”ہماری شادی کو سینتیس سال ہو گئے۔“ یوں جیسے وہ کسی اور سے مخاطب ہو۔
میں خاموش رہی۔
”میں نے تمہیں اچھا ہی رکھا۔“
”اگر نہ رکھتے تو بھی……“ میں نے جملہ نامکمل چھوڑ دیا۔
”تب بھی تم کہاں جان چھوڑنے والی تھیں۔“ اس کے چہرے پر ہلکی سی شریر مسکراہٹ پھیلی تھی۔ شاید اُس کا خیال تھا کہ میں جواب میں کچھ کہوں گی لیکن میرا دماغ تو شدید اُلجھنوں کا شکار ہو رہا تھا۔ اس کا H B اچانک اتنا کم کیوں ہوگیا؟ ڈاکٹر یہ کیا کہہ کر گیا ہے کہ ”ان کا ہارٹ فیلر کی طرف ہے۔ آپ گھبرائیں نہیں۔ ہم دوائیوں کے ذریعے اتنا کر دیں گے کہ یہ آرام دہ زندگی گزار سکیں۔ دو تین دن تک آپ انہیں گھر لے جا سکیں گی۔“ چند دنوں میں یہ کیا ہو گیا؟ بخار، کمزوری اور اب یہ ہارٹ فیلر کا بھی کہہ رہے ہیں اور ساتھ دلاسا دے رہے ہیں کہ دو تین دن میں آپ ان کو گھر لے جا سکیں گی!
لیکن میں اسے گھر واپس نہ لا سکی۔ اس نے جانے میں بہت جلدی کی۔ میں ساوتری نہ بن سکی جوستیہ وان کوموت کے دیوتا سے چھین لائی تھی۔
سہیل نے تو مڑ کر دیکھا ہی نہیں، اتنا بھی نہ سوچا کہ میں اکیلی دکھوں میں گھری زندگی اور حالات کا مقابلہ کیسے کروں گی؟ ”کر لے گی کچھ نہ کچھ۔“ میرے بارے میں اس کا رویّہ ہمیشہ یہی رہا۔ ویسے بھی جب اُسے کہیں جانا ہوتا، میرے روکنے سے وہ کب رکتا تھا! نہ کبھی آنسو روک سکے اور نہ ہی خوشامد اور نہ کوئی التجا۔ اور میں نے بھی اپنے آپ کو اس کی مصروفیات کے مطابق ڈھال لیا تھا۔
”میں جا رہا ہوں۔ دروازہ بند کرلو۔“
میری آنکھوں میں چھپا سوال: ”واپس کب آؤ گے؟“ وہ پڑھ لیتا۔ اس سوال کا جواب وہ ضرور دیتا: ”دس بجے تک آ جاؤں گا۔“ اور ہمیشہ وقتِ مقررہ پر واپس آ جاتا۔
اوراب یادوں کے سایے ہیں جو میرے ساتھ ساتھ چل رہے ہیں۔ نہ اُس نے اطلاع دی کہ میں جا رہاہوں اور نہ میں پوچھ سکی کہ واپس کب آؤ گے! اور میں، جس نے دل میں ہمیشہ یہ خواہش رکھی کہ اس کے ہاتھوں کی مٹّی نصیب ہو، اپنی اس خواہش کو ردّ کر دینے پر اللہ سے کتنے شکوے کرتی ہوں۔ اُس کی بھی یہی مرضی رہی ہو گی کہ اگر محبت کا دعویٰ رکھتی ہو تو اُس کے حصے کی بے قراریاں بھی تمہیں برداشت کرنا ہوں گی۔
اس کی عادت تھی کہ کبھی کبھی اچانک کوئی شعر پڑھتا: ”اچھا بتاؤ یہ کس کا شعر ہے؟“ یا ”اس شعر کی ذرا تشریح تو کرو۔“ میں ناراض ہو کر کہتی: ”میرے اُستاد مت بنا کرو۔“ اس کے بیمار ہونے سے چند دن پہلے کی بات ہے کہ وہ سٹڈی سے باہر نکلا: ”ایک کپ چائے تو پلواؤ —— اچھا ٹھیرو، پہلے ایک شعر سنو۔ غالب کا ہے —— مطلب یہ کہ یہ نہیں پوچھ رہا کہ کس کا شعر ہے:
بھاگے تھے ہم بہت، سو اُسی کی سزا ہے یہ
ہو کے اسیر، دابتے ہیں راہزن کے پانؤ“
میں صوفے سے کچن میں جانے کے لیے کھڑی ہوئی تو مجھے اس کے چہرے پر عجیب سی تھکاوٹ نظر آئی۔ ”چلو شاباش، اب کچن میں جاؤ۔ شعر پر غور کرو اور ایک کپ چائے بنا کر لاؤ۔“ میں چائے بناتے ہوے اُلجھی اُلجھی اس شعر پر غور کرتی رہی۔ چائے کا کپ لا کر میں نے اسے پکڑایا۔ وہ یوں، جیسے اپنے آپ سے ہی بات کر رہا تھا، ”راہزن نے تو لُوٹنا ہی تھا، مسافر جس قدر بھی تیز دوڑے۔ سو اس نے خوب پیچھا کیا اور آخر جا لیا۔ اس دوڑ میں راہزن بھی تھک چکا تھا۔ اس نے کہا: لُوٹ تو میں لوں ہی گا، اب پہلے میرے پانؤ دباؤ۔“ چائے کا کپ ختم کر کے اس نے مجھے تھمایا اور صوفے پرنیم دراز ہو کر بولا: ”سو، بی بی، وقت تو راہزن ہے۔ پکڑتا بھی ہے اور پاؤں بھی دبواتا ہے۔“
جب بھی میں اکیلی ہوتی ہوں اس کی آواز میرے کانوں میں گونجتی ہے: ”وقت تو راہزن ہے۔“ اب اگر وہ میرے سامنے آ جائے تو اسے ضرور بتاؤں کہ وقت نے تو راہزنی میرے ساتھ کی —– تم تو مزے سے نکل گئے!
سہیل اور میں اورئینٹل کالج میں شعبہِ اُردو میں کلاس فیلو تھے اور ہماری قربت ہمارے محترم اُستاد سجاد باقر رضوی کے حوالے سے ہوئی تھی۔ باقر صاحب کے کمرے میں تو لوگوں کا ایک مجمع لگا ہی رہتا۔ کوئی آ رہا ہے کوئی جا رہا ہے۔ کسی کو گزرتے گزرتے سلام عرض کرنا یاد آجاتا۔ کوئی کسی دقیق نکتے پر ان کی وضاحتی رائے طلب کرنے موجود ہوتا اور ہم طالب علم تو وہاں موجود ہی رہتے۔
اس وقت ہماری عمریں بیس، اکیس سال ہی رہی ہوں گی اور اس عمر میں خاص طور پر لطیفہ گوئی، غیر سنجیدہ باتیں، چھیڑ چھاڑ لڑکوں کا وطیرہ ہی ہوتا ہے۔
لیکن سہیل تو اس وقت بھی اتنا ہی باوقار، سنجیدہ اور متین تھا جتنا پچاس برس کی عمر میں تھا۔ اور اس کی لیاقت سے تو تقریباً سبھی ہم جماعت، بشمول میرے، سخت متأثر تھے۔ اس وقت بھی ہم جماعتوں کی اکثریت اس کی بہت عزت کرتی۔ ہر کوئی یہی سمجھتا کہ سہیل کے منہ سے کوئی غلط بات نکل ہی نہیں سکتی۔ وہ زمانہ یاد آتا ہے تو بہت ساری تصاویر روشن ہوجاتی ہیں۔ ہمارے زمانے میں کچھ موضوعات بہت پُرکشش تھے، مثلاً یہ کہ بہت سے لوگوں میں دو لوگ قریب کیسے آ جاتے ہیں؟ کیا کوئی ماورائی رشتہ ہوتا ہے یا قسمت ہوتی ہے یا ستاروں کا تعلق ہوتا ہے؟ یہ محبت ہو کیسے جاتی ہے؟ ایک روز کامن روم میں بیٹھے ہم اسی طرح کی افلاطونی باتیں کر رہے تھے کہ ہماری ایک کلاس فیلوکنیز فاطمہ اندر داخل ہوئی۔ کنیز فاطمہ کی عادت تھی کہ وہ اُوٹ پٹانگ باتیں کرتی رہتی لہٰذا اکثریت اس کی باتوں پر زیادہ غور نہ کرتی۔ خیر وہ کرسی گھسیٹ کر اس پر بیٹھ گئی اور بولی: ”لو بھئی مسئلہ حل ہو گیا۔ بس محبت نے ہونا ہوتا ہے، ہو جاتی ہے۔“ پھر میری طرف مڑ کر بولی: ”سہیل باہر کھڑا تمہیں بلا رہا ہے۔“ ”کسی کتاب کی واپسی کا تقاضا کرنا ہوگا۔“ میں اُٹھ کھڑی ہوئی کیونکہ جب بھی پڑھنے کے لیے وہ کوئی کتاب دیتا تو اس کی خواہش ہوتی کہ واپسی جلدی ہو۔
”نہیں، کتاب کی بات نہیں۔ بات کچھ اور ہے۔“ وہ خاصی سنجیدہ تھی۔
”کچھ دل کا معاملہ لگتا ہے۔“
”سہیل اور دل؟“ یہ کس نے کہا؟ مجھے یاد نہیں لیکن سب کے چہرے پر تمسخر بھری مسکراہٹ تھی۔ ”اس کے پاس دل ہے کہاں؟ اتنی سختی سے بات کرتا ہے۔“ یہ کوثر تھی جسے شاید کسی بات پرسہیل نے بے رخی سے جواب دیا تھا۔
”میں اس کی آنکھوں میں ایک نئی چمک دیکھ کر آئی ہوں۔“
”جی ہاں، تم تو بہت بڑی ماہرِ نفسیات ہو جو چمک سے جذبوں کا اندازہ لگاتی ہے۔“ کہتی ہوئی میں باہر نکلی۔ وہ واقعی باہر کھڑا تھا۔ اب میں سوچ رہی تھی کہ کتاب کے لیے کیا کہوں جو آج مجھے واپس کرنا تھی۔ گھر میں مہمان داری کی وجہ سے میں اسے ختم نہ کر پائی تھی۔ مجھے دیکھ کر وہ مڑا اور آگے آگے چلنے لگا۔ ہم کالج سے باہر نکلے۔ پھر سڑک پار کر کے فائن آرٹس ڈیپارٹمنٹ کے سامنے سے گزر کر فٹ پاتھ پر چلنے لگے۔ اس دوران کوئی بات نہ ہوئی۔ یوں تھا جیسے بولے بغیر چلتے ہی جانا ہے۔ جی پی او گزر گیا۔ پھر ریگل کا بس سٹاپ۔ پھر اور بہت سا راستہ۔ بس خاموش ایک دوسرے کے ساتھ چل رہے ہیں۔ باغِ جناح آیا تو وہ اس کے اندر مڑ گیا۔ اب تو میں کافی تھک چکی تھی۔ ”چائے پیو گی؟“ اس نے پوچھا۔ میں نے اثبات میں سر ہلا دیا۔ اس زمانے میں باغ کے گوشے میں چائے کا ایک ڈھابا سا ہوتا تھا جہاں یہ لڑکے اکثر بیٹھتے تھے۔ ہم لوگ وہاں بیٹھ گئے۔ سہیل کے ہاتھ میں پیک کی ہوئی ایک کتاب تھی جو اس نے مجھے دی۔ میں نے پیکٹ کھولا: ”دشمنوں کے درمیان شام“، منیر نیازی کی شاعری کا نیا مجموعہ۔ ”ابھی وہ پہلے والی کتاب……“ جملہ ادھورا رہا کیونکہ پہلے صفحے پر اس نے لکھا تھا: ”نجمہ کے لیے —— سہیل۔“ ”یہ کتاب دینے کے لیے اتنی دور لے کر آئے؟“ ”ہاں، بس تمہارے ساتھ چلنے کو جی چاہ رہا تھا۔“ اتنے میں بیرا چائے لے آیا۔ میں کتاب کے ورق پلٹتی رہی اور چائے کے گھونٹ بھرتی رہی اور کنیز فاطمہ کی بات پر غور کرتی رہی۔
”میرے ساتھ رہ سکو گی؟“ اچانک اس نے کہا۔
کیسا عجیب سوال تھا! ”کہاں جا رہے ہو؟“ میں نے بات کو مذاق میں ٹالنا چاہا۔
”بتاؤ، رہ سکو گی؟“
”کہاں؟“ یقینا میں اس وقت سخت ہونّق لگ رہی ہوں گی۔
”جہاں میں رکھوں۔“
”سوچوں گی۔“ میں اس بات کو ابھی مذاق میں ہی لے رہی تھی۔
”سوچنے کا وقت نہیں ہے۔“
”کیوں، میرے بعد کسی اور سے بھی یہی پوچھنا ہے؟“
”جواب دو۔“ اس کی آواز میں سختی تھی۔
اتنے میں ظہیر کاشمیری صاحب اچانک ہی نمودار ہوے۔ ”سہیل اور کسی لڑکی کے ساتھ؟“ ان کے چہرے پر سخت حیرت تھی۔ میں نے ان کو ایک آدھ بار ٹی وی پر دیکھا تھا اور پہچانتی تھی۔ وہ بے تکلفی سے کرسی گھسیٹ کر اس پر بیٹھ گئے اور بولے: ”کیوں جوان، چائے نہیں پلاؤ گے؟“ میں تو گھبرا کر اُٹھ کھڑی ہوئی۔ ”بیٹھو بیٹھو۔“ سہیل نے کہا اور بیرے کو آواز دی۔ ”تم اور چائے لو گی؟“ سہیل نے مجھ سے پوچھا۔ ”نہیں۔“ اب تو میں نے گھبرا کر پھر کتاب کی ورق گردانی شروع کر دی۔
چائے کے گھونٹ بھرتے ہوے ظہیر کاشمیری بولے: ”ان کا تعارف نہیں کرواؤ گے؟“
”یہ نجمہ ہے۔“ سہیل نے لاپروائی سے کہا۔ کس قدر نامکمل تعارف تھا۔ کون نجمہ، کہاں کی نجمہ!
”بندھ گئے ہو، جوان، بندھ گئے ہو۔“ انہوں نے کپ رکھا اور اُٹھ کر چلے گئے۔
”لو اب تو یہ بھی باندھ گئے۔ اب تم کیا جواب دو گی؟ چلو چلیں۔“
اور یہ ایک حقیقت تھی کہ جب یہ دونوں چائے پی رہے تھے میرے وجدان نے ہی مجھ سے کہا کہ میری زندگی سہیل کے ساتھ ہی گزرے گی۔ بھلی یا بری یا جیسی بھی —— ہم واپسی کے لیے روانہ ہوے، اسی خاموشی کے عالم میں۔ ریگل کے بس سٹاپ پر سمن آباد کے لیے بس آتی تھی۔ ہم لوگ وہاں رکے رہے۔ بس آئی تو وہ بولا: ”تمہاری بس آ گئی۔“ میں بس میں چڑھ گئی اور وہ پیدل فٹ پاتھ پر چلنے لگا۔
اس دن کے بعد ہم ایک اَنجانے رشتے میں بندھ گئے۔
میں شادی کے بعد کبھی کسی بات کی شکایت کرتی تو وہ کہتا: ”میں ایسا ہی ہوں۔ میں نے تو کوئی سبز باغ نہیں دکھائے۔“
”پھر کیوں کہا تھا کہ میرے ساتھ رہ سکوگی۔“ میں ناراض ہو کر کہتی۔
”بس لگا یہی تھا کہ تم گزارا کر لو گی“ —— اور میں اسی بات پر نازاں ہو جاتی۔
سہیل کلاسیں تو بہت کم ہی اٹینڈ کرتا۔ علمی بحثیں باقر صاحب کے کمرے میں ہی ہوتیں۔ ہم لوگ باری باری چائے منگواتے رہتے۔ سہیل کی ایک عادت جو مجھے بہت کَھلتی کہ اچانک ہی اُٹھ کر چلا جاتا۔ واپس لوٹنے کا کچھ پتا نہیں۔ کتنا انتظار کرتی۔ شاید ابھی آجائے۔ پھر سب لوگوں کے ساتھ کتابیں سمیٹ کر گھر لوٹتی، تھکی تھکی، آزردہ۔ دوسرے روز ملتے تو مجھے اُمید ہوتی کہ معذرت کرے گا، البتہ خود کچھ نہ کہتی۔ ایک اہانت سی محسوس ہوتی تھی۔ کافی دیر میں خاموش رہتی اور لوگ آ جاتے۔ اِدھر اُدھر کی باتیں شروع ہوجاتیں اور کل والا واقعہ فراموش ہو جاتا۔
منیر نیازی ہمیشہ سے میرے پسندیدہ شاعر رہے۔ سہیل سے ان کے کافی تعلقات تھے۔ ایک تو کچھ رشتہ داری تھی، دوسرے ان کا تعلق بھی ساہیوال سے تھا۔ اس روز باقر صاحب کے کمرے میں لوگ کچھ کم تھے۔ وہ اچانک آ گئے۔ ”کیسے ہو باقر؟ سہیل مجھے تم سے ایک کام تھا۔ چلو۔“
باقر صاحب نے اپنے مخصوص انداز میں کہا: ”چائے کا ایک کپ پی لو۔“
وہ خلافِ توقع بیٹھ گئے۔ چائے کا آرڈر دیا گیا۔
سہیل نے مسکرا کر مجھے دیکھا اور بولا: ”نیازی صاحب، یہ بھی آپ کی مداح ہے۔“ انہوں نے غور سے مجھے دیکھا، پھر بولے: ”اسے گھر لے کر آؤ، میری بیوی اس سے مل کر خوش ہوگی۔“
”چائے آنے تک تم منیر صاحب کو ان کی وہ نظم سناؤ جو تمہاری پسندیدہ ہے۔ بقول تمہارے ان کی بہترین نظم۔“ او رساتھ ہی وضاحت کر دی: ”خزاں زدہ باغ پر بوندا باندی۔“
”چھوڑو یار، لمبی نظم ہے، کہاں یاد رہتی ہے۔“ نیازی صاحب بولے۔
”نہیں، شاعر اپنا کلام سناتے ہیں۔ کبھی دوسروں کی زبانی بھی اپنا کلام سننا چاہیے۔“
میں حیران پریشان سہیل کو دیکھ رہی تھی۔ کیا ہو گیا اسے؟ ایسے تو اس نے کبھی نہ کیا تھا۔ میں نے نظریں اٹھائیں تو منیرنیازی، باقر صاحب اور باقی سبھی لوگ مجھے دیکھ رہے تھے۔ میں نے گلا صاف کیا اور آنکھیں بند کر لیں:
آمدِ باراں کا سنّاٹا
کبھی کبھی اس سنّاٹے میں ٹوٹ کے گرتے پتّے
دیو آ سا اشجار کھڑے ہیں
کہیں کہیں اشجار تلے ویران پرانے رستے
لے کے چلیں آوارہ ہوائیں
ایک نشانی جو اُس کی تھی اُس کو واپس پہنچانے
آج بہت دن بعد آئی ہے شام یہ چادر تانے
اک وعدہ جو میں نے کیا تھا اُس کی یاد دلانے
آج بڑے دن بعد ملے تھے گہری پیاس اور پانی
ساحلوں جیسا حسن کسی کا اور میری حیرانی

میں نے نظم ختم کی تو میری آنکھوں سے پانی بہہ رہا تھا۔ ”بہت خوب۔“ نیازی صاحب نے کہا۔
”مجھے تو خود بھی یہ نظم اتنی تکمیل کے ساتھ یاد نہیں۔“ میرے سر پر انہوں نے ہاتھ رکھا۔ باقر صاحب چائے کا ٹرے دیکھ کر بولے: ”لو بھئی چائے آگئی۔ چائے بناؤ۔“ نیازی صاحب نے چائے کے دو بڑے بڑے گھونٹ بھرے: ”چلو بھئی، سہیل۔“ دونوں اُٹھ کر چلے گئے۔ ان کے جانے کے بعد لوگوں نے سہیل کی اس ظالمانہ کارروائی کی مذمت کی کہ اچانک اس طرح کسی کو آزمائش میں نہیں ڈالنا چاہیے۔ باقر صاحب مسکرا رہے تھے: ”یہ تو دیکھو، نجمہ کیسے کامیاب ہوئی۔“
دوسرے روز ہم ملے تو میں نے اس سے بالکل بات نہ کی۔ ایک دو مرتبہ اس نے مجھ سے کچھ کہا، میں کتاب کھولے بیٹھی رہی۔ اس نے باقر صاحب کی طرف دیکھا تو وہ سنجیدگی سے بولے: ”لڑکیوں کو اس طرح امتحان میں نہیں ڈالنا چاہیے۔“ اسے بات سمجھ آ گئی۔ ”اوہو، اسی پر ناراض ہیں، لیکن ٹھیک سنا تو دی بلکہ نیازی صاحب راستے میں کہہ رہے تھے کہ تم نے اس کو تو حکم دے دیا، اب خود اسی ترتیب سے نظم سناؤ تو میں نے کہا مجھے اتنی یاد نہیں۔ کہہ رہے تھے کمال کی یادداشت ہے۔“ پھر ہلکی سی آواز میں بولا: ”کہہ رہے تھے تمہارے لیے ٹھیک ہے۔“
مجھے ہنسی آ گئی: ”پر یہی کیوں کہی۔“
”وجدان۔“ اس نے جواب دیا۔
”وجدان اور کشف و کرامات، یہی تمہاری چالاکیاں ہیں۔ بڑے صوفی صاحب بنتے ہو۔“ لڑکیوں نے اس کا نام صوفی صاحب رکھا تھا، غائبانہ وہ اس کا ذکر اسی القاب سے کرتیں۔
یونیورسٹی کے اندر ہی ہماری ملاقاتیں ہوتیں، زیادہ تر باقر صاحب کے کمرے میں۔ کبھی کبھی غالب کا کوئی شعر درمیان میں آ جاتا۔ میں اس سے وضاحت چاہتی اور یہ تو ہمیشہ اس کی عادت رہی کہ کہتا: ”پہلے تم بتاؤ کیا سمجھی ہو؟“ بہرحال جومجھے سمجھ میں آتا میں بولتی۔ اس کے بعد وہ وضاحت کرتا۔ افتخار زیدی سہیل کا بہت قریبی دوست تھا۔ وہ بھی اتفاق سے ایک دن موجود تھا۔ ایسے ہی موقع پر بولا: ”یار تم کیا ہر وقت اُستاد ہی بنے رہتے ہو۔“ سہیل اسے غور سے دیکھتے ہوے بولا: ”بور ہو رہے ہو؟ ٹولنٹن مارکیٹ کے بس سٹاپ پر چلے جاؤ۔ اب تک اس کی چار بسیں مس ہو چکی ہیں۔“ مجھے ہنسی آگئی۔ وہ اُٹھ کر چلا گیا۔ ”بھلا یہ چار بسوں کی کیا گنتی تھی؟“ ”ایک نمبر بس ہر پندرہ منٹ بعد آتی ہے۔ یہ جائے گا تو وہ سوار ہو گی۔ خواہ مخواہ ایک گھنٹے سے یہاں بیٹھا ہے۔“ باقر صاحب کلاس لے کر آئے تو میں نے اُن کو بتایا کہ زیدی کی کیا دُرگت بنی۔ وہ بہت ہنسے، پھر بولے: ”یار، اس کو تو بخش دیا کرو۔ بہت کام کا بندہ ہے۔“ سہیل نے سنجیدگی سے کہا: ”وہی تو میں چاہ رہا تھا۔ جہاں کام ہے وہاں جائے۔ یہاں کیوں بور ہو رہا ہے۔“ باقر صاحب نے پوچھا: ”تم نے وہ کتاب ختم کر لی؟“ اس نے جواب دیا: ”جی ہاں۔“ اب دونوں اس پر اظہارِ خیال کرنے لگے۔ باقی موجود لوگ سنتے رہے۔
ایک دوسرے کی قربت کو پسند کرنا، یہی چاہت تھی اور شاید یہی محبت بھی۔ نہ اس نے کبھی میری تعریف کی نہ کسی چیز کو سراہا۔ میں البتہ کبھی کہہ دیتی: ”اُف، کیا برا رنگ پہنا ہؤا ہے!“ تووہ جواب دیتا: ”میں پڑھنے آتا ہوں۔“ یا یہ کہ ”میرا خیال تھا آج تم چھٹی کرو گی۔“ اکثر تو کوئی جواب ہی نہ دیتا!
پھر ہمارے ایم اے فائنل کے امتحان ہو گئے۔ اب ظاہر ہے کہ کالج جانا کم ہو گیا۔ ہفتے میں ایک آدھ بار کتاب لینے یادینے کے لیے چکّر لگ جاتا۔ یا کبھی انارکلی بازار جانا ہوتا تو اورئینٹل کالج سے بھی ہو آئے۔ ٹیلی فون ہمارے گھر تھا لیکن اس زمانے میں تو کسی لڑکے کا فون آنا سخت معیوب بات تھی۔ اپنی دوست کے ساتھ میں باقر صاحب کی بیگم سے ملنے گئی۔ ان سے ہماری خوب دوستی تھی۔ ان کے والدین کراچی سے لاہور آ رہے تھے اور ان کو بڑے گھر کی تلاش تھی۔ ان دنوں ہمارے گھر کا اُوپر والا پورشن خالی تھا۔ میں نے ان کو بتایا۔ وہ لوگ ہمارے گھر آئے۔ گھر پسند آیا۔ چنانچہ باقر صاحب نے وہ حصہ کرائے پر لے لیا۔ پھر ہمارا رزلٹ نکلا۔ حسبِ توقع سہیل نے ٹاپ کیا۔ سب ہی بہت خوش ہو رہے تھے۔ اسی سال سہیل کی اورئینٹل کالج میں لیکچرر کے طور پر تقرری ہو گئی۔ میں نے ایم اے فائن آرٹس میں داخلہ لے لیا۔ ظاہر ہے کہ وہ تو اُستاد بن چکا تھا۔ پہلے والا ماحول بھی نہ رہا تھا۔
میں کبھی اپنے ڈیپارٹمنٹ سے فارغ ہوتی تو اورئینٹل کالج چلی جاتی۔ باقر صاحب اور سہیل کو اب اکٹھا کمرا مل گیا تھا۔ دونوں کی میزیں برابر برابر لگی ہوئی تھیں۔ میں ہمیشہ باقر صاحب کی میز کے سامنے والی کرسی پر بیٹھتی۔ اسے میری موجودگی کا برابر علم رہتا لیکن وہ لاتعلقی ظاہر کرتا۔ طالب علموں کا ہجوم اب بھی اسی طرح ہوتا تھا۔ پھر میں اُٹھ کھڑی ہوتی: ”باقر صاحب، میری کلاس ہے، میں جا رہی ہوں۔“
”ٹھیک ہے، ٹھیک ہے۔“ وہ سر ہلاتے۔ پھر میں بہت ادب سے سہیل سے کہتی: ”جو کتاب آپ نے کہی تھی پرسوں ضرور لیتے آیئے گا۔“ مراد ہوتی کہ میں پرسوں آؤں گی۔
”ٹھیک ہے۔“ وہ جواب دیتا اور میں باہر نکل آتی۔
یونیورسٹی لائبریری کے باہر یا گزرتے ہوے لوگ بات کر لیتے تھے لیکن سہیل کو یہ گوارا نہ تھا۔ اجنبیوں کی طرح وہ قریب سے گزر جاتا۔ اورئینٹل کالج کی لمبی راہداری سے گزرتے ہوے کوئی نہ کوئی واقف مل جاتا: ”کیا حال ہے؟ کیا ہو رہا ہے؟“ اس قسم کے جملوں کا تبادلہ ہو جاتا۔ یہاں بھی اگر کبھی سہیل سامنے سے آتا دکھائی دیتا تو میں ایک طرف ہٹ جاتی اور وہ لاتعلقی سے گزر جاتا۔ ایک مرتبہ ایسا ہؤا کہ انہی کے کمرے کی طرف جا رہی تھی۔ یہ چند طالب علموں کے ساتھ تیزی سے چلتا ہؤا اپنے کمرے میں داخل ہو گیا۔ اس وقت میں نے اپنی تذلیل محسوس کی۔ کیوں؟ پتا نہیں۔ میں اپنی کلاس چھوڑوں، اتنا چل کر یہاں آؤں اور ان کی شانِ بے نیازی دیکھو۔ میں ڈاکٹر عبادت بریلوی صاحب کے کمرے میں چلی گئی۔ وہ بہت شفیق انسان تھے اور بے حد نفیس بھی۔ مسکراتے ہوے بولے: ”فائن آرٹس کیسا جارہا ہے؟“ ”بہت اچھا سر۔“ اسی طرح چار پانچ باتیں کر کے میں واپس لوٹ آئی۔
شام کو میں اُوپر قیصر باجی کے پاس گئی تو اتفاق سے باقر صاحب موجود تھے (وہ گھر دیر سے آتے تھے)۔ ”تم آج ڈیپارٹمنٹ آنے والی تھیں؟“
”نہیں تو۔“ میں نے سادگی سے جواب دیا۔
”وہ دراصل سہیل بار بار دروازے کی طرف دیکھ رہا تھا۔ میں نے سوچا……“ وہ ہڑبڑا گئے۔
”آپ کو کیا پتا کہ وہ دروازے کی طرف کیوں دیکھ رہا تھا۔“ قیصر باجی نے ہنستے ہوے کہا۔
”نہیں، دراصل وہ کچھ مضطرب سا ہو گیا تھا۔“
”سہیل اور اضطراب!“ میں ہنسنے لگی۔ ”باقر صاحب، طوفان بھی گزر جائے نا تو وہ مضطرب نہ ہوگا۔ ہاں البتہ مطلوبہ ستارہ آسمان پر نظر نہ آئے تو رات بھر جاگتا رہے گا کہ ستارہ گیا کہاں؟“ (”کچھ مطلوبہ ستارے ہیں جو میں دیکھ کر سوتا ہوں۔“ اس نے ایک بار کہا تھا۔)
باقر صاحب خاموش ہو گئے۔
اب میں نے بھی اپنے آپ کو پکّا کر لیا کہ کچھ بھی ہو میں اورئینٹل کالج نہیں جاؤں گی۔ ایک مرتبہ اسی نے کسی بات پر کہا تھا: ”پتھر اپنی جگہ پر ہی بھاری ہوتا ہے۔“ بس اب یہ پتھر اپنی جگہ پر رہے گا!
اسی طرح کئی روز گزر گئے۔ فائن آرٹس سے ہم لوگ تقریباً چار بجے فارغ ہوتے تھے۔ چار ساڑھے چار بجے بھائی مجھے لینے آتا تھا۔ میں گیٹ کے پاس کھڑی اس کا انتظار کر رہی تھی کہ سہیل خدا جانے کہاں سے نمودار ہؤا۔ میں تو اپنے دھیان میں تھی۔ اس نے ایک چٹ میری طرف بڑھائی: ”پرشین پینٹنگز پر یہ کتاب تمہاری لائبریری میں ہے۔ ایک دن کے لیے لے آنا۔“
”ہماری لائبریری والے دوسروں کو کتاب نہیں دیتے۔“ میں نے روکھے سے لہجے میں کہا۔
”کل گیارہ بجے میں فارغ ہوں۔ اپنے کمرے میں ہوں گا۔“ وہ تیزی سے قدم اٹھاتا ہؤا چلا گیا۔
گھر واپس پہنچ کر میں نے کتابیں، رنگوں کا ڈبا، برش اپنی اپنی جگہ پر رکھے۔ وہ چٹ ابھی تک میرے ہاتھ میں دبی تھی۔ کیا رعب ہے! کتاب گیارہ بجے دے جانا۔ اس بندے کے ساتھ کیسے گزرے گی؟ یہ تو یوں اجنبی بن جاتا ہے۔ اور اب کتنے رعب سے کہا: کتاب لے آنا۔
دوسرے دن میں نے لائبریری میں کتاب دیکھی لیکن وہ ملی نہیں۔ اب یہ کہنے تو میں نہیں جا سکتی تھی کہ کتاب نہیں ملی۔ میری دوست شاہینہ اور میں کینٹین کی طرف جا رہے تھے کہ مجھے اس کی ایک شاگرد نظر آئی۔ میں نے وہی چٹ اسے پکڑائی اور کہا: ”یہ سرسہیل کو دے دینا اور کہہ دینا کہ کتاب نہیں ملی۔“
ابھی ہم کینٹین میں بیٹھے چائے پی رہے تھے کہ کھڑکی میں سے باہر دیکھتے ہوے شاہینہ نے کہا: ”سہیل گزر کر اُدھر گیا ہے۔“ اسے ہمارے لگاؤ کا علم تھا۔ اسی دوران ایک لڑکی کینٹین میں آئی اور ایک چٹ مجھے پکڑا کر واپس نکل گئی۔ میں نے چٹ دیکھی، سہیل کی تحریر تھی: ”باہر آؤ، تم سے ایک ضروری بات کرنا ہے۔“ میں نے شاہینہ کو چٹ دکھائی۔ وہ بھی سنجیدگی سے بولی: ”کوئی ضروری بات ہی ہو گی۔“
”میں جاؤں؟“
”جاؤ لیکن جلدی آ جانا۔ سارا کچھ سٹوڈیو میں بکھرا پڑا ہے۔“
میں اُٹھ کر باہرنکلی تو سہیل آہستہ آہستہ چلتا ہؤا گیٹ تک پہنچ چکا تھا۔ میں نے اس کے برابر جا کر کہا: ”کیا بات ہے؟ ڈرا ہی دیا۔“ وہ سڑک پار کرتا ہؤا بولا: ”ٹولنٹن مارکیٹ کے ساتھ کیفے ٹیریا میں بیٹھتے ہیں۔“ خیر، وہاں اُس نے چائے کا آرڈر دیا، پھر سنجیدگی سے بولا: ”میرا خیال ہے ہمیں شادی کرلینا چاہیے۔“
پتھر بن کر رہنا میرے لیے بھی کافی صبرآزما ہو رہا تھا۔
”میرا ایم اے؟“ مجھے کچھ اور نہ سوجھا۔
”ہو جائے گا وہ بھی۔ تم شادی کے بعد جاری رکھ سکتی ہو۔“
اب مسئلہ تو یہ تھا کہ سارے معاملات کون طے کرے گا؟ میری فیملی کشمیری تھی اور سہیل پٹھان اور ہمارے زمانے میں عام طور پر کوشش یہی ہوتی تھی کہ شادی برادری کے اندر ہی ہو۔ ہمارے ہاں تو کبھی کبھی اس سلسلے میں نرمی برت لی جاتی لیکن سہیل کی فیملی میں پٹھانوں سے باہر شادی کرنے کا کوئی تصوّر نہ تھا۔ سہیل کو اس کی کوئی پروا نہ تھی۔ بہرحال سارا معاملہ باقر صاحب کے سامنے رکھا گیا۔ وہ کچھ متفکّر سے ہو گئے۔ دراصل ان دنوں وہ ہمارے گھر کے اُوپر والے پورشن میں قیام پذیر تھے۔ میرے والد کا ری ایکشن کیا ہو گا؟ وہ اس سے گھبرا رہے تھے۔ سہیل نے کہا: ”میرے گھر والوں کی فکر نہ کرو۔ افتخار زیدی کے ہاتھ بھیجا ہؤا ایک رقعہ ہی کافی ہو گا۔“
باقر صاحب ویسے تو گھنٹوں لیکچر دے سکتے تھے لیکن ہم نے ان کو کس مسئلے میں پھنسا دیا۔
باقر صاحب نے جب میرے والد سے کہا: ”ایک ضروری بات کرنا ہے۔ کچھ وقت دے سکیں گے؟“ تو وہ سمجھ نہ پائے کہ باقر کو کیا مسئلہ ہے جس میں ان کی ضرورت پڑ گئی۔ والد ان کو لے کر ڈرائنگ روم میں چلے گئے۔ میں نے دروازے کی درز میں سے جھانک کر دیکھا۔ باقر صاحب دونوں ہاتھ گھٹنوں میں دبائے بیٹھے تھے۔ سر جھکایا ہؤا تھا۔
میں تو اپنے کمرے میں آ کر بیٹھ گئی۔ ان سے بات نہ ہو سکی ہو گی۔ تھوڑی دیر بعد معلوم ہؤا باقر صاحب اُوپر چلے گئے ہیں۔ میں نے کمرے میں کوئی ایک گھنٹہ مشکل سے گزارا، پھر اُوپر پہنچ گئی۔ قیصر باجی مسکرا رہی تھیں۔ میں نے اشارے سے پوچھا: ”کیا ہؤا؟“ ”تمہارے باؤ جی نے ان کی ساری لیکچرارانہ صلاحیت ضبط کر لی۔“ باقر صاحب تو خاموش ہی تھے۔ میں بے مزہ ہو کر نیچے آ گئی۔
یہ تو مجھے معلوم تھاکہ میرے والد خاصے روشن خیال ہیں لیکن اس معاملے میں ان کے خیالات کا اندازہ نہ ہو رہا تھا۔ رات کو انہوں نے مجھے اپنے کمرے میں طلب کیا۔
”باقر میرے پاس آیا تھا۔ کیوں آیا تھا؟ تمہیں معلوم ہو گا۔“ میں چپ کھڑی رہی۔
”تمہیں علم ہے سہیل یونیورسٹی میں ایڈہاک پر کام کر رہا ہے۔“
یہ تو معلوم تھا کہ اسے لیکچررشپ مل گئی ہے لیکن یہ ایڈہاک ہونا کیا بلا ہے؟ میری سمجھ میں نہیں آ رہا تھا۔
”ہر چھ ماہ بعد نیا کونٹریکٹ ہوتا ہے۔ برخاست بھی کیا جا سکتا ہے۔“
یہ بھی کوئی بات تھی پریشانی کی! ”کاروباری ذہن۔“ میں نے سوچا لیکن خاموشی میں ہی عافیت تھی۔
”رہو گے کہاں؟“ اس سوال کا بھی کوئی جواب نہ تھا کیونکہ سہیل وولنر ہوسٹل میں رہ رہا تھا۔
”کرائے پر گھر مل جاتے ہیں۔“ اب امی بولیں جو ایک طرف خاموش بیٹھی تھیں۔ ان دنوں سہیل ٹی وی پر ایک پروگرام ”اقبال کی طویل نظموں کا تجزیہ“ کرتا تھا اور یہ پروگرام کافی مقبول تھا۔ گھر میں سبھی اسے میرے کلاس فیلو کے طور پر جاننے لگے تھے۔
”شادی کے بعد ہم کسی قسم کی ذمے داری نہ لیں گے۔“ میرے پاس اس کا بھی کوئی جواب نہ تھا۔
۸۱ نومبر ۲۷۹۱ء کو ہماری شادی بہت اچھے طریقے سے ہو گئی۔ شادی کے کئی سال بعد سہیل کی والدہ نے ایک مرتبہ کہا: ”میں تو اس کی شادی کی ذمے داری لے ہی نہیں سکتی تھی۔ اس نے کہاں کسی کی سننا تھی۔ اب تم دونوں خوش ہو تو میں بھی مطمئن ہوں۔“
شادی کے بعد بہت جلد سمجھ میں آگیا کہ ہم جماعت کا سنجیدہ، متین، عالم و فاضل ہونا اور بات لیکن شوہر میں موجود ان صفات کے ساتھ زندگی کو ڈھالنا کس قدر مشکل! دوسرے کی بات تو پوری سنتا ہی نہیں۔ لمبی بات تو وہ ہمیشہ کم ہی کرتا۔ لیکن میرے ساتھ تو مسئلہ ہو گیا کہ میں کوئی بات شروع کرتی تو آدھی بات سن کر سر ہلا کر کہتا: ”سمجھ میں آ گیا۔“ مجھے غصہ آ جاتا۔ کبھی کبھی تو بات محض بات کرنے کے لیے ہی ہوتی ہے۔ اگر میں شکایت کرتی تو کہتا: ”جو بات تم سنا رہی تھیں میں سمجھ چکا تھا۔“ پھر میں نے اس کی اس عادت سے سمجھوتا کر لیا۔ شکست تسلیم کی وہ یوں کہ میں بھی پوری بات سنا کر ہی دم لیتی حالانکہ وہ کالج کی یا ٹی ہاؤس کی کوئی بات گھر میں نہ کرتا، جیسے باہر کی زندگی باہر ہی چھوڑ آیا ہو۔
شادی کے بعد ابتدا سے ہی اس کا معمول رہا کہ یونیورسٹی سے لوٹ کر کپڑے بدلے اور بستر پر لیٹ کر کتاب کھول لی۔ کھانا اس نے خود کبھی نہیں مانگا۔ میں میز پر کھانا لگا کر آواز دیتی: ”کھانا کھالو۔“ کھانا کھانے کے بعد کتاب کا مطالعہ۔ تھوڑی سی نیند۔ اُس کے بعد پاک ٹی ہاؤس روانگی اور رات دس بجے تک واپسی۔ ایک لگا بندھا شیڈول تھا۔ فائن آرٹس ڈیپارٹمنٹ مَیں چھوڑ چکی تھی۔ اور اب مجھے اس صورتِ حال سے ایڈجسٹ کرنا تھا۔
میں نے اپنی شادی کو ایک چیلنج کے طور پر ہی لیا۔ ایک طرف تو والد تھے جنہوں نے شادی تو کر دی تھی لیکن اب وہ کسی قسم کی ذمے داری قبول کرنے کو تیار نہ تھے۔ اپنے سسرال والوں کو میں اچھی طرح نہ جانتی تھی لیکن یہ احساس ضرور تھا کہ سہیل نے شادی برادری سے باہر اپنی مرضی سے کی ہے اور یہ تو میں برداشت ہی نہ کر سکتی تھی کہ کوئی کہے: اپنی مرضی کی تھی نا۔ اب خود ہی بھگتے۔ پھر اس کی چاہت تھی کہ مجھے اسے بھی ہر صورت خوش رکھنا تھا۔ اور اسے خوش رکھنے کی صورت یہی تھی کہ اس کی مرضی کے مطابق چلا جائے!
کبھی کبھی سوچتی: میں نے کتنی مشکل زندگی چنی۔ ایک مرتبہ میں نے کہا: ”تمہاری ساری روٹین میں مَیں تمہیں کہیں نظر بھی آتی ہوں؟“ کتاب بند کر کے وہ چند لمحے مجھے دیکھتا رہا، پھر بولا: ”میں نے تمہیں کوئی سبز باغ نہیں دکھائے۔“ بڑا ہی کاری وار تھا۔ میری آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ اب راستہ یہی تھا کہ میں اِدھر اُدھر ہو جاؤں۔ میں اُٹھ کھڑی ہوئی: ”رکو، اِدھر میری طرف دیکھو۔“
اب آنسو چھلک ہی جانے تھے۔
”میرے آنسو دیکھنا چاہ رہے ہو؟“
”مجھے علم نہ تھا تم اس قدر ذکی الحس ہوگی۔“
”اب تو علم ہو گیا نا؟ ویسے، بائی دی وے، میں تمہیں ڈھیٹ کب لگی تھی؟“
”اچھا، بتاؤ آج سارا دن کیا کرتی رہیں؟“
”کچھ نہیں۔“
”کوئی آیا گیا نہیں؟“
”نہیں۔“
”سبزی والا بھی نہیں؟“
میرے صبر کا امتحان —— ”نہیں۔“
”کوئی کتاب بھی نہیں پڑھی؟“
میرے دن کا بڑا حصہ فکشن کے سہارے گزرتا تھا لیکن اس وقت میں نے جواب دیا: ”نہیں، کوئی کتاب پڑھنے کو جی نہیں چاہتا۔“
”جمود کا شکار ہو گئی ہو؟“
”ہر شے بظاہر چلتی پھرتی ہے لیکن جامد ہے۔“ یہ اسی کا فقرہ تھا جو میں نے دہرایا۔
”چھوٹی چھوٹی باتیں کرتے رہنا چاہیے۔ ان سے بھی زندگی کے کئی رخ اُجاگر ہوتے ہیں۔“
”چھوٹی چھوٹی باتیں تمہیں بھاتی ہیں؟“
”تم کرتی رہو،“ اس کے ہونٹوں پر مسکراہٹ تھی، ”تمہارے منہ سے اچھی لگتی ہیں۔“
”یہ اقرار تو کبھی نہیں کیا۔“ مجھے ہنسی آ گئی۔
رفتہ رفتہ مجھے اندازہ ہو گیا کہ کتاب اُس کی زندگی میں اوّلین حیثیت رکھتی ہے۔ مطالعے کا شوق تو مجھے بھی تھا لیکن شاعری اور فکشن کی حد تک لیکن یہاں تو اُس کے مطالعے کے پیمانے بدلتے رہتے۔ کبھی نفسیات، کبھی فلسفہ، کبھی علم الارواح، کبھی میجک، کبھی تاریخ اور کبھی انگریزی تنقید۔ بس کتابوں سے لدا پھندا آتا جاتا رہتا۔ سرابوں کے بھنور سے میں اس وقت باہر آئی جب بڑی بیٹی پیدا ہوئی۔ اب تو سارا دن اسی کے ساتھ گزرتا۔ اس کی دیکھ بھال، اس کے لیے فراک سیے جا رہے ہیں اور سارا دن اس سے بے شمار باتیں کرتی۔ سہیل کی عادات بھی آہستہ آہستہ سمجھ میں آ رہی تھیں: بے انتہا سادگی تھی، خلوص تھا لیکن اس کے معمولات میں دخل کی کوئی اجازت نہیں تھی اور نہ کسی قسم کی تبدیلی کے لیے وہ تیار تھا۔
اپنے اُوپر تنقید یا اعتراض وہ سن نہیں سکتا تھا۔ کوئی کچھ کہہ کر جائے کہاں؟
اور اپنی ذات میں جھانکنے کی اجازت تو وہ دے ہی نہ سکتا تھا۔ باقر صاحب کے کمرے میں بیٹھ کر کتابیں ڈسکس کرنا، رائے دینا، رائے لینا اور بات تھی۔ ویسے تو وہ اس وقت بھی برملا اظہار کر دیتا تھا، خواہ کسی کو برا لگے۔ میرے معاملے میں تھوڑا لحاظ کرتا تھا لیکن اب تو اس نے اپنے سارے ہتھیار استعمال کرنا شروع کر دیے تھے اور میں بھی ضرورت سے زیادہ حسّاس ہو گئی تھی۔ مجھے زیادہ نرمی اور محبت کی توقع تھی (شاید) اور اس کا تو یہ حال تھا کہ جو محسوس ہؤا کہہ دینا چاہیے۔ مجھے تو دعویٰ یا خوش فہمی تھی کہ میں اس کے بہت قریب ہوں۔ میری عادت تھی کہ میں اپنی ڈائری میں چھوٹی چھوٹی نظمیں لکھتی رہتی تھی۔ شادی سے پہلے میں نے سہیل کو یہ نظمیں نہیں دکھائیں۔ ایک روز یونہی خیال آیا کہ بھلا اس کی رائے تو لوں۔ ایک دن میں نے اپنی ایک نظم، جو مجھے تب بھی پسند تھی اور اب بھی ہے اور میں نے اسے اپنے شعری مجموعے ”آگہی کادرد“ میں شامل بھی کیا، کاغذ پر لکھ کر اس کے سامنے رکھ دی۔
کبھی ایسا بھی ہوتا ہے،
کوئی رہتا ہے، جیسے اک قدم کے فاصلے پر ہو۔
مگر اس اک قدم لینے میں صدیاں بیت جاتی ہیں۔
”کیا ہے یہ؟“ اس نے نظریں اُٹھا کر مجھے دیکھا۔
”میری نظم۔“ میری آواز خوشی سے لرز رہی تھی۔
”اچھا، شاعرہ بھی ہو گئی ہو؟“ اس نے خاموشی سے کاغذ میرے ہاتھ میں تھما دیا اور مطالعے میں مشغول ہو گیا —— بغیر کسی تبصرے کے۔
اور میری ڈھٹائی (اب تو یہی کہوں گی): ”کیسی ہے؟“
”سطحی سوچ“ —— یہ اس کا جواب تھا۔ میں روہانسی ہو کر دوسرے کمرے میں آ گئی۔ یہ بھی تو کہہ سکتا ہے: ”اچھی ہے۔“ اس کا کیا بگڑجاتا! آنسوؤں سے بڑھ کر کوئی آپ کا دوست نہیں! یہ میں نے اسی زمانے میں جانا اور سمجھا۔ کتنی دیر تک میں ڈرائنگ روم میں بیٹھی روتی رہی، پھر اُٹھ کر منہ دھویا اور چائے بنانے باورچی خانے میں چلی گئی کیونکہ اب ٹی ہاؤس روانگی کا وقت تھا اور گھر سے نکلنے سے پہلے وہ چائے کا ایک کپ ضرور لیتا۔ چائے کے دو کپ بنائے۔ اس کا کپ میز پر رکھا اور خود خاموشی سے کرسی پر بیٹھ کر چائے پینے لگی۔ اسے کچھ کہہ کر نہ تو میں اپنی کمزوری دکھانا چاہتی تھی اور نہ اس سے کوئی اور بُری سی بات سننا چاہتی تھی۔ عام طور پر میں اُٹھ کر دروازہ بند کرتی تھی لیکن میں اسی طرح بیٹھی رہی۔ باہر جانے کا دروازہ کھول کر نکلتے ہوے اس نے آواز دی: ”دروازہ بند کر لو۔“
کیا اسے اندازہ نہیں ہؤا کہ میں نے اس کی بات کا برا مانا اور اب اُٹھی نہیں۔ حقیقت تھی کہ اس کا یہ فقرہ ”سطحی سوچ“ مجھے بہت دکھی کر گیا۔ بس اب میں اس کو کچھ نہیں دکھاؤں گی اور اپنی ڈائری کو چھپا کر رکھ دیا۔ رات کو وہ لوٹا۔ کپڑے بدلے، کھانا کھایا اور بستر میں لیٹ کر کتاب کھول لی۔ میں بھی چپ چاپ لیٹ گئی۔ ”کیا بات ہے؟“ اس نے کتاب بند کرکے پوچھا۔ ”کچھ نہیں۔ سر میں درد ہے۔“ ”اچھا، کوئی گولی لے لو۔“ دوائیوں کے نام اسے کہاں آتے تھے۔ ”لے لی۔“ ”ٹھیک ہے، سو جاؤ۔“ اس کی طرف سے نارمل دن کا خاتمہ ہو گیا۔ میں جلدی سو گئی اور وہ کتاب پڑھتا رہا۔
کچھ دنوں بعد کی بات ہے کہ ایک شام بارش ہو رہی تھی۔ سو وہ ٹی ہاؤس نہ جا سکا۔ میرا تو یہ وقت ٹی وی دیکھتے گزرتا۔ یہ بھی اپنے کمرے سے ڈرائنگ روم میں آ گیا۔
”بہت دنوں سے تمہیں آمد نہیں ہوئی۔“
میرا دل پھر درد سے بھر گیا: ”سطحی سوچ والوں کے ہاں کیا آمد ہو گی؟“
”نہیں، ایسی شاعری کی بھی ادب کو ضرورت ہے۔“
”تاکہ ادنیٰ اور اعلیٰ کا فرق محسوس ہوتا رہے۔“ میں نے روکھے پن سے کہا، پھر جیسے اندر کی کلاس فیلو اچانک ہی جاگ اٹھی: ”تم نے مجھ سے شادی کیوں کی؟“
”بہت اچھی لگتی ہو۔“
”اچھی لگتی ہوں یا اچھی لگتی تھی؟“
وہ مسکراتا رہا۔ ساری زندگی میرا یہی مسئلہ رہا۔ میں اس سے ناراض نہ رہ سکی اس لیے کبھی لڑائی بھی نہ ہوتی۔ ہمیشہ کوشش کرتی کہ جو بات مجھے بُری لگے نظرانداز کردوں۔ بس تنہائی میں رو دھو کر غبار نکل جاتا اور میرا دل یوں صاف ہو جاتا جیسے کچھ ہؤا ہی نہیں۔
محبت پانے کے معاملے میں وہ بہت خوش قسمت تھا۔ ماں باپ تو سبھی کے چاہتے ہیں لیکن ان کی محبت میں بے غرضی اور بے لوثی اور ہی انداز کی تھی۔ دورانِ تعلیم وہ شہزادوں کی طرح رہتا کیونکہ والد بہت پیسے بھیجتے اور وہ بھی مانگے بغیر۔
سہیل کے والد نے ریٹائرمنٹ کے بعد ساہیوال میں مستقل رہائش اختیار کر لی تھی۔ اپنا وسیع و عریض گھر بھی وہیں بنایا تھا۔ اور یہ شہزادے صاحب عید کی چھٹیاں بھی لاہور میں گزارتے۔ ایک مرتبہ میں نے اپنی ساس سے شکوہ کیا کہ آپ اسے کم از کم دو تین ماہ بعد یا عید کی چھٹیوں میں ساہیوال آنے کی عادت ڈال سکتی تھیں۔ ”اب آتا ہے نہ تمہارے ساتھ۔“ انہوں نے مسکراتے ہوے کہا۔ ”لیکن پہلے کیوں نہیں؟“ میں اَڑی رہی۔ ”دیکھو نا تمہارے پاپا (سسر) کی اپنی مصروفیات اور شوق تھے۔ خرّم لاہور میں پڑھ رہا تھا۔ کوثر اپنے دوستوں میں لگا رہتا۔ اب میں اور چھوٹی ثوبیہ اسے کیسے خوش رکھتے؟ اس سے کیا باتیں کرتے؟ ثوبیہ سہیل سے بارہ سال چھوٹی تھی۔ بس میں سوچتی: یہاں آ کر بھی کمرے میں بند ہی رہے گا۔ جہاں خوش ہے وہیں رہے۔ کبھی زیادہ اداس ہوتی تو غفار (چھوٹا بھائی) کے ہاں چلی جاتی۔ یہ آ کر مل جاتا۔ تسلّی ہو جاتی۔“ ایسی ایثار والی ماں کہاں کسی کو ملی ہوگی! ہماری شادی کے بعد بھی اگر وہ بیمار ہو جاتیں اور لاہور میں آ کر دکھانا ضروری ہوتا تو ماموں غفار کے ہاں ہی ٹھیرتیں۔ کوثر ڈاکٹروں کو دکھاتا۔ ضروری ٹیسٹ ہوتے اور پھر وہ واپس چلی جاتیں۔ مجھے بعد میں علم ہوتا۔ میں ان سے شکوہ کرتی تو وہ کہتیں کہ بیماری کا علاج تو ڈاکٹر نے کرنا تھا۔ کوثراور رضوانہ (سہیل کی ممانی) سب ڈاکٹروں کو جانتے ہیں۔ سہیل کو خواہ مخواہ تکلیف ہوتی۔ ان کی ہمیشہ یہی خواہش رہی: سہیل کو تکلیف نہ ہو کسی بھی معاملے میں۔ شادی کے بعد ہم ساہیوال زیادہ جانے لگے تو ان کی خوشی قابلِ دید ہوتی۔ اس کی پسند کے کھانے پک رہے ہیں۔ خانساماں سے ہر گھنٹے بعد کہتیں: ”جا پوچھ کے آ، چائے تو نہیں پینی؟“ بات وہ بھی بہت کم کرتیں۔ بس باتیں سننے کی شوقین تھیں۔ اور سہیل کے ساتھ شاید ایک آدھ جملہ ہی ایکسچینج ہوتا۔ میں سہیل سے کہتی کہ کھل کر امی کا حال تو پوچھ لیا کرو۔ امی کے ساتھ بھی لگائی بجھائی کرتی تو وہ مسکراتی رہتیں: ”مجھے معلوم ہے اسے میری کتنی فکر ہے۔ کہنا ضروری تو نہیں!“
سہیل سے چھوٹے دو بھائی ہیں: کوثر خان اور خرّم خان اور پھر ایک بہن، جس کا میں نے ذکر کیا ہے، اس سے بارہ سال چھوٹی ہے۔ بھائیوں میں تقریباً ڈیڑھ ڈیڑھ سال کا فرق ہے۔ بہن کا تو سہیل سے مؤدب ہونا سمجھ آتا ہے لیکن بھائی بھی اس کا بہت ہی احترام کرتے۔ اس کے سامنے کبھی اُونچے لہجے میں بات نہ کی۔ ساہیوال میں ہم مل بیٹھتے۔ چھوٹی خالہ کے بچے بھی آ جاتے۔ بہت باتیں کرتے۔ لطیفے، فقرے بازیاں —— لیکن یہ سب کچھ سہیل کے سامنے نہ ہوتا۔ وہ اگر کبھی اِدھر آن نکلتا تو سب خاموش ہو جاتے۔ بلکہ کبھی کبھار یہ ایک آدھ فقرہ کستا تو کوئی جواب نہ دیتا۔ میں نے ایک بار کوثر سے پوچھا بھی تو بولا: ”پتا نہیں۔ جی چاہتا ہے ہماری کوئی بات اسے بری نہ لگے۔ دراصل وہ پڑھنے پڑھانے والا بندہ ہے۔ ہماری گفتگو سے بہت الگ اس کی سوچ ہے۔“ ”ہے تو انسان ہی نا۔“ میں چڑ جاتی۔ ”سب نے مل جل کر اسے خراب کر دیا ہے۔ اس عمر میں علامہ بنے بیٹھے ہیں۔“ خرّم ہنستے ہنستے دہرا ہو جاتا۔ ”بڑا مزہ آیا۔ میں سوچتا ہوں کہ اگر آپ اسے نہ ملتیں تو یہ تو ——“ وہ پھر ہنسنے لگتا لیکن یہ ”تو“ سے آگے کچھ نہ کہتا۔ سہیل کی خالہ عطیہ اس قسم کے اجتماع میں کبھی اسے آواز دیتیں: ”سہیل توں وی ساڈے کول بیٹھ۔“ یہ آ کر کرسی پر بیٹھ جاتا۔ سارے مجمعے کا موڈ بدل جاتا۔ وہ یونیورسٹی کے بارے میں ایک دو باتیں کرتیں، پھر خاموشی چھا جاتی۔ مجھے بھی کچھ سمجھ میں نہ آتا کہ کیسے اسے اس فیملی گپ شپ میں شریک کروں —— پھر تھوڑی دیر بعد وہ اُٹھ کر اپنے کمرے میں چلا جاتا۔
لیکن اس کی اس خاموشی کو کسی نے کبھی بے رخی نہ کہا۔ میری ساس کا ساہیوال سے خط آتا تو ایک ہی فرمائش ہوتی تھی، دبی سی، سہیل کو لے کر عبدالفغار کے ہاں چکّر لگا آنا۔ پھر تو میں اسے لے کر ہی جاتی: ”ہائے، ماں کی اتنی سی فرمائش، توبہ توبہ!“ اور وہ اس ملاقات پر بہت خوش ہوتے اور ضرور کہتے: ”یار، یہ وقفہ تم بہت لمبا کر دیتے ہو۔ جلدی جلدی آیا کرو۔“ اسی طرح بڑی خالہ بھی جب لاہور آتیں تو ہمارے ہاں ضرور آتیں: ”میں نے کہا، سہیل خاں کو دیکھ آؤں۔“ وہ اسلام آباد میں رہتی تھیں اور اسے دیکھ کر ان کی آنکھوں میں ایسی چمک اور چہرے پر ایسی خوشی آ جاتی جیسے سارے جہان کا سُکھ مل گیا ہو۔ حقیقت میں وہ اس سے بہت محبت کرتی تھیں اور اسی حوالے سے مجھ سے بھی۔
مجھے اپنے سسرال سے بے پناہ محبت ملی۔ انہوں نے میری اس طرح پذیرائی کی کہ جیسے اگر میں ان کے خاندان میں شامل نہ ہوتی تو انہوں نے بہت کچھ کھو دینا تھا۔ اپریل کی چھٹیوں میں، گرمیوں کی چھٹیوں میں، دسمبر کی چھٹیوں میں، عیدوں کے موقعے پر میرا ساہیوال جانے کا پروگرام تیار ہوتا اور ان کو تو اب مزید کشش پوتی کی تھی۔ ساہیوال جانے سے سہیل نے کبھی انکار نہیں کیا۔ کرتا بھی کیسے؟ یہاں اس کی اَنا آڑے آتی۔ میری ساس بتاتی تھیں کہ شادی سے پہلے وہ بہت کم ہی ساہیوال کا چکّر لگاتا۔ آتا بھی تو شام کو آیا صبح لوٹ گیا۔ اور یہ گُر میں پا گئی کہ اسے لاہور سے باہر لے جانا ہے تو ساہیوال کا پروگرام پکّا رکھو۔
ایک مرتبہ میرے سسر نے سہیل سے کہا: ”ویسے تو تم زندگی کے سب فیصلوں میں خود مختار رہے لیکن تمہاری یہ خودمختاری ہمیں خوب راس آئی۔“ اشارہ میری طرف تھا۔ ساہیوال بھی وہ کتاب ساتھ لے کر جاتا۔ پاپا جی اس سے بات کرنے کی خاطر غالب کے دیوان میں سے اشعار پر نشان لگا کر رکھتے تھے، کہتے: ”یار، یہاں بات کچھ واضح نہیں ہوتی، سوچا تم آؤ گے تو تفصیلی بات ہو گی۔“ ایسے موقعے پر شاید اُس کے اندر کا اُستاد جاگ اُٹھتا۔ وہ شعر کی معنویت اور ادائیگی پر بات کرتا اور وہ انتہائی عقیدت سے سنتے رہتے: ”کمال ہے، یار، اس نکتے تک میں نہ پہنچ پایا۔“
میں کبھی اکیلے میں طنز کرتی: ”بے چارے ماں باپ بیٹے سے بات کرنے کے بہانے ڈھونڈتے ہیں۔“ اس کے چہرے پر ہلکی سی مسکراہٹ پھیل جاتی: ”چلو تم کو تو بہانے نہیں ڈھونڈنے پڑتے۔ بے تکان بولتی ہو۔ کبھی کبھی تو حیرت ہوتی ہے۔“
میں اپنی ساس کے ساتھ سارے رشتے داروں کے ہاں جاتی۔ انہیں کس قدرخوشی ہوتی۔ ایک روز صبح کے نکلے شام کو لوٹے۔ عطیہ خالہ کے گھر گئے، پھر ان کو ساتھ لیا، امی کی ایک کزن کی طرف چلے گئے۔ کھانا وہیں کھایا۔ وہاں سے بازار چلے گئے۔ واپسی پر شام ہو گئی۔ میں کمرے میں گئی۔ وہ حسبِ دستور کچھ پڑھ رہا تھا: ”کیا حال احوال ہیں؟“ میں نے اسے چھیڑنے کے لیے پوچھا۔ ”تمہیں واپسی یاد آگئی۔“ نظریں کتاب پر ہی تھیں۔ ”تمہیں کیا فرق پڑا ہوگا؟“ میں نے جیسے چڑانے کے لیے کہا۔ ”ہاں، کیافرق پڑنا تھا۔ ویسے اندر باہرچلتی پھرتی اچھی لگتی ہو۔“
بس اس کے اسی قسم کے فقرے مجھے نہال کر دیتے۔
تعریفی الفاظ تو اس کے منہ سے اگلوانے بہت مشکل تھے۔ شادی کے ابتدائی زمانے میں شاید ہر بیوی کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ تیار ہو تو شوہر ضرور کچھ تو تعریفی کلمات ادا کرے۔ میں تو ساری عمر خواہش کرتی رہی اور محروم ہی رہی۔
نئے کپڑے پہنے ہیں، تیار ہو کر کمرے سے نکلی ہوں: ”کیسی لگ رہی ہوں؟“
”جیسی ہو۔“
”جیسی ہوں سے مطلب؟ اچھی لگ رہی ہوں؟ بُری لگ رہی ہوں؟ کچھ تو کہا جا سکتا ہے۔“
”شیشے میں جیسی خود کو لگ رہی تھی ویسے ہی لگ رہی ہو۔ چلو اب جلدی کرو۔ پہلے ہی دیر ہوگئی۔ راستے میں اتنی ٹریفک ہو گی۔“
ان دنوں ہم نے نئی نئی موٹر سائیکل لی تھی۔ سہیل کے پیچھے بیٹھ کر باہر جانے کا بڑا مزہ آتا تھا۔ البتہ ایسا موقع کم ہی ملتا۔ صبح یونیورسٹی، شام ٹی ہاؤس اور جب وہ ٹی ہاؤس سے واپس آتا تو بیٹی سو چکی ہوتی۔
اس روز ہم واپس آئے تو حسبِ دستور سہیل نے ایک کپ چائے کی فرمائش کی۔ میں چائے بنا کر لائی تو بولا: ”بیٹھ جاؤ۔“ میں نے ابھی کپڑے نہیں بدلے تھے۔ ”میں کپڑے بدل آؤں؟“
”نہیں، بیٹھو۔“ میں صوفے پر بیٹھ کر سوالیہ نظروں سے اسے دیکھنے لگی۔
”یہ تم عام عورتوں کی طرح کیا سوال کرتی رہتی ہو: اچھی لگ رہی ہوں؟ بُری لگ رہی ہوں؟“
”تو کیا ایسا پوچھنا غلط ہے؟“ میں نے چڑ کر کہا۔
”تمہاری حد تک۔“
”کیوں؟ میری حد تک کیوں؟“
”تم سہیل احمد خاں کی بیوی ہو۔ یہ پہچان ہی تمہاری خوبصورتی ہے۔“
اس کے بعد تو میں خود بھی ایسے سوالوں کو بے معنی سمجھنے لگی۔
شادی کے ابتدائی سالوں میں مَیں اس کی لگی بندھی روٹین میں کبھی کبھی گھبرا جاتی۔
ایک روز میں نے سنجیدگی سے کہا: ”میں تمہاری زندگی میں کہیں ہوں بھی؟“
”ہرجگہ تو ہو۔“ وہ بھی سنجیدہ تھا۔
”کیسے؟“
”صبح کپڑے استری کرتی ہو۔ ناشتہ دیتی ہو تو یونیورسٹی جاتا ہوں۔ دوپہر کو کھانا کھلاتی ہو۔ شام کو رخصت کرتی ہو۔ رات گئے تک میرا انتظار کرتی ہو۔ دروازے بند کرتی ہو۔ اورکیا کیا بتاؤں؟“ اس کے چہرے پر مسکراہٹ تھی۔ ”تمہارے حوالے سے تو زندہ ہوں۔“
”خدمت خدمت خدمت۔ بس کل سے میں کوئی کام نہ کروں گی۔“
”میں بھی یونیورسٹی نہیں جاؤں گا۔“
بس بحث ہی تھی۔ دن چڑھتا اور وہی روٹین اور وہی ڈھیلی ڈھالی زندگی۔
لیکن پھر ہماری زندگی میں ایک بڑی تبدیلی آئی۔ 1977 میں پبلک سروس کمیشن میں مَیں نے لیکچررشپ کے لیے انٹرویو دیا اور منتخب ہو گئی۔ میری پہلی اپوائنٹ منٹ بہاول پور وکٹوریہ کالج، بہاول نگر میں ہوئی۔ نیا علاقہ، نئے لوگ اور نئے مسایل، پر میں خوش تھی۔ بڑی بیٹی شہرزاد کو، جو اُس وقت تقریباً سوا تین سال کی تھی، میں ساتھ لے گئی اور چھوٹی ہما، جس کی عمر ۳ ماہ تھی، اپنی امی کے پاس چھوڑ گئی۔ امی خود بھی چاہتی تھیں کہ میں اپنے پاؤں پر کھڑی ہوں۔ اکثر کہتیں: ”کب تک گھر بیٹھ کر خود کو ضایع کرتی رہوگی؟“ ان کا خیال تھا کہ ایم اے پاس کر کے نوکری نہ کی تو ساری پڑھائی ضایع کی۔
ہم پہلی مرتبہ جدا ہوے۔ خاص طور پر شیری پر بہت اثر ہؤا۔ اکثر وہ رات کو سہیل کو یاد کرتی: ”ابو کب آئیں گے؟“ میں اسے پیار کرتی کہ ہم چھٹیاں لے کر ان کے پاس جائیں گے۔ کالج کی زندگی بُری نہ تھی۔ سب لوگ تقریباً دوسرے شہروں سے آئے تھے اور ایک دوسرے کا خیال رکھتے تھے۔ طالبات بھی اچھی اور محنتی تھیں۔ لگن سے پڑھتیں۔ لیکن گھر سے دور ہونے کا احساس کبھی کبھی سوہانِ روح بنتا۔ صبح صبح ٹرین یہاں سے روانہ ہوتی۔ سیٹی کی آواز سن کر منیر نیازی کا شعر اور بھی غمزدہ کر دیتا:
صبحِ کاذب کی ہوا میں درد تھا کتنا منیرؔ
ریل کی سیٹی بجی تو دل لہو سے بھر گیا
ایک گھر کرائے پر لے کر ہم نے اسے ہاسٹل کی صورت دی تھی۔ اس کے قریب ہی لاری اڈّا تھا۔ وہاں سے صبح صبح بسیں روانہ ہوتیں: لاہور اے لاہور اے لاہور اے۔ تب جی چاہتا سب چھوڑ کر اس بس میں بیٹھ جائیں۔ اِدھر ہماری پرنسپل صاحبہ کو ہمارا لاہور جانا بہت کھلتا تھا کیونکہ اکثر بہانہ بنا کر دو دو تین تین چھٹیاں کر لیتیں۔ ایک ویک اینڈ پر میں نے ان سے سرسری سی بات کی کہ اگر وہ اجازت دیں تو میں لاہور جا کر شیری کی میڈ کو لے آؤں۔ وہ بھی موڈ میں تھیں، مان گئیں۔ اس روز جو گروپ جا رہا تھا شیری اور میں اُس میں شامل ہو گئے۔ خیال تھا کہ چار بجے یتیم خانے پہنچ جائیں گے اور وہاں سے رکشہ لے کر گھر چلے جائیں گے۔ سہیل کے لیے بڑا سرپرائز ہو گا۔
ابھی بس یتیم خانے کے سٹاپ سے تھوڑی دور تھی کہ شیری نے ناچنا شروع کر دیا: ”ابو، ابو، ابو۔“ اس نے سہیل کو دیکھ لیا تھا۔ میں تو حیران کہ اسے کیسے پتا چلا کہ ہم آ رہے ہیں؟ بس رکی۔ سہیل نے شیری کو بس میں سے اُتارا۔ رکشے میں بیٹھ کر میں نے پوچھا: ”تمہیں کیسے معلوم ہؤا ہم لوگ آ رہے ہیں؟“ ”بس میرا وجدان کہہ رہا تھا آج تم آؤ گی۔ سو تم اتنی دور سے آئیں تو کیا میں لینے نہ آ سکتا تھا؟“ بس یہی اس کی باتیں تھیں جب میں سمجھتی کہ مجھ سے زیادہ وہ کسی کو نہیں چاہتا!
پھر کچھ صورت ایسی بنی کہ میری ٹرانسفر نارووال کالج میں ہوئی اور پھر وہاں سے گورنمنٹ کالج برائے خواتین، گوجرانوالہ۔ شروع میں تو خیال تھا کہ میں گوجرانوالہ میں پھپھو کے ساتھ قیام کروں گی لیکن گوجرانوالہ میں ایک بڑا گروپ مل گیا جو روزانہ لاہور سے گوجرانوالہ آتا اور دو بجے کی تیزگام سے واپس لوٹ جاتا تھا۔
بڑی مشکل سے اپنے گھر کی طرف لوٹنا ہؤا۔ سسٹم دوبارہ سیٹ ہؤا۔ ہم لوگ صبح سویرے ریل کار سے گوجرانوالہ روانہ ہوتے اور تیزگام سے واپس آتے۔ واپس گھر آنے کا کچھ مسئلہ ایسا نہ تھا۔ ویگن وغیرہ مل جاتی لیکن صبح ٹائم پر ٹرین پکڑنا ہوتی۔ اس مشکل وقت میں بھی سہیل نے میرا پورا ساتھ دیا۔ میری امی نماز پڑھ کر ہمارے ہاں آ جاتیں۔ امی کے گھر کے قریب ہی ہمارا گھر تھا۔ وہ بچوں کے پاس رہتیں اور سہیل مجھے سٹیشن چھوڑ کے آتا۔ سردیوں میں خاص طور پر خوب کمبل سویٹر میں خود کو لپیٹ کر یہ کام ہوتا۔ سہیل گھر واپس پہنچتا تو امی نے شیری کو تیار کیا ہوتا۔ وہ اسے سامنے والے سکول میں چھوڑتیں اور گود والی کو گھر ساتھ لے جاتیں۔ ایک بجے مائی سکول سے شیری کو امی کی طرف چھوڑ دیتی۔ گوجرانوالہ سے واپسی تیزگام میں ہوتی جو تقریباً سوا دو ڈھائی بجے لاہور پہنچتی۔ سہیل یونیورسٹی کا کام نمٹا کر سٹیشن پہنچ جاتا۔ اگر کبھی مجھے دیر ہو جاتی تو وہ انتظار کر لیتا اور اسے دیر ہوتی تو میں انتظار کرتی۔ ایسا ہوتا کم ہی۔
تقریباً چار سال میں اسی طرح سفر کرتی رہی۔ یہ زمانہ تو بہت اچھا گزرا۔ نہ میں نے شکوہ کیا کہ میں سفر کر کر کے تھک گئی ہوں، واپس آ کر بچوں کو بھی سنبھالنا ہوتا، گھرکا کام بھی منتظر؛ نہ ہی سہیل نے شکایت کی کہ میں اس خدمت سے بھر پایا۔ بس یہی سوچتے کہ یہ وقت بھی گزر ہی جائے گا اور کبھی نہ کبھی تو لاہور ٹرانسفر ہو ہی جائے گی۔ آخرِکار شاید میری ماں کی دعائیں ہی رنگ لائیں اور میری تقرّری لاہور میں ہو گئی۔ پہلے سمن آباد کالج میں تین برس رہی اور پھر باقی وقت لاہور کالج برائے خواتین میں گزرا۔ اس نوکری سے ایک بڑا فایدہ تو یہ ہؤا کہ میں خود بہت مصروف ہو گئی۔ کافی وقت کالج میں دوستوں کے ساتھ گزرتا۔ سہیل صبح ڈراپ کرتا اور واپسی امی کے ساتھ ہوتی۔ اب ہمیں پنجاب یونیورسٹی کی رہائشی کالونی میں گھر مل گیا تھا۔ گھر بالکل نیا تھا۔ اس کے پہلے مکین ہم ہی تھے۔ بڑا سا لان تھا۔ میں باہر بیٹھ کر اپنے آپ کو بہت آسودہ محسوس کرتی۔ پھر معاشی طور پر بھی ہم بہت بہتر حالات میں تھے۔ اس لیے یہ نوکری میرے لیے تو ایک نعمتِ خداوندی تھی۔
سہیل کی اپنی ایک دنیا تھی۔ وہ دنیا گھر سے باہر کی دنیا تھی۔ باہر کیا ہو رہا ہے؟ آج کل کن منصوبوں پر توجہ ہے؟ اس نے مجھے کبھی بھی خاص طور پر نہ بتایا۔ کون انڈیا سے آیا ہے؟ کون سی کانفرنسیں ہو رہی ہیں؟ میں تو بے خبر ہی رہتی۔ البتہ اب بھی میرے پاس سنانے کو بہت کچھ تھا۔ اپنے کالج کی باتیں، فنکشن کے قصے۔ میں بولتی رہتی، وہ کتاب پڑھتا رہتا۔ کبھی کبھی میں ناراض ہو جاتی: ”یہ کیا بات ہوئی۔ ایک بندہ بولتا جائے اور دوسرے کی طرف سے نہ ہوں نہ ہاں نہ کوئی تبصرہ۔“ وہ کتاب بند کر کے کہتا: ”بتاؤ کون سی بات میں نے نہیں سُنی؟“
”تم سنتے ہی نہیں۔ ایک بات بھی نہیں۔“
”اچھا، اگر تم سمجھتی ہو کہ میں تمہاری بات سنتا ہی نہیں تو نہ سنایا کرو۔“
”ہاں، بہتر تو یہ ہے کہ بندہ دیوار، کرسی، میز سے بات کرلے۔“
”دیواروں سے باتیں پاگل کرتے ہیں۔“ اس نے کتاب رکھ دی بلکہ اب تو اس نے چھیڑ سی بنالی: ”جاؤ، دیواروں سے، میز کرسیوں سے باتیں کرو۔“
روپے پیسے کی کمی یا زیادتی کا معاملہ کبھی ہمارے درمیان آیا ہی نہیں۔ اس کی تنخواہ کم تھی تب بھی گزارا ہو جاتا۔ ریڈیو سے آیا ہؤا دس روپے کا چیک بھی بہت اہمیت رکھتا۔ اور جب میری اپنی جاب شروع ہوئی تو مجھے اپنے اخراجات میں سہولت ہو گئی۔ سہیل نے کبھی نہ پوچھا: کہاں خرچ کرتی ہو؟ کہاں بچت رکھتی ہو؟ اسی طرح میرے لیے یہ عجیب بات تھی کہ ہر کام شوہر سے اجازت لے کر کیا جائے۔ میری کولیگز کہتیں: ”اُن سے پوچھوں گی یا میاں سے پوچھ کر بتاؤں گی۔“ یہ بات حیران کن تھی۔ میں نے تو ہمیشہ اپنی مرضی کی۔ یہ بات مجھے البتہ معلوم تھی کہ میری حدود کیا ہیں؟ سہیل کن باتوں کو ناپسند کرتا ہے، سو میں ہمیشہ ان سے احتراز کرتی۔ خود وہ کبھی کبھی جتا دیتا کہ میں نے تمہیں کتنی آزادی دی ہوئی ہے۔
بیٹیوں کی بھی ایک خاص ڈھنگ سے تربیت کی۔ آپس میں لڑنے اور اُونچا بولنے کی بالکل اجازت نہ تھی۔ جو بھی خریداری ہوتی سب کے لیے اکٹھی ہوتی۔ کسی نے کبھی نہیں کہا کہ دوسری کی چیز اچھی ہے یا میں نے یہ لینی ہے وہ نہیں۔ بس جو چیز مل گئی وہ اسی میں مست۔ بچپن سے ہی ان کو کتاب پڑھنے کی عادت ڈالی۔ چھوٹی چھوٹی کتابیں وہ ان کے لیے لاتا رہا لیکن ساتھ ساتھ ان کو کتاب حفاظت سے رکھنا بھی سکھایا۔ کتاب کا صفحہ موڑنے سے اسے بہت چڑ تھی۔ خود تو اسے یاد ہوتا کس صفحے پر چھوڑا تھا لیکن ان لوگوں کو نشانیاں بنا کر دی تھیں جو وہ کتاب بند کرتے وقت استعمال کرتیں۔ اسی طرح کاغذ پھاڑنے پر بہت ناراض ہوتا۔ مجھے یاد ہے میری بڑی بیٹی نے ایک مرتبہ کاپی سے صفحہ پھاڑا۔ اس وقت تقریباً پانچ سال کی تھی۔ سہیل نے اس کا کان پکڑا: ”آج کاغذ پھاڑا ہے، آیندہ ایسے کرتا دیکھا تو ——“ وہ سہم کر میرے ساتھ لگ گئی۔ ”بہت ظالم ہو۔“ میں دیر تک اسے تھپکتی رہی۔ اس کا کان سرخ ہو رہا تھا۔
اسی طرح ہاتھ دھو کر کھانا کھانا ہے۔ کھانے کے دوران باتیں نہیں کرنا۔ یہ اسی نے نامعلوم طریقے سے اُنہیں سکھایا۔ بظاہر کچھ نہیں کہنا لیکن ان کو پتا تھا ابو کو کیا بات ناپسند ہے۔
وہ سارا زمانہ کتنے آرام اور سہل روی سے گزرا۔ کب ان کے سکول کے زمانے ختم ہوے اور کالج چلی گئیں۔ شہرزاد اور ہما نے میڈیکل کی پڑھائی کو چنا اور چھوٹی نے سائیکالوجی کو۔
شہرزاد ابھی میڈیکل کے چوتھے سال میں تھی کہ سہیل کی بڑی خالہ نے اپنے نواسے معاذ کے لیے رشتے کی بات کی: ”سہیل، تمہارا بیٹا نہیں۔ معاذ تمہارا بیٹا بن کر رہے گا۔“ پورا خاندان اس رشتے پر بہت خوش تھا۔ معاذ تھا بھی بہت پُرکشش شخصیت کا مالک۔ ائیرفورس میں تھا اور مردانہ وجاہت کا نمونہ اور اس پر اس کی بے مثال عادات۔ شادی کے بعد وہ ہمارے خاندان میں شامل ہؤا تو واقعی ہمارے گھر میں جو کمی تھی وہ پوری ہو گئی۔ بہت کم آمیز۔ سہیل اُس سے کتنی باتیں کرتا۔ بہت سے کام اسے کہتا۔ میں بعض اوقات ناراض بھی ہوتی تو وہ معصومیت سے کہتا: ”خالہ نے کہا تھا نا کہ تمہیں بیٹا دیا ہے۔“ ”وہ تو رسماً کہتے ہی ہیں۔“ میں جواب دیتی۔ ”لیکن میں نے تو اسے رسماً بیٹا نہیں بنایا۔“ اس کا لہجہ کتنا ٹھوس تھا۔ مگر آہ! آسمان کی کج روی۔
چھوٹی نے ابھی ایم ایس سی سائیکالوجی کا امتحان دیا ہی تھا کہ اس کے لیے موزوں فیملی مل گئی۔ وہ اپنے گھر کی ہو گئی۔ ہما البتہ انگلینڈ جانے کی خواہش مند تھی F.R.C.S. کے لیے اور امتحان کی تیاری کر رہی تھی۔ ۰۰۰۲ء میں جاپان جانے کا بن گیا۔ کسی دوسرے ملک میں جانے کا اُسے کوئی شوق نہ تھا لیکن جاپان کا سلسلہ خودبخود بنتا چلا گیا۔ ٹوکیو یونیورسٹی کے ساتھ ایشین ڈیپارٹمنٹ میں بطور سینئر پروفیسر اُردو دو سال کا معاہدہ ہؤا۔ میں اپنی ملازمت کی وجہ سے ساتھ نہ جا سکی۔ میرا خیال تھا کہ اسے دوسروں سے ملنے جلنے کا کوئی خاص شوق تو ہے نہیں، خوب خوش رہے گا لیکن وہ تنہائی اور اجنبیت سے بہت جلد گھبرا گیا۔ ایک جاپانی کولیگ نے کہا: ”آپ ڈائریکٹ فون لائن لے لیں۔ گھر بات چیت ہوتی رہے گی تو آپ کو اچھا لگے گا۔“ پوری زندگی میں وہ عرصہ تھا جب وہ فون کرتا۔ میں گھر کی باہر کی ساری کارروائی سناتی اور وہ شوق سے سنتا۔
ٹوکیو یونیورسٹی میں دستور ہے کہ ایک ٹرم، جو کہ پانچ ماہ کی ہوتی ہے، ختم ہونے کے بعد آپ چاہیں تو دوسرے ممالک میں سیروتفریح کے لیے چلے جائیں، چاہیں تو اپنے ملک سے ہو آئیں۔ چھٹیاں تین ماہ کی ہوتی ہیں: اگست، ستمبر، اکتوبر۔ پوری زندگی میں یہ پانچ ماہ تھے جو ہم نے الگ الگ گزارے۔ اس کا چھٹیوں پر آنا ہمارے لیے بے انتہا پُرمسرت تھا۔ پھر میں نے جاپان جانے کا پروگرام بنا لیا۔ ویزا تو لگا ہی ہؤا تھا۔ میں تقریباً چار ماہ ٹوکیو میں رہی۔ اتنا خوبصورت ملک، عمدہ موسم، مہذب لوگ۔ میرا تو جی چاہتا کہ یہاں کافی عرصہ گزارا جائے لیکن سہیل کا کہنا تھا کہ دو سال کے لیے آئے ہیں۔ بس۔ میں نے ایکسٹنشن نہیں لینی۔ میں جب ٹوکیو پہنچی تو دوسرے دن اس نے بڑی سنجیدگی سے کہا: ”میں تم سے ایک ضروری بات کرنا چاہتا ہوں۔“ اتنی سنجیدگی! میں تو پریشان ہو گئی۔ ”جانتی ہو، یہاں سینئر پروفیسر کی تنخواہ بہت زیادہ ہے۔“ ”پھر؟“ میرا لہجہ سوالیہ تھا۔ ”میں نے تنخواہ کے تین حصے کیے ہیں۔ ایک حصہ میرا خرچہ، دوسرا حصہ تمہارے لیے اور تیسرا حصہ کتابوں کے لیے۔“ کتابیں اس نے کب نہیں خریدی تھیں؟ تنگ دستی کے زمانے سے یہ شغل جاری تھا اور اب تو خیر ”ین“ (جاپانی کرنسی) کی فراوانی تھی۔ کتابیں ہیں کہ چلی آ رہی ہیں۔ انٹرنیٹ پر نئی تصانیف چیک ہو رہی ہیں۔ آرڈر دیے جا رہے ہیں۔ پھر ٹوکیو کی کتنی کتنی منزلہ کتابوں کی دکانیں۔ ”یہ سب لاہور کیسے پہنچیں گی؟“ ”ایجنٹ کے ذریعے میں نے سارا بندوبست کر لیا ہے۔“ اس نے اطمینان سے جواب دیا۔ ”لاہور میں لوگوں نے کہا تھا ٹوکیو بہت مہنگا ہے، دھیان سے خرچ کرنا لیکن میں نے تو خوب کُھلا خرچ کیا۔ ہمیں جمع کر کے پاکستان میں اکاؤنٹ بڑھا کر کیا لینا تھا۔“
جاپان میں ہم نے بہت اچھے دن گزارے۔ سہیل مجھے اپنے ڈیپارٹمنٹ لے گیا۔ ساتویں منزل پر اس کا کمرہ تھا۔ اُوپر جانے آنے کا عام ذریعہ لفٹ تھی۔ اس کے کمرے میں دیواروں کے ساتھ الماریاں تھیں جو کتابوں سے بھری تھیں اور ان میں بہت سی ایسی تھیں جو پاکستان میں نایاب تھیں۔ مثلاً قرۃ العین کے بہت سے سفرنامے۔ اسی طرح ایک افسانوی مجموعہ ”روشنی کی رفتار“ جس کے افسانے مختلف انتخابوں میں تو مل جاتے لیکن ”روشنی کی رفتار“ کو دوبارہ پڑھنے کی خواہش تھی۔ کرشن چندر کے افسانے، پھر بہت سے تراجم۔ ان میں جاپانی سے اُردو میں ناولوں کے ترجمے شامل تھے۔ بہت سی کتابیں میں ساتھ لے آئی۔ یونیورسٹی میں پیریڈ ڈیڑھ سے تین گھنٹے کا ہوتا ہے۔ عام طور پر ایک کلاس کے ہفتے میں تین پیریڈ ہوتے تھے۔ یونیورسٹی سے لوٹ کر وہ گھر پر ہی رہتا۔ شام کو اکثر ہم لوگ کھانا باہر کھاتے۔ ہمارے رہائشی علاقے کا نام تاما تھا۔ اس سے کوئی بیس میلے کے فاصلے پر کھچی جوجو تھا۔ اسے نوجوانوں کا شہر بھی کہتے تھے کیوں کہ وہاں دو تین پرائیویٹ یونیورسٹیاں تھیں۔ وہیں ایک مارکیٹ تھی جہاں پوٹھوہار کے نام سے پاکستانی ریسٹورنٹ تھا۔ راولپنڈی کے لوگوں نے کھولا ہؤا تھا۔ کُک بھی پاکستانی تھا۔ جاپان سے بہت بیزار۔ میں جاتی تو وہ پاکستان کی باتیں کرتا رہتا۔ ریسٹورنٹ بھی بہت مزے کا تھا۔ درمیان میں کچن تھا جس میں تنور بھی تھا اور اسی تنور میں لمبی لمبی سلاخوں پر سیخ کباب لگاتے۔ ایگزاسٹ کچھ اس طرح لگے تھے کہ سالن یا کبابوں کی خوشبو خودبخود باہر نکلتی رہتی۔ اس کچن کے اردگرد کاؤنٹر تھے جہاں اُونچے اونچے سٹولوں پر بیٹھ کر کھانا کھاتے۔ سہیل کی وہ بہت عزت کرتے۔ باری باری سارے کام کرنے والے اس سے ہاتھ ملانے آتے اور اگر کبھی ہم دو تین دن نہ جاتے تو کسی نہ کسی جاپانی سٹوڈنٹ کے ذریعے پیغام آتا کہ ہم انتظار کر رہے ہیں۔ جاپانی بھی پاکستانی باربی کیو بہت پسند کرتے۔ تنور سے گرما گرم روٹیاں نکلتیں، لمبی سلاخوں سے کباب اُترتے، گرم گرم چکن کڑاہی سامنے ہوتی —— کھانا کھانے کا مزہ آ جاتا۔
ایک دن سہیل کہنے لگا: ”تمہیں شوق ہوتا تھا کہ تنور پر بیٹھ کر کھانا کھایا جائے۔ چلو، ٹوکیو میں آ کر پورا ہو گیا۔ خواہش کرنی چاہیے۔ کبھی نہ کبھی پوری ضرور ہوتی ہے۔“ ”طنز کر رہے ہو؟“ میں نے مزید روٹی لیتے ہوے کہا۔ ”نہیں، خوش ہو رہا ہوں۔“
”تمہیں سچ مچ اس طرح مزہ نہیں آتا؟“
”نہیں، اچھا لگتا ہے۔ پھر تم پکانے کی زحمت سے بچتی ہو۔“
کھانا کھا کر ہم باہر نکلتے اور واک کرتے کرتے قریبی پارک میں چلے جاتے۔ وہاں ایک آئس کریم پارلر تھا۔ جو تھا تو بہت مہنگا لیکن آئس کریم مزے کی ہوتی۔ سہیل کو حالانکہ آئس کریم اور میٹھے سے کوئی خاص شغف نہ تھا لیکن وہ میرا ساتھ دیتا۔ میں چار سکوپ لیتی وہ ایک پر اکتفا کرتا۔
میں تو اس وقت سے بہت لطف اندوز ہوئی۔ نہ کوئی فکر نہ کسی کی پروا۔ واپس ہوتے ہوتے ہمیں بارہ تو بج ہی جاتے —— گھر کے راستے میں ایک دو کوک اور دوسری ڈرنکس کی مشینیں تھیں، اکثر وہ مشین کے پاس رک جاتا: ”کوک کا ٹِن لینا ہے؟“ میں سر ہلاتی تو وہ مشین میں سکّے ڈال کر ٹِن نکال لیتا۔
ہمارے گھر کے قریب ایک شاپنگ مال تھا۔ موسامشی سکائی اس جگہ کا نام تھا جہاں وہ مال تھا۔ کسی دن ہم وہاں چلے جاتے۔ چھوٹی موٹی شاپنگ کرتے۔ زیادہ تر چیزیں بچوں کی ہوتیں یا اگر کوئی اچھا سویٹر نظر آ جاتا تو بیٹیوں کے لیے خرید لیتی۔ کبھی کراکری کا کوئی پیس پسند آ جاتا۔ وہ لے لیا جاتا۔ اتنی اچھی اچھی چیزیں تھیں کہ اگر سامان کے وزن کا خیال نہ ہوتا تو پتا نہیں کیا کچھ لے ڈالتی۔
پندرہ دن بعد ہم اکی بوکرو جاتے۔ یہ ایک بہت بڑا علاقہ تھا جہاں جانے کے لیے دو تین ٹرینیں بدلنا پڑتیں۔ اکی بوکرو میں شہزاد صاحب کا سٹور تھا جہاں حلال گوشت ملتا تھا۔ گوشت ہم اُدھر سے لاتے۔ کبھی ان سے فلمیں بھی لے آتے یا وہ خود ہی بتا دیتے کہ نئی فلم آئی ہے۔ پردیس میں ہم وطن کی ملاقات بہت بھلی لگتی۔ شہزاد صاحب نے تو جاپانی زبان بھی سیکھی ہوئی تھی اس لیے وہ کہتے تھے: ”جاپان تو اب دوسرا وطن بن چکا ہے۔“
جاپان میں مَیں نے جو چار ماہ گزارے بہت ہی اچھے گزرے۔
تمباکو نوشی سے سہیل کو بڑا پرانا شغف تھا۔ پہلے تو کھانے کے بعد پائپ کے کش ضروری تھے، ٹوکیو میں زیادہ عرصہ اکیلا رہا اس لیے یہ عادت بڑھتی گئی۔ جاپان میں لوگ سگریٹ نوش زیادہ ہیں۔ ایرن مور کی تلاش میں ہمیں بڑی خواری ہوتی۔ ایک دن میں نے کہا: ”سارا ٹوکیو تمباکو سے خالی کر دیا ہے، اب تو خدا کا کچھ خوف کرو۔“ اتفاق سے وہاں تازہ سٹاک آیا ہؤا تھا۔ اِس کی خوشی کا تو عالم ہی اور تھا۔ پورا کارٹن خرید کر شاداں و فرماں واپس لوٹے۔ میں گھر آ کر کچھ دیر تو خاموش بیٹھی رہی۔ یہ آ کر میرے قریب کھڑا ہو گیا: ”کتنا کچھ خریدتی ہو۔ میں نے منع کیا؟ میرا یہ بے ضرر سا شوق تمہیں گراں گزرتا ہے!“ ”یہ بے ضرر نہیں ہے۔“ میں تڑپ اٹھی۔ ”شیری بتا رہی تھی۔“ ”چھوڑو اُس کو۔ ڈاکٹر تو ڈراتے ہی ہیں۔“ اس نے پائپ نکال کر اس میں تمباکو بھرا۔ اپنی مخصوص کرسی پر بیٹھ کر تمباکو سلگا لیا اور کتاب کھول لی۔ میں نے دل میں کہا: ”لیجیے، ان کی تو زندگی مکمل ہو گئی۔“
جاپان سے واپسی پر سہیل نے یونیورسٹی جوائن تو کر لی لیکن اب وہ یہاں ایڈجسٹ نہیں کر پا رہا تھا۔ پرنسپل شپ چھوڑی کہ ”اب مجھ سے فوجی V.C. کے ہاں حاضری نہیں دی جاتی۔“ ایک دن آ کر اعلان کیا کہ میں ریٹائرمنٹ لے رہا ہوں۔ میں نے پُرمسرت لہجے میں کہا: ”اچھی بات ہے۔ ہم نے بھی فرائض پورے کر لیے ہیں۔ اچھا ہے تم گھر رہو گے۔“ ”نہیں، گھر تو نہیں رہوں گا۔ سوچیں گے۔“
پھر سہیل نے گورنمنٹ کالج یونیورسٹی جوائن کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ زندگی میں مَیں نے پہلی بار اس کے اس فیصلے کی شدید مخالفت کی۔ اس نے یونیورسٹی میں ساری عمر نوکری کی۔ یونیورسٹی کا ماحول کالجوں کے ماحول سے بہت مختلف ہوتا ہے۔ میں جانتی تھی کیونکہ میری زندگی تو کالج میں پڑھاتے گزری تھی۔ اوراب تو یہ ہو گیا کہ کالج یونیورسٹیاں بن گئے۔ ایم فل کی کلاسیں شروع ہو گئیں۔ پی ایچ ڈی کے ہنگامے۔ پھر شاید سہیل کو بھی اپنی خوابیدہ صلاحیتیں اُجاگر کرنے کا موقع ملا۔ اُردو کانفرنس ہو رہی ہے۔ انڈیا، کراچی، پشاور سے شرکا آ رہے ہیں۔ مصروفیت، بے حد مصروفیت۔ نہ کھانے کا ہوش نہ آرام کا۔ صبح آٹھ بجے کا گیا شام پانچ چھ بجے واپس آتا۔ ”کچھ کھایا پیا تھا؟“ ”نہیں، وقت ہی نہیں ملا۔“ سارا دن تمباکو کا دھواں، چائے۔ وہ کھانا گھر آ کر ہی کھاتا۔
ساری عمر ہم اکٹھے گھر سے نکلے اکٹھے واپس آئے۔ اب چونکہ شیڈول نہیں ملتے تھے اس لیے گاڑیاں الگ الگ ہو گئیں۔ میرے لیے ڈرائیور آ گیا۔
معاذ کی تقرّری ان دنوں سرگودھا میں تھی۔ شیری کے ہاں دوسرے بچے کی آمد تھی۔ سو میں جولائی کے شروع میں سرگودھا چلی گئی۔ گیارہ جولائی ۵۰۰۲ء کو چھوٹا بیٹا زوہیب پیدا ہؤا۔ میں اُس کی پیدائش کے بعد ایک ہفتہ سرگودھا رہی۔ شیری نے دیکھا کہ میں اب واپس جانا چاہ رہی ہوں تو اُس نے کہا: ”آپ چلی جایئے۔ اس ویک اینڈ پر معاذ ہمیں لاہور چھوڑ آئے گا، پھر میں کافی دن آپ کے پاس رہوں گی۔ ابو بھی اکیلے ہیں۔“ میں ڈائیوو سے لاہور پہنچی۔ شام کے تقریباً چھ بجے تھے۔ ڈرائیور بشیر مجھے دور سے نظر آ گیا۔ مجھے موہوم سی اُمید تھی کہ سہیل لینے آیا ہو گا لیکن وہ مجھے کہیں دکھائی نہیں دیا۔
ڈرائیور نے میرا بیگ اُٹھایا اور گاڑی کے قریب جا کر اِدھر اُدھر دیکھتے ہوے کہنے لگا: ”صاحب نظر نہیں آ رہے۔“
”سہیل صاحب آئے ہیں؟“ مجھے یوں جیسے اعتبار نہ آ رہا ہو۔ ”ہاں آئے تھے۔ کدھر نکل گئے۔“ وہ اِدھر اُدھر دیکھ رہاتھا کہ سامنے سے سہیل آتا دکھائی دیا۔ اس کے چہرے پر مسکراہٹ تھی۔ ”آگئیں۔ نانی بن کر بڑے رنگین کپڑے پہنے ہیں۔“ شاید لون کے سوٹ کا رنگ زیادہ شوخ تھا۔
”نانی تو کب کی بن چکی ہوں۔ نانا جان، آپ اپنی سنائیں۔“
”مزے سے ہوں۔“ وہ گاڑی کا دروازہ کھولتا ہؤا بولا۔
میں گھر آئی تو کچھ اداس سی ہو گئی۔ اس نے باہر بیٹھ کر پائپ سلگا لیا۔ میں خواہ مخواہ بچی کو چھوڑ آئی۔ اس کی زندگی میں میرا ہونا یا نہ ہونا اب کیا معنی رکھتا ہے؟ ایک مرتبہ پھر وہی آنسو اُمنڈنے لگے جو شادی کے ابتدائی سالوں میں اُمنڈتے تھے!
میری واپسی کے تین دن بعد شیری آ گئی۔ گھر میں خوب رونق ہو گئی۔ ہفتے کے روز یہ لوگ آئے۔ معاذ نے پیر کی چھٹی لی تھی۔ یہ وہی پیر کا دن تھا جس نے میری زندگی کی ساری آسودگی اور سکون کو بہا کر لے جانا تھا۔ صبح آٹھ بجے معاذ اُٹھا، یہ کہتے ہوے کہ سر میں شدید درد ہو رہا ہے۔ شیری اسے فوراً ہی سی ایم ایچ لے گئی۔ وہ سر درد عام درد نہ تھا۔ برین ہیمبرج ہؤا تھا جس نے میری بیٹی کی سات سالہ ازدواجی زندگی کا خاتمہ کر دیا۔ معاذ ختم ہو گیا!
یہ ایک ایسا سانحہ تھا جو میری برداشت سے باہر تھا۔ میری بیٹی تو بالکل خاموش ہو گئی۔ اور میرے آنسو تھے کہ تھمتے نہ تھے۔ یوں لگتا تھا کہ دنیا ان میں ڈوب جائے گی اور وحشت اس قدر کہ صحراؤں کی وسعت بھی اس کے سامنے ماند تھی!
سہیل نے اس غم سے نکلنے کا یہی طریقہ مناسب سمجھا کہ باہر کی دنیا میں مصروف ہو گیا۔ لوگ افسوس کرنے آتے تو وہ کہتا: ”بس جی، اللہ کی یہی مرضی تھی۔“ میرا جی چاہتا اسے جھنجھوڑ کر پوچھوں کہ ”اللہ کی یہ مرضی کیوں تھی؟ کیوں وہ اتنی لاتعلقی دکھا رہا ہے؟“
معاذ کا ذکر بھی وہ بہت کم کرتا۔ اور میرا حال یہ تھا کہ چاہتی تھی جو کوئی بات کرے معاذ کی بات ہو، جو مجھے ملنے آئے میرے ساتھ آنسو بہائے۔ یہی وہ دن تھے جب مجھے لگا کہ وہ تو ہمیشہ میرے احساسات سے بے گانہ رہا۔ میں اسے ڈھونڈتی ہی رہی۔ اسے میرے غم کا اندازہ کیوں نہیں ہے؟ وہ میرے کرچی کرچی دل کی بے تابی کو محسوس کیوں نہیں کرتا؟ گورنمنٹ کالج یونیورسٹی میں فنکشن ہو رہے ہیں۔ شام کو وہ پھولوں کا بُوکے لیے گھر میں داخل ہوتا۔ میرا جی چاہتا وہ سب کچھ چھوڑ کے میرے پاس رہے۔ مجھ سے معاذ کی باتیں کرے۔ لیکن مجھے تو اکیلے ہی رونا تھا۔ اور میں بہت روئی: دعا مانگتے ہوے، گاڑی میں بیٹھے بیٹھے، سڑک پر چلتے پھرتے لوگوں کو دیکھ کر۔
اب شالیمار ہسپتال کے کمرے میں بستر پر لیٹا وہ کسی گہری سوچ میں تھا:
”تم جانتی ہو، میں اندر سے کتنا سخت انسان ہوں۔“
میں خاموش بے بسی سے اسے دیکھتی رہی۔
”معاذ کی موت نے مجھے توڑ دیا۔“
یہ اس کا اقرارِ شکست تھا۔ وہ غم سے لڑتا رہا۔ اس نے تو کبھی کسی کی پروا نہ کی تھی۔ شاید سوچتا ہو گا میں اس غم پر حاوی آ جاؤں گا۔ جوان بیٹوں کی موت کمر توڑ دیتی ہے۔ معاذ تو اس کا بیٹا بھی تھا، داماد بھی اور بے حد محبت کرنے والا، اس کو سمجھنے والا دوست بھی۔ سہیل بیمار بھی کتنے دن رہا۔ یوں گیا جیسے کوئی اچانک اُٹھے اور چل دے۔
اب میں تنہا بیٹھی سوچتی ہوں: میرے لیے کون سا غم بڑا ہے؟ معاذ کی موت کا غم یا سہیل کے جانے کا غم کہ جس سے جُدا ہونے کا میں نے کبھی سوچا بھی نہ تھا۔ جس کا آیندہ زندگی کا منصوبہ یہ تھا کہ جہاں معاذ کی ٹرانسفر ہو گی ہم بھی اُسی شہر میں کرایے پر گھر لے لیا کریں گے۔ میرا خیال ہے کہ معاذ کے سہارے ہمارا بڑھاپا اچھا گزر جائے گا۔ سہیل اگر کبھی مجھ سے ناراض ہوتا تو اس کی ناراضگی دو تین گھنٹے سے زیادہ نہ رہتی۔ میں کسی نہ کسی بہانے اسے منا لیتی۔ میں اس کو منا نہ سکی۔ کوئی بات نہ کر سکی۔ ایک سکتے کی کیفیت تھی اور وہ چلا گیا —— میرے پاس تو آج نہ معاذ کا سہارا ہے اور نہ سہیل کی رفاقت کہ جس کا صرف گھر میں ہونا ہی میری طاقت بن جاتا۔ دنیا ایک آزمائش گاہ ہے۔ سنتے تو تھے —— لیکن اب تو برت کر بھی دیکھ لیا!