں لکھنا شروع کی تھیں اس زمانے میں اُردو دنیا میں ٹالسٹائی، دوستوفسکی، گورکی، فلابیر، جوائس، لارنس جیسے ناول نگاروں کا ڈنکا بج رہا تھا۔ یہ کتنے بڑے ناول نگار تھے، انتظار حسین کی جانے بَلا۔ اس نے الٹی گنگا بہانی شروع کر دی۔ کہنا شروع کیا کہ ہمارے بڑے ناول تو اصل میں ا لف لیلہ اور کتھا سرت ساگر ہیں، سو میری ایک بغل میں ا لف لیلہ ہے اور دوسری بغل میں کتھا سرت ساگر۔ کسی نے پوچھ لیا کہ ”تم نے کہانی کہنے کا فن کس سے سیکھا؟“ جواب دیا۔ ”اپنی نانی اماں سے اور مہاتما بدھ سے۔“ غریب نے نہ او۔ ہنری کو پڑھا تھا نہ موپساں کو۔ پھر اپنی جہالت پر پردہ ڈالنے کے لیے کوئی ایسی ہی بات کہنی تھی۔ نئے زمانے کے کیا مسائل ہیں، کیا سمسیائیں ہیں، انتظار حسین کو اس کا ذرا جو پتا ہو۔ اس لیے اگر ترقی پسندوں نے اسے رجعت پسند، قدامت پرست، ماضی کا مریض، نوسٹالجیا کا مارا ہوا جیسے خطابوں سے نوازا تو کیا بُرا کیا۔ وہ یہی کچھ تھا۔ ایک ترقی پسند ادیب نے دو ٹوک اس سے پوچھا۔ ”اپنی کہانیوں میں تم کس زمانے کی باتیں کرتے ہو؟“ ”پھر مہاتما بدھ کے زمانے میں کیوں پہنچ جاتے ہو؟“ ”اس لیے کہ میں نے اسی زمانے میں جنم لیا تھا۔ آدمی کی جون میں۔ اب پتا نہیں میں کس جون میں ہوں اور میرے اردگرد جو لوگ ہیں وہ کس جون میں ہیں۔ تھوڑا پہچانتا ہوں تو پیڑوں اور پنچھیوں کو۔ میرے زمانے کے کچھ یہی لوگ باقی رہ گئے ہیں۔“ لاہور میں ایک ترقی پسند نے بڑے پتے کی بات کہی کہ یوپی سے بہت سے لوگ اپنا گھر بار لُٹا کر خالی ہاتھ پاکستان پہنچے اور یہاں آ کر انہوں نے الاٹمینٹیں کرائیں اور دونوں ہاتھوں سے جائز و نا جائز کہا کر گھر بھرے، مگرانتظار حسین یادوں اور محاوروں کی بھری بوریوں کے ساتھ پاکستان پہنچا۔ اس نے اپنی بوریوں کا منھ کھول دیا ہے اور ہمیں بوجھوں مار دیا ہے۔ بالکل صحیح کا۔ بھلا یادوں سے کہانی بنا کرتی ہے؟ پھر آدمی ایسی ہی کہانی لکھے گا جیسی ہمارے نانی امائیں ہمارے بچپن میں ہمیں کہانیاں سنایا کرتی تھیں، سو انتظار حسین نے عمر بھر ایسی ہی کہانی لکھی۔ میں جب کبھی اس کی کہانی پڑھتا ہوں تو لگتا ہے کہ کہانی نہیں پڑھ رہا بلکہ اس کی ڈبائی کی کسی ٹوٹی ہوئی سڑک پر چلتے ہوئے یکے پر بیٹھا ہوں۔ اصل میں ڈبائی میں چلم بنانے والے کمہاروں کو تو اس نے بدنام کیا۔ ان والی نفاست تو اس کی کہانی میں کبھی آئی ہی نہیں۔ اور میں نے یہ غلط کہا کہ وہ ڈبائی میں رہتا تو چلمیں بناتا۔ ویسے اسے ڈبائی ہی میں رہنا چاہیے تھا۔ اس قصبائی فضا سے اس کا ذہن کبھی نکلا ہی نہیں۔ وہاں اگر رہتا تو وہاں یکّہ چلا کر کچھ دال دلیا کر لیتا۔ جس زمانے میں وہ ڈبائی میں تھا اس زمانے میں اس قصبے کی سڑکوں کی حالت بہت خستہ تھی۔ اس پر یکے اس طرح چلتے تھے کہ سواریوں کے جوڑ جوڑ ہل جاتے تھے۔ وہ وہاں رہتا تو ایسے ہی کسی یکے کا کوچوان ہوتا۔ لاہور آ کر اس نے کہانیاں لکھنا شروع کر دیں۔ کہانیاں کیا لکھتا تھا یکّہ چلاتا تھا۔ ڈبائی کے یکّوں کی طرح اس کی کہانیوں کے بھی سارے انجرپنجر ڈھیلے ہیں۔ خیر، وہ شخص اب اس دنیا میں نہیں ہے کیا کہا جائے اور اس نے کون سی نرالی بات کی۔ جو دوسرے مہاجروں نے کیا وہ اس نے بھی کیا۔ کتنے مہاجر ایسے تھے کہ جب یوپی میں تھے تو پھانک تھے۔ پاکستان گئے تو دونوں ہاتھوں سے دولت سمیٹی اور جائدادیں بنائیں۔ انتظار حسین نے یہی کام دوسرے رنگ سے کیا۔ ڈبائی میں ہوتا تو یکّہ چلاتا۔ لاہور میں رہ کر کہانی کار کا روپ رچایا۔ دونوں ہاتھوں سے داد سمیٹی اور اپے تئیں بڑا ادیب جاننے لگا۔ اب الاٹمنٹ کی بات بھی سن لو۔ جب مہاجر اپنے اپنے کلیم داخل کر رہے تھے تو ایک لاہوری دوست نے اس سے کہا کہ ”یار تم بھی اپنا کلیم داخل کر دو۔“ اب وہ یہ تو کہہ نہیں سکتا تھا کہ ادھر وہ کوئی جائداد چھوڑ کر نہیں آیا ہے۔ جھوٹی شان نے اسے یہ بات کہنے کی اجازت نہیں دی۔ کہا یوں کہ ”میں تو تاج محل چھوڑ کر آیا ہوں۔ کہوں تو اس کا کلیم داخل کر دوں۔“ اس نے مزاحاً کہا۔ ”اس کے سوا بھی تو کچھ چھوڑ کر آئے ہو گے؟“ کہا کہ ”ہاں تاج محل کے سوا نیم کا پیڑ چھوڑ کر آیا ہوں۔“ بس ایسی ہی بے تُکی باتیں کر کے اپنی بے حیثیتی کو چھپاتا رہا۔ اب اللہ کو پیارا ہوا۔ ڈبائی کی پریشان خاک لاہور میں آسودہ ہوئی۔ آج ڈبائی میں اسے کوئی نہیں جانتا۔ کل لاہور میں بھی اسے کوئی نہیں جانے گا۔ خیر وقتی طور پر اس نے جھوٹ سچ لکھ کر کچھ نام پیدا کر لیا تھا۔ اس کا جھوٹ سچ اس کے ساتھ گیا۔ خاک میں مل کر خاک ہوا۔ اللہ اس کی مغفرت کرے۔