لاہور میرے اندر،میرے باہر

یہ تحریر 513 مرتبہ دیکھی گئی

میرے شعور کا پہلا پڑاؤ لاہور کے دو باغات ہیں جو شہر کے گردا گرد پھیلے ہوئے تھے۔ ان میں ایک مدور چھوٹی سی نہر بہتی تھی جو باغوں کی خوبصورتی میں اضافے کا باعث تھی۔ والد صاحب مرحوم (ابو الفضل عباس) اللہ اُن کو کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے کی انگلی پکڑ کر لاہور کے ان قدرتی مناظر سے میری شناسائی کا آغاز ہوا۔ غالباً یہ 1958ء کا زمانہ تھا، ایوب خان کی حکومت ہو گی مجھے اس وقت نہ حکومت کا پتا تھا نہ ایوب خان کا۔ بہرحال یہی دور تھا اس زمانے کی دو تین یادیں ابھی تک ذہن میں محفوظ ہیں۔


ایک تو یہ کہ دودھ والی دوکانوں پر جالیاں لگا دی گئی تھیں، والد صاحب کبھی کرشن نگر (موجودہ اسلام پورہ) کے ایک مخصوص دودھ والے کی دوکان پر لے جاتےتھے، کبھی لسی کبھی گرم دودھ پلواتے تھے،بڑے بڑے پیالوں میں گرم دودھ موٹی ملائی کے ساتھ۔ ویسا دودھ اب کبھی نہیں پیا۔
دودھ والا بھی بہت وجیہہ لمبا قد، باریک مونچھیں، گورا چٹا۔ اس کی دوکان ابھی بھی موجود ہے اور شاید بیٹا بیٹھتا ہے سراج بلڈنگ کے سٹاپ پر۔ دوسرے ہر دوکان پر ایوب خان کی تصویر نظر آتی تھی۔ مکافاتِ عمل دیکھیے، اپنے دور میں اس تصویر والے ایوب خان کو بعد میں بچے گلی گلی “کتا” کہتے ہوئے پھرتے تھے۔ دروغ بر گردن راوی ایوب خان اپنے گھر ریحانہ گئے تو اپنے ہی پوتوں اور نواسوں کو یہ نعرہ لگاتے سنا، کہتے ہیں اسی دن انھوں نے حکومت چھوڑنے کا فیصلہ کر لیا۔
لاہور کے باغات:
والد صاحب مرحوم ضلع کچہری لاہور میں ملازم تھے ڈسٹرکٹ ناظر کے عہدہ پر بعد میں دفتر خزانہ میں اکاؤنٹنٹ ہوئے اور بعد میں ترقی کرتے کرتے ٹریزری آفیسر ہو کر ریٹائر ہوئے تھے۔
انھوں نے مجھے چھٹی جماعت میں داخلہ مسلم ہائی سکول نمبر 2 میں دلایا تھا وجہ یہ کہ سکول ان کے دفتر سے صرف پانچ یا سات منٹ کے فاصلے پر تھا۔ میں اُن کے ساتھ ہی ایک نمبر بس میں بیٹھ کر آتا ۔میں سکول چلا جاتا وہ اپنے دفتر۔ واپسی پر بھی ان کے ساتھ گھر جاتاتھا۔ اس زمانے میں لاہور کا ٹرانسپورٹ سسٹم بہت عمدہ تھا “لاہور اومنی بس سروس (LOS)” کے نام سے سروس چلتی تھی۔ بہت آرام دہ بسیں، نئی بھی، پرانی بھی، ڈبل ڈیکر بس بھی چلتی تھی، اوپر کی منزل میں پہلی سیٹ پر سفر کا لطف تو بیان سے باہر ہے۔ یہاں ڈبل ڈیکر بس کے اوپر والے حصے کے سفر کا ایک واقعہ یاد آ گیا۔
سن لیجیے ۔۔۔۔ یہ 1998ء کا ذکر ہے پروفیسر صادق انٹرنیشنل سیمینار میں شرکت کے لیے حسن رضوی مرحوم اور سعادت سعید کے ہمراہ لندن گیا تو سیمینار کے بعد ابھی ہم لوگ لندن ہی میں تھے کہ ناروے سے بلاوا آ گیا، پاکستان ڈے کی تقریب میں شرکت کے لیے اپوا کالج کی پرنسپل شکیلہ شریف جو بعد میں شکیلہ رشید ہوئیں اُس دور میں وہاں پاکستان کی سفیر تھیں۔ حسن رضوی کا ویزا پہلے ہی لگا ہوا تھا ہم دونوں کو ویزے کے لیے ناروے سے خط منگوانا پڑا جس کا بندوبست حسن رضوی نے کر دیا تھا۔ چنانچہ اب صرف سفارتخانے جا کر ویزے لگنے کے لیے پاسپورٹ جمع کروانا تھا۔ ویزے کا فیکس پہلے ہی سفارتخانے پہنچ چکا تھا۔ حسن رضوی ہم دونوں کو لازمی طور پر ساتھ لے جانا چاہتے تھے تاکہ اکٹھے پاکستان واپس ہو سکیں۔ چنانچہ ایک دن صبح صبح انھوں نے ہم دونوں کو گھر سے نکالا کہ جاؤ ویزا لگوا آؤ۔ ہم ساؤتھ آل میں اعجاز احمد اعجاز کے گھر ٹھہرے ہوئے تھے۔ گھر سے نکل کر جب بس سٹاپ پر آئے تو ڈبل ڈیگر آتی دکھائی دی۔ بس پھر کیا تھا سعادت سعید مچل گیا کہ یار چھوڑو ویزا شیزہ کوکوکولا لو اور سب سے اوپر والی منزل کی اگلی سیٹ پر بیٹھ کر ڈبل ڈیکر کی سواری اور لندن کی تازہ ہوا کا لطف لیتے ہیں ۔میں نے بہت کہا، حسن رضوی ناراض ہو گا کہنے لگا یار کہہ دیں گے رش تھا نمبر نہیں آیا ہمارا۔ مرتا کیا نہ کرتا ڈبل ڈیکر میں بیٹھ گئے اور واقعی اس روز جو لطف آیا لندن کی سیر کا ایسا کبھی نہیں آیا تھا۔ سعادت سعید زندہ باد مگر جب تھکے ہارے شام کو واپس ہوئے تو حسن رضوی کی خشمگیں نگاہوں سے بچنے کے لیے میں تو سیدھا واش روم میں چلا گیا، باہر سے آوازیں بھی آ رہی تھیں سعادت سعید منمنارہا تھا یار باری نہیں آئی اور حسن رضوی گرج رہا تھا کہ میں خود وہاں ہو کر آیا ہوں تقریباً دو بجے سفارتخانہ خالی تھا وہاں ایک آدمی نہیں تھا رش کا کیا ذکر! باہر آ کر میں نے کہا یار اُس وقت ہم دونوں ٹریفاگر سکوائر میں فوارے کے پاس بیٹھ کر کبوتروں کا نظارہ کر رہے تھے ہمیں کیا معلوم سفارتخانے میں کیا تھا کیا نہیں تھا۔ اس جواب پر ہم تینوں کھلکھلا کر ہنس پڑے۔ اگلے دن حسن رضوی نے خود ساتھ جا کر ہمارا دونوں کا ویزا لگوایا اور بعد میں ہم اوسلو کے لیے طیارے میں سوار ہو کرناروے گئے۔
یہ تو جملہ معترضہ تھا۔ اب بات وہیں سے شروع کرتے ہیں جہاں ختم ہوئی تھی۔
قدیم دور ہی سے لاہور باغوں کا شہر ہے۔ شہر کی فصیل کے گرداگرد ایک باغ تھا جس کے بیچوں بیچ ایک پتلی سی پانی کی لکیر چلتی تھی جسے میں نہر سمجھتا تھا حالانکہ وہ پتلی سی پانی کی لکیر تھی۔
میری یادوں میں آج بھی لاہور کے باغ محفوظ ہیں۔ مجھے آج بھی یاد ہے کہ میں اپنے ابا کے ساتھ بھاٹی دوازے سے لے کر دہلی دروازے تک ان باغوں کی سیر کیا کرتا تھا۔ اس باغ میں ہمیں جا بجا مختلف منظر نظر آتے۔ کہیں چنڈو پینے والے بیٹھے ہیں تو کہیں مالشیے، جن سے بزرگ مالش کروا رہے ہیں، کہیں پہلوانوں کے اکھاڑے ہیں جن میں نوجوان زور کر رہے ہیں اور خلیفے کنارے پر بیٹھے حقہ گڑگڑا رہے ہیں۔ کہیں چوسر کی بازی لگی ہوئی ہے تو کہیں چبوتروں پر موسیقی کی محفل جمی ہوئی ہے جس میں ہیر رانجھا کی کہانی مخصوص لے میں گائی جا رہی ہے۔ باغ کی مخمور فضا کی خوشبو آج بھی میری سانسوں کو معطر کرتی ہے اصل میں اُس دور کا یہ لاہور مجھے حقیقتاً آج بھی ہانٹ (Haunt) کرتا ہے۔
کہ مجنون لام الف لکھتا تھا:
ہمارے گھر کے قریب ہی ایک سکول تھا، انگریزی میڈیم نرسری سے پرائمری کلاس تک اس سکول کا نام ھیپی کنڈر گارٹن سکول تھا آج کل گورنمنٹ ھیپی ہائی سکول کے نام سے راج گڑھ میں کام کر رہا ہے۔ 1977ء میں نیشنلائز ہو گیا تھا۔ سکول میں انتہائی عمدہ ماحول تھا۔ خواتین اساتذہ شفیق اور تربیت یافتہ تھیں۔ ھیڈ مسٹریس (جو خود ہی مالک تھیں) کا نام مس زبیدہ تھا۔ میری کلاس ٹیچر مس بدر تھیں جو ساندہ کلاں کی بڑی مسجد کے خطیب مولوی رمضان علی کی صاحبزادی تھیں۔
اس ماحول میں پہلی مرتبہ حرف و صوت سے آگہی ہوئی۔ میری انگریزی زبان میں شدھ بدھ کی بنیاد اسی سکول میں رکھی گئی جس پر آگے چل کر عمارت قائم ہوئی۔
اس سکول کے دور کا اپنا ایک دوست ابھی تک مجھے یاد ہے۔ وہ ایک معروف میڈیا پرسن کا بیٹا ہے پرویز کلیم جو آج کل انتہائی کامیاب فلم ڈائریکٹر ہے۔ اُس نے ‘گناہ’، ‘ پہلا سجدہ’ اور ‘بت شکن’ جیسی نامور فلمیں بنائیں، سکول میں پیجا کہلاتا تھا۔ بہت شوخا ٹائپ لڑکا تھا صرف میرا دوست تھا مجھے گھر بھی لے جاتا تھا میرے گھر بھی کبھی کبھی آتا تھا۔ اس کی ماں اللہ جنت نصیب کرے بہت محبت سے پیش آتی تھی، کئی ایک دفعہ میں نے اُن کے ہاں سے دوپہر کا کھانا بھی کھایا۔ اس سکول کی بس ایک یہی یاد ذہن میں رہ گئی ہے۔ چوتھی جماعت تک یہاں تعلیم حاصل کی۔ پھر چھٹی جماعت میں مسلم ہائی سکول ریٹیگین روڈ (ضلع کچہری کے پچھواڑے) ابا نے داخل کروا دیا۔ ایک کلاس آگے کرنے کی وجہ ایک تو میری لیاقت و ذہانت (بزعم خویش) تھی دوسرے پچھلے سکول میں چونکہ ایک سال زیادہ عمر لکھوائی گئی تھی اس کا حساب بھی برابر کرنا تھا۔ مسلم ہائی سکول نمبر 2 کا شمار اس دور کے اچھے پرائیویٹ سکولوں میں ہوتا تھا۔ ایسا سکول جس میں سوئمنگ پول بھی تھا اور باقاعدہ بینڈ بھی جو بڑے برے مقابلے جیت کر آتا تھا۔ میں بھی سکول بینڈ میں شامل ہو گیا تھا اور ایک ڈرم بجاتا تھا۔ ہمارے میوزک ٹیچر شروع میں کسی فرش پر سٹک کے ذریعے ابتدائی سبق دیتے تھے پھر ڈرم کو ہاتھ لگانے دیتے تھے۔ انتہائی محنتی استاد تھے، ڈسپلن کے پابند، سکول میں سالانہ کیمپ فائر ہوا کرتی تھی جس میں موسیقی کاپروگرام بھی شامل ہوتا، یہاں پہلی مرتبہ میں نے خالد عباس ڈار جو خود اس دور میں طالب علم تھے کو کیمپ میں گاتے سنا، انھوں نے اُس دور کا اپنا ھٹ گانا سنایا:
شہر کے بیچوں بیچ ہے یارو ایک اکیلی بستی یونیورسٹی
ٹیڈی کپڑے پہن کے نکلی دینیات کی لڑکی یونیورسٹی
اس کیمپ فائر کے سکول میوزک گروپ میں میں بھی شامل تھا۔ پاکستان کا قومی ترانہ آخر میں ہمارا گروپ پیش کیا کرتا تھا۔ یہیں میں نے سکاؤٹنگ میں بھی شمولیت کی اور ریڈ کراس کی تربیت بھی حاصل کی۔ یہ تربیت آگے چل کر میری شخصیت میں نظم و ضبط کا سبب بنی۔ آج کل یہ سب باتیں، قصہ ء پارینہ بن چکی ہیں۔ اب تو ہر پیدا ہوئے بچے کے ہاتھ میں موبائل دیکھیے۔ بس!
جاری ہے۔۔۔۔۔۔